الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فإن النوم في هذا الوقت جائز بمعنى أنه لا يأثم فاعله، ولو لم يكن محتاجا إليه. وقد كرهه بعض أهل العلم نظرا لما يترتب عليه من آثار صحية وغيرها، إلا إذا كان لحاجة. وقد ورد أن الرزق يقسم في ذلك الوقت. وعلى هذا، فإذا كان عدم النوم في هذا الوقت يؤثر عليك ويقلل نشاطك في عملك فلا حرج عليك في أن تنام فيه، وإن لم يؤثر عليك فلا شك أن الأفضل أن تشتغل بالذكر أو القراءة في ذلك الوقت.
قال ابن القيم في زاد المعاد : نوم الصبحة يمنع الرزق لأن ذلك وقت تطلب فيه الخليقة أرزاقها وهو وقت قسمة الأرزاق فنومه حرمان إلا لعارض أو ضرورة . انتهى . قال الحافظ بن حجر في الفتح : وقد ورد أن الرزق يقسم بعد صلاة الصبح، وأن الأعمال ترفع آخر النهار، فمن كان حينئذ في طاعة بورك في رزقه وفي عمله . والله أعلم. انتهى .
وفي الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني للنفراوي : وسئل مالك عن النوم بعد صلاة الصبح فقال ما أعلمه حراما نعم ورد أن الأرض عجت من نوم العلماء بالضحى مخافة الغفلة عليهم وما ورد عن عثمان بن عفان أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الصبحة تمنع بعض الرزق فحديث ضعفه أهل الإسناد. انتهى .
وانظر الفتوى رقم : 97967 .
والله أعلم.
.......
فجر کے بعد سونے سے مفلسی آتی ہے یہ بات کسی حدیث سے ثابت ہے ؟ اگر ہے تو کیا تھوڑی دیر سونے کے بعد پوری رات ذکر تلاوت میں مشغول رہنے والے پر بھی یہ حکم لا گو ہوگا؟ کیوں کہ وہ فجر بعد تھوڑی دیر سوجاتاہے پھر اٹھ کر اشراق اور چاشت پڑھتاہے۔
Published on: May 16, 2015
جواب # 58989
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 487-452/Sn=7/1436-U
مسند احمد ۵۲۹۰، شعب الایمان ۴۴۰۲، شرح مشکل الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں ایک ضعیف روایت ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے، قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الصبحة تمنع الرزق یعنی صبح کے قت سونا رزق میں بے برکتی کا سبب ہے، فقہائے کرام نے بھی صبح کے وقت سونے کو مکروہ قرار دیا ہے، قال في الہندیة: ویکرہ في أول النہار وفیما بین ا لمغرب والعشاء (۵/۳۷۶، دار الکتاب دیوبند) ”صبح کے وقت“ سے کیا مراد ہے اس کی تعیین ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک مخلوق کے لیے رزق تقسیم کرتے ہیں یعنی جو لوگ اس پورے وقت میں غافل رہتے ہیں وہ رزق کی برکت سے محروم رہتے ہیں اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ ممانعت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک پورے درمیانی وقت میں سونے میں ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص نماز فجر کے بعد تھوڑی دیر تسبیحات وغیرہ میں لگا رہے اور سوج طلوع ہونے کے بعد سوئے تو اس کے حق میں کوئی قباحت وکراہت نہیں رہے گی، بعض بزرگوں کا اس طرح کا معمول رہا ہے۔ عن فاطمة بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قالت: مرَّ بي رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- وأنا مضطجعة متصبحة، فحرکني برجلہ ثم قال: یا بنیّة قومي واشہدي رزق ربّک، ولا تکوني من الغافلین؛ فإن اللہ یقسم أرزاق الناس ما بین طلوع الفجر إلی طلوع الشمس“ إسنادہ ضعیف (شعب الإیمان، ۴۴۰۵، فصل في ا لنوم الذي نعمة اللہ الخ)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.....
نماز فجر با جماعت ادا کرنے والوں کے لئے دس فضیلتیں اور بشارتیں؛
(نور مکمل روز قیامت، سب سے بڑی دولت کا حصول، ہر قدم پر دس نیکیاں ، فرشتوں کی حاضری، فجر و عصر ادا کرنیوالے کی جھنم سے خلاصی، ساری رات کے قیام کا ثواب ،فرشتوں کی دعا میں شرکت، اشراق تک مسجد میں ذکر کرنیوالے کے لئے حج و عمرے کا ثواب، نمازی اللہ کی حفاظت میں آجاتا ھے اس ضمن میں واردہ تمام احادیث مستند ہیں تفصیل دیکھئے *******
البشائر العشر للمحافظين على صلاة الفجر
*البشارة الأولى:
● قال النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم:
"بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ ، بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". رواه أبو داود والترمذي وصححه الألباني
*البشارة الثانية:
● قال النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم:
"رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا". رواه مسلم
*البشارة الثالثة:
● قال النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم:
"مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الْمَسْجِدِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَالْقَاعِدُ فِي الْمَسْجِد يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ كَالْقَانِتِ، وَيُكْتَبُ مِنَ الْمُصَلِّينَ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ". أخرجه أحمد
*البشارة الرابعة:
● قال جل في علاه :"أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوداً ". الإسراء : ٧٨
*البشارة الخامسة:
● قال رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم :"لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، يَعْنِى الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ". رواه مسلم
*البشارة السادسة:
● قال النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم :"مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّى اللَّيْلَ كُلَّهُ". رواه مسلم
*البشارة الثامنة:
● قال النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم :"مَنْ صَلَّى الْفَجْرَ ثُمَّ جَلَسَ فِي مُصَلاَّهُ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلاَئِكَةُ، وَصَلاَتُهُمْ عَلَيْهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ". رواه أحمد
*البشارة التاسعة:
● قال النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم: "مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ الفجر فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ". رواه الترمذي وصححه الألباني
*البشارة العاشرة:
● قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم:
"مَنْ صَلَّى صَلاَةَ الصُّبْحِ فَهْوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ، فَلاَ يَطْلُبَنَّكُمُ اللَّهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَىْءٍ، فَإِنَّهُ مَنْ يَطْلُبْهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَىْءٍ يُدْرِكْهُ، ثُمَّ يَكُبَّهُ عَلَى وَجْهِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ". رواه مسلم
No comments:
Post a Comment