Thursday, 25 May 2017

ایک امت، ایک آسمان، ایک چاند، ایک سورج

ایس اے ساگر
پتہ نہیں کب تاریخیں 'مسلمان' اور 'عیسائی' ہوگئیں جبکہ اہل علم حضرات کے سامنے جب بھی 'اسلامی تاریخ' اور 'عیسوی تاریخ' کا ذکر آیا ہے تو انھوں نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'قمری تاریخ' اور 'شمسی تاریخ' کہو. گزشتہ روز سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایک اعلان نظر سے گزرا کہ 28 مئی کو اپنے گھر اور مساجد کے لئے سمت قبلہ کا تعین کرلیں، چونکہ 28 مئی اور 16 جولائی کو سورج کا میل تقریبا 21.4 درجہ شمالی ہوتا ہے، آسمان پر اس کا راستہ بالکل وہی ہوتا ہے جو مکہ مکرمہ کا دائرۃ الارض ہوتا ہے. دائرۃ الارض کی تعریف بعد میں بتائیں گے فی الحال یہ سمجھ لیں کہ سورج مکہ مکرمہ کے دائرۃ الارض پر سفر کرتا ہے، اس لئے جب مکہ مکرمہ کے نصف النہار کے وقت عین اس کے اوپر سمت الراس یعنی عین سر کے اوپر پہنچ جاتا ہے تو سورج اور اور مکہ مکرمہ کے درمیان وہی نسبت قائم ہوجاتی ہے جو چھت پر لٹکے ہوئے بلب اور زمین پر اس کے بالمقابل نقطے پر ہوتی ہے. اس وقت سورج کو دیکھ کر یقینی طور پر قبلہ کی سمت معلوم کی جاسکتی ہے۔ اب یہ سمجھئے کہ سعودی عرب کے معیاری وقت کے مطابق 28 مئی کو 12 بج کر 17 منٹ پر مکہ مکرمہ میں عین نصف النہار کا وقت ہوتا ہے اور اس وقت سورج مکہ مکرمہ کے سمت الراس پر ہوتا ہے ۔اس وقت جن مقامات میں دن ہو اور سورج انہیں نظر آرہا ہو ایسے مقامات والے سورج کو دیکھ کر سمت قبلہ درست کر سکتے ہیں، چونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے معیاری وقت میں 2 گھنٹے کا فرق ہے اس لئے پورے پاکستان میں 28 مئی کو 2 بج کر 17 منٹ پر سمت قبلہ درست کی جاسکتی ہے۔ اب ہندوستان کے لوگ وقت کا تعین 2 بج کر 47 منٹ کرلیں جبکہ سعودی عرب اور ہندوستان کے معیاری وقت میں 2.30 گھنٹے کا فرق ہے. زمین پر قبلے کا خط کھینچنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ کوئی عمودی چیز لکڑی وغیرہ زمین پر گاڑ دیں وقت مذکورہ پر عمودی چیز کا جو سایہ زمین پر پڑے اس پر Scale رکھ کر لکیر کھینچ لیں، یہی اس جگہ کا خط قبلہ ہوگا سایہ کا رخ قبلے کی مخالف جانب ہوگا، مثلا پاکستان بھر میں عمود کے سائے کا رخ مشرق کی طرف ہوگا اس سائے پر مغرب کی جانب رخ کرلیں تو ٹھیک قبلہ رخ ہوجائیں گے۔ پھر اس سائے کے 90 کے زاوئیے پر ایک اور لکیر کھینچیں جو کہ صٖف کی لکیر ہوگی۔ اب ماہرین کے ذریعے پیش کردہ تصویر کو دوبارہ دیکھیں، انشآ اللہ سمجھ آجائے گا۔

دائرۃ الارض:

زمین پر بننے والا بڑا دائرہ ۔

میل شمس (Declination of Sun):

سورج کا آسمانی خط استوا سے شمالا جنوبا چلنا ’میل شمس‘ کہلاتا ہے ۔ اس کو آسانی کے لئے ’’سورج کا عرض‘‘ بھی کہتے ہیں۔

سمت الراس (Zenith):

کسی مقام کے عین سر کے اوپر آسمان میں موجود فرضی نقطہ ’سمت الراس ‘ کہلاتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ اطلاع بھی منظر عام پر آئی کہ سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات اور خلیجی ریاستوں میں رمضان المبارک کا چاند نظر نہیں آیا، لہٰذا ان ممالک میں پہلا روزہ بروز ہفتہ 27 مئی کو ہوگا۔
عرب ٹی وی کے مطابق رمضان کا چاند دیکھنے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں عدالتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں کونسل ممبران کو چاند نظر آنے کی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی جس کے بعد عرب ممالک میں پہلا روزہ بروز ہفتہ 27 مئی کو ہوگا۔ عرب ماہرین کے مطابق جمعرات کو رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کے امکانات بہت کم تھے  اور اسی بنا پر متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، اردن، فلسطین، مسقط اور دیگر ممالک میں بھی رویت ہلال کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔ جنہوں نے ہلالِ رمضان کی کوئی شہادت بیان نہیں کی۔
https://www.express.pk/story/826918/
....
https://goo.gl/zlRkJ8

اس سلسلہ میں اوریا مقبول جان 'ایک امت ۔۔۔ ایک آسمان ۔۔۔ ایک چاند' کے عنوان سے رقمطراز ہیں کہ "میں اکثر سوچتا ہوں کہ عین رمضان کے مہینے اور شوال کی عید کے دنوں میں ان لوگوں کی روحیں کس قدر خوش ہوتی ہوں گی، اپنی کامرانی پر ناز کرتی ہوں گی، جنہوں نے امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں۔ ڈیورنڈ لائن کے ایک جانب عید اور دوسری جانب روزہ، پاکستان کے شہر تفتان میں روزہ اور چند قدم دور ایران کے میر جادہ میں عید، اردن میں عید اور شام میں روزہ، سعودی عرب میں عید اور عراق میں روزہ۔ میں پہلے یہ سمجھتا تھا کہ یہ عید اور رمضان پر چاند کا اختلاف صرف پاکستان کا ہی خاصہ ہے لیکن 2005 میں برطانیہ اور 2007 میں ایران میں رمضان گزار کر مجھے اس امت مسلمہ کی بےبسی، کسمپرسی اور بیچارگی پر بہت ترس آیا۔ سب سے زیادہ حیرت تو مجھے برطانیہ کے مسلمانوں پر ہوئی جہاں ملک بھی ایک، مطلع بھی ایک، دیکھنے والے بھی ایک، لیکن کوئی دلیل لاتا ہے کہ چاند سعودی عرب نکل آیا ہے عید کرو، کوئی کہتا ہے کہ چاند ایران میں نکل آیا عید کرو، کوئی اردن اور کوئی انڈونیشیا، حیرت کی بات یہ ہے کہ جو علماءکرام وہاں عید کی نماز پڑھاتے ہیں وہ ہزاروں میل دور چاند دیکھنے کی گواہی پر روزہ بھی رکھواتے ہیں اور عید بھی پڑھاتے ہیں لیکن جب یہ سب اپنے ملک میں ہوتے ہیں تو ہر ایک کو اپنا ملک، اپنا مطلع، اپنی گواہی اور اپنی رویت یاد آ جاتی ہے۔

ملت اسلامیہ کو ملکوں میں تو کفار نے ایک سازش کے تحت تقسیم کیا اور ان کی لکیریں کھینچیں لیکن ہم نے ان حدود میں قید ہو کر جس طرح امت مسلمہ کو تقسیم کیا اس سے تمسخر ہمارے علماء کا اڑا، مذاق اور تضحیک کا نشانہ بھی وہی بنے۔ ایران میں ہماری طرح ایک رویت ہلال کونسل ہے۔ رمضان آیا تو 29 شعبان کے بعد لوگوں کو یوم شک کا روزہ رکھنے کے لئے کہا گیا جس کے بارے میں اعلان یہ تھا اگر دوپہر بارہ بجے تک چاند نظر آنے کا اعلان نا ہوا تو روزہ توڑ دیا جائے۔ اگلے دن ساڑھے گیارہ بجے اعلان کیا گیا کہ چاند نکلنے کی شرعی شہادتیں موصول ہوئی ہیں اس لیے آج پہلا روزہ ہے۔ میں گاڑی میں تہران شہر میں گھوم رہا تھا، ریڈیو پر اعلان ہوا، میرا ڈرائیور مسکرایا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا "ہمراہ آفتاب آمد" یعنی آج چاند سورج کے ساتھ ساتھ تشریف لایا ہے۔ یہ ایرانی حس مزاح کا ایک خاص پیرایہ تھا لیکن اس اعلان، اس طرح روزہ اور اس صورت پر میں جس جگہ بیٹھا، جس جگہ گیا، صرف زیر لب تبصرے تھے، مذاق تھا اور تمسخر تھا... اور نشانہ علماء۔۔ میں نے ان دونوں ملکوں میں لوگوں سے طرح طرح کے سوال کیے، سائنسدانوں سے ملا، مطلع کی بحث اور فقہ کی کتابیں کھنگالیں، لمبی لمبی طویل اور خشک بحثیں پڑھیں اور میں سوچنے لگا کہ یہ چاند کے اختلاف اور رویت اور علاقوں کی تقسیم پر امت میں اختلاف کا مسئلہ کب سے شروع ہوا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب تک خلافت عثمانیہ کی مرکزیت قائم تھی یا مسلمان اسے مرکز کی حیثیت سے تسلیم کرتے تھے، پوری امت میں ایک دن عید اور ایک دن روزہ ہوتا تھا۔

اس زمانے میں لکھے گئے مولانا محمود الحسن اور مولانا حسین احمد مدنی کے سفرناموں سے پتہ چلتا ہے کہ عرب اور ہندوستان میں چاند کی ایک تاریخ چلتی تھی۔ مولانا سید محمد میاں نے اسیران مالٹا کے نام جو سفرنامے ترتیب دیے ہیں ان میں بھی حجاز اور ہندوستان میں ایک ہی تاریخ کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن یوروپی طاقتوں نے جب مسلمانوں کو نسل، رنگ اور زبان کی بنیاد پر اس طرح تقسیم کیا جسے میز پر رکھ کر کیک کاٹا جاتا ہے اور ہر ایک کی اپنی اپنی سلطنت وجود میں آئی اور ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ مطلع، علیحدہ علیحدہ چاند اور علیحدہ علیحدہ عید، سب کا علیحدہ علیحدہ حج، علیحدہ علیحدہ یوم عرفات جس میں اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے، اور علیحدہ علیحدہ لیلتہ القدر، اگر میرے اللہ کو یہی مقصود اور مطلوب ہوتا تو وہ قران پاک میں لیلتہ القدر یعنی قدر والی رات کی جگہ لیلات القدر یعنی قدر والی راتوں کا ہی تذکرہ کر دیتا کہ مسلمانوں کو ان راتوں کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کا موقع مل سکے۔ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس مسئلے پر اختلاف کا عالم تو ہماری فقہ میں نظر نہیں آتا۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی احادیث کا مطالعہ کریں تو وہ مشہور حدیث جسے بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو دونوں سے روایت ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ دو اور اگر بادل چھائے ہوں تو شعبان کی گنتی پوری کرو یعنی چاند دیکھنا ضروری ہے جسے رویت کہتے ہیں۔ اسی رویت کی بنیاد پر امت کا اختلاف غیروں کی ہنسی کا باعث ہے۔ یہ چاند اندھے، ضعیف العمر، قیدی، بچے، مسافر اور بہت سے لوگ نہیں دیکھ پاتے تو کیا ان پر روزہ فرض نہں ہوتا۔ فرض ہوتا ہے لیکن دوسروں کی شہادت کی بنیاد پر جنہوں نے چاند دیکھ لیا۔ اب اس ایک شہادت یا دو شہادتوں یا کئی شہادتوں کو ایک ملک کی حدود تک کس نے محدود کر دیا۔ حدود بھی وہ جو یوروپی مشرک قوتوں نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے بنائی تھیں۔ اس شہادت کا اطلاق ڈیورینڈ لائن پر آکر کیسے رک جاتا ہے؟ ایران میں شہادت کا اطلاق زاہدان پہنچ کر کیوں ختم ہو جاتا ہے۔ کیا امت مسلمہ کی حد اور الله تعالیٰ کے چاند کی حدیں بھی اسی طرح بانٹی ہوئی ہیں۔ ترمزی اور سنن ابو داؤد میں جو مشہور حدیث درج ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے چاند دیکھا ہے۔ آپ صلى اللہ عليه وسلم نے پوچھا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلى اللہ عليه وسلم اللہ کے رسول ہیں؟
اس نے کہا، ہاں۔
آپ صلى اللہ عليه وسلم نے فرمایا، بلال! اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں۔
اس حدیث میں رسول خدا صلى اللہ عليه وسلم نے اعرابی سے نہ اس کا علاقہ دریافت کیا اور نا فاصلہ پوچھا بلکہ صرف مسلمان ہونے کی گواہی لی اور اس گواہی کی بنیاد پر سب کو روزہ رکھنے کو کہہ دیا۔ نہ اختلاف مطلع کی بات ہوئی اور نا دوری اور نزدیکی کی۔

فقہ کی تمام کتب کو دیکھنے کے بعد میں حیرت میں گم ہو جاتا ہوں کہ یہ سب تو ایک امت اور ایک خیال کی طرف رہنمائی کر رہی ہیں۔ احناف میں الہدایہ اور الدرالمختار میں تو یہاں تک کہہ دیا کہ اہل مشرق پر اہل مغرب کی رویت دلیل ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ اگر اہل مغرب چاند دیکھ لیں تو اہل مشرق پر روزہ فرض ہو جاتا ہے۔ مالکیوں کی کتابوں ھدایة ال مجتہد، مواہب الجلیل اور قاضی ابو اسحاق نے ابن الماج ثون میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر لوگوں کے بتانے سے یہ معلوم ہو جائے کہ دوسرے ملک والوں نے چاند دیکھ لیا ہے تو روزے کی قضا واجب ہو جائے گی۔ یہی کچھ شافیوں کے ہاں المغنی اور حنابلہ کے ہاں الاحناف میں درج ہے۔ ان سب کا مفہوم یہ ہے کہ اگر امت میں کسی ایک جگہ چاند نظر آ جائے، گواہ عادل ہوں تو پوری امت پر روزہ فرض ہو جاتا ہے۔ یہ وہ قول ہے جو عین سائنس کے اصولوں کے مطابق ہے۔ ہر چاند 29 دن 12 گھنٹے 28 سیکنڈ کے بعد اس دنیا کے مطلع پر طلوع ہوتا ہے۔ جس جگہ بھی وہ طلوع ہوا اگر وہاں کوئی مسلمان اسے دیکھے اور آج کے ذرائع ابلاغ کے دور امن پوری دنیا پر نشر ہو تو سب کو اطلاح ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا کا آپس میں اوقات کا فرق 12 گھنٹے نفی اور 12 گھنٹے جمع ہوتا ہے اور مسلم امہ کی اکثریت مراکش سے انڈونیشیا تک صرف چھ سات کے ٹائم زون میں رہتی ہے۔ اب جب چاند ایک مقام پر ایک دفع طلوع ہو گیا تو وہی اول یا پہلی کا چاند ہے جو اپنا سفر جاری رکھتا ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتا۔ 29 دن اور 12 گھنٹے میں سے اس کا ایک دن کم ہو جاتا ہے۔ اگلے دن جس مطلع پر بھی نظر آئے وہ اپنی عمر سے ایک دن کم کر چکا ہو گا۔ مگر کمال ہے ہمارا کہ ہم اس کے تین بلکہ بعض دفعہ چار دن گزرنے کے بعد بھی اسے پہلی کا چاند، ہلال عید ہی کہتے ہیں اور پوری دنیا ہمارا تمسخر اڑاتی ہے۔

ہم قبلے کا رخ مقناطیسی سوئی سے کرتے ہیں اور سب اس پر متفق ہوتے ہیں۔ نمازوں کے اوقات کا تعین سورج کے سائنسی اعداد و شمار پر کرتے ہیں لیکن پوری امت مل کر ایک ایسا طریقہ کار وضع نہیں کرتی کہ مشرق و مغرب میں جس جگہ بھی پہلے چاند دیکھا جائے اس کا اطلاق پوری امت پر کر دیا جائے۔ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کے نزدیک امت کی حدود نا تو طورخم پر ختم ہوتی ہیں اور نہ تفتان سے شروع ہوتی ہیں۔ کیا اسلامی ملکوں کی تنظیم جسے ایک خاموش اور مردہ تنظیم کی حیثیت حاصل ہے اپنے وسائل سے مراکش سے لے کر برونائی تک چاند کی رویت کا اہتمام نہیں کر سکتی تا کہ مسلمانوں کی بیک وقت عید ہو، رمضان شروع ہو، ایک لیلتہ القدر ہو، ایک یوم عرفات اور یوم حج ہو، یہ وہ واحد نقطہ ہے کہ اگر صرف ایک نقطے پر عمل کر لیا گیا تو دیکھنا کیسے اس امت میں افتراق ڈالنے والا مغرب بے چین ہو گا، اس کی راتوں کی نیند حرام ہو گی۔

لیکن کیا کریں ہماری تو دکانیں اختلاف سے سجتی ہیں۔ ہم برطانیہ میں ایک مطلع اور ایک ملک ہونے کے باوجود تین تین عیدیں پڑھاتے ہیں۔ ہمیں اپنے اپنے ملک کی رویت ہلال کمیٹیاں عزیز ہیں۔ ہم کسی دوسرے ملک کے چاند کو اس لیے امت مسلمہ کا چاند نہیں مانتے کہ وہاں کا مسلک ہمارے مخالف ہے حالانکہ چاند تو میرے رب کا ایک ہے، ساری کائنات کے لیے، سارے مسلمانوں کے لیے، ہم کتنے ظالم ہیں کہ رسول الله صلى اللہ عليه وسلم کی بعثت کو پوری دنیا کے انسانوں کے لئے مانتے ہیں لیکن چاند اپنے مطلع پر طلوع کرتے ہیں۔ اس لیے کہ تمام مطلع مغربی استعمار نے ہمارے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں۔"

دوسری جانب پتہ چلا ہے کہ سورج اور چاند کے ایک سیدھ میں آجانے کا وقت ولادت قمر (چاند کی پیدائش) "New Moon " یا اجتماع شمس و قمر "Conjunction" کہلاتا ہے اور اس حالت کو ’حالت محاق‘ کہا جاتا ہے۔ ولادت قمر کے بعد گزرنے والا وقت ’چاند کی عمر‘ کہلاتا ہے. عین ولادت کے وقت چاند کی عمر صفر ہوتی ہے۔ ولادت قمر کے وقت چاند کا جو نصف تاریک حصہ ہماری طرف پوتا ہے ہمیشہ وہی حصہ زمین کی طرف رہتا ہے، اس کا روشن نصف حصہ ہمارے بالمقابل دوسری جانب ہوتا ہے اسی وجہ سے چاند ہمیں نظر نہیں آتا، یہ اجتماع ہر قمری ماہ کے آخری ایک دو دن مین ہوتا ہے چاند یکم کے بعد آہستہ آہستہ آفتاب سے بطرف مشرق دور ہوتا جاتا ہے تو ہمیں اس کا چمکتا ہوا کنارہ نظر آتا ہے وہی کنارہ ’ہلال‘ کہلاتا ہے۔ پھر اس کے روشن حصے کی مقدار بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ چودھویں کا چاند بن جاتا ہے پھر گھٹنے لگتا ہے یہی صورت حال ہر مہینے رہتی ہے۔ رمضان المبارک کے چاند کی پیدائش عالمی معیاری وقت کے مطابق بروز جمعرات 25 مئی 2017 کو 19:44 GMT/UT پر اور پاکستانی معیاری وقت کے مطابق جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب 12:44 پر ہوچکی ہے۔ اب دیکھئے کہ جمعہ 26 مئی 29 شعبان المعظم کو پاکستان میں چاند نظر آتا ہے یا نہیں جبکہ معمولی ومشتبہ امکان کا اظہار کیا گیا ہے، تو امت کس ملک میں کونسی قمری تاریخ مناتی ہے!

No comments:

Post a Comment