ایس اے ساگر
ان دنوں بے لگام مغربی معاشرے میں اورل سیکس کی لعنت نے جنم لیا ہے. مزید یہ کہ غیر مقلدین نے فقہ حنفی پہ ایک اعتراض کیا ہے کہ فقہ حنفی میں عورت کے لئے مرد کا آلہ تناسل منہ میں ڈالنا جائز ہے لیکن ہمیشہ کی طرح یہاں بھی غیر مقلدین نے دھوکہ دیا ہے۔ فقہ حنفی پہ ایک اعتراض کیا ہے کہ فقہ حنفی میں عورت کے لئے مرد کا آلہ تناسل منہ میں ڈالنا جائز ہے لیکن ہمیشہ کی طرح یہاں بھی غیر مقلدین نے دھوکہ دیا ہے۔ غیر مقلدین نے جو حوالہ دیا ہے فتاوی عالمگیری کا اس میں کہیں بھی اس عمل جو جائز نہیں کہا گیا بلکہ اس میں لکھا ہے کہ ''اگرمرد نے اپنی بیوی کے منہ میں اپنا آلہ تناسل داخل کیا تو بعض نے فرمایا کہ مکروہ ہے اور بعض نے اس کے برخلاف کہا ہے''
( فتاوی عالمگیری،جلد 9 صفحہ 110)
غیر مقلدین نے جو حوالہ دیا ہے فتاوی عالمگیری کا اس میں کہیں بھی اس عمل جو جائز نہیں کہا گیا بلکہ اس میں لکھا ہے کہ ''اگرمرد نے اپنی بیوی کے منہ میں اپنا آلہ تناسل داخل کیا تو بعض نے فرمایا کہ مکروہ ہے اور بعض نے اس کے برخلاف کہا ہے''
( فتاوی عالمگیری،جلد 9 صفحہ 110)
اس حوالہ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ یہ عمل جائز ہے بلکہ واضح لکھا ہے کہ یہ عمل مکروہ ہے اور بعض نے اس کے برخلاف کہا ہے تو اس سے یہ کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کسی عمل کو صرف برخلاف کہہ دینے سے وہ جائز ہو جاتا ہے۔۔ غیر مقلدین نے یہ حوالہ بیان کرتے ہوئے جھوٹ کہا ہے کہ فقہ حنفی میں یہ عمل جائز ہے۔ دراصل یہ مسئلہ خود غیر مقلدین کا ہے۔۔ ان کے نزدیک عورت کے لئے مرد کا آلہ تناسل منہ میں ڈالنا جائز ہے۔
ان کے فتاوی کی مشہور ویب سائٹ محدث فتاوی میں اس بارے میں فتوی دیا گیا ہے۔کسی نے فتاوی میں اورل سیکس کے بارے میں فتوی پوچھا تو اس کا جواب دیا گیا کہ
''شریعت کا اصول ہے یہ کہ:
"ہر عمل جائز ہے سوائے اس کے جس کے بارے میں شریعت میں واضح ممانعت آگئی ہو۔"
"ہر عمل جائز ہے سوائے اس کے جس کے بارے میں شریعت میں واضح ممانعت آگئی ہو۔"
یہی اصول سیکس پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ شریعت نے میاں بیوی کے سیکس کے معاملے میں صرف دو امور کی ممانعت کی ہے:
1. ایک دوران حیض سیکس اور
2. دوسرے پیچھے کے مقام (دبر) میں سیکس۔
اس کے علاوہ باقی سب جائز ہے اورل سیکس کے بارے میں اختلاف اس وجہ سے ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی واضح ممانعت نہیں آئی۔ فقہاء کے سامنے جب یہ صورت آئی تو انہوں نے قرآن و حدیث کے عمومی مزاج سے استدلال کیا ہے۔ بعض کے نزدیک چونکہ ممانعت نہیں آئی، اس لیے یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک چونکہ اس میں گندگی ہوتی ہے، اس وجہ سے ناجائز ہے۔ اس میں جواز کے قائلین میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی صاحب کا نام آتا ہے۔ نیز جو لوگ جواز کے قائل ہیں، وہ بھی مطلق جواز کے نہیں بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو تیار کرتے ہوئے اگر منہ سے شرم گاہ وغیرہ کو چوم لیں تو اس میں حرج نہیں۔ تاہم مادہ منویہ کے منہ میں ڈسچارج کرنے کو وہ بھی غلط سمجھتے ہیں۔''
https://www.islamimehfil.com/topic/22105-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%84-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%D8%B3-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%BA%DB%8C%D8%B1-%D9%85%D9%82%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%DA%BE%D9%88%DA%A9%DB%81-%D9%81%D9%82%DB%81-%D8%AD%D9%86%D9%81%DB%8C-%D9%BE%DB%81-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%A7%D8%B9%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D8%B6-%DA%A9%D8%A7-%D8%AC%D9%88%D8%A7%D8%A8/
......
کیا فرماتے ہیں علماء کرام؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلام میں اورل سیکس کے بارے میں کیا حکم ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حرام نہیں ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
اسلام میں اورل سیکس کے بارے میں کیا حکم ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حرام نہیں ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگرچہ بعض اہل علم نے اس کو استمتاع کے عموم میں شامل سمجھ کر اس کی اجازت دی ہے۔ کیونکہ سوائے دبر کے بیوی سے ہر قسم کا استمتاع جائز ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ مغربی تہذیب کا اثر ہے جو ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ یہ عمل تکریم انسانیت اور احترام مسلم کے منافی ہے۔ اللہ نے انسان کو اس سے بلند پیدا فرمایا ہے۔کیا کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب طرز عمل ہے کہ وہ جس منہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہو، اذکار پڑھتا ہو اور اللہ کی تسبیح کرتا ہو۔ اسی منہ کے ساتھ شرمگاہ کا بوسہ لے۔ نبی کریم کی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ہر اچھے کام کو دائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے۔ اور استنجاء وغیرہ بائیں ہاتھ سے فرماتے تھے۔ جب ہاتھوں میں اتنی احتیاط کی جا سکتی ہے تو زبان تو پھر ایک افضل واعلی عضو ہے۔
لہذا آدمی کو چاہیئے کہ وہ مغرب کی مشابہت اختیار کرنے کی بجائے تکریم انسانیت اور احترام مسلم کا خیال رکھے اور اللہ تعالی کی جانب سے حلال کردہ امور سے استمتاع پر قناعت کرے۔ اور مشکوک امور سے اجتناب کرے۔
والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2334/0/
....
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
{اورجولوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے ، یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں}
المؤمنون (5 - 6)
امام ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اللہ تعالی نے اس میں بیوی اور لونڈی کے علاوہ ہر چيز سے شرمگاہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے، بیوی اور لونڈی سے حفاظت نہ کرنے میں اس پر کوئی ملامت نہیں، یہ آیت عموم پردلالت کرتی ہے جس میں اس کا دیکھنا، چھونا، اور ملانا شامل ہے ۔
ا ھـ دیکھیں المحلی لابن حزم ( 9 / 165 ) ۔
اور، سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اس کی دلیل ملتی ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جوکہ ہمارے درمیان ہوتا وہ مجھ سے جلدی کرتے حتی کہ میں انہیں کہتی کہ میرے لیے بھی چھوڑیں میرے لیے بھی چھوڑیں۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 258 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 321 ) مندرجہ بالا الفاظ مسلم کے ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
داوودی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ مرد اپنی بیوی اور بیوی اپنے خاوند کی شرمگاہ دیکھ سکتے ہیں، اس کی تائید مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے:
ابن حبان رحمہ اللہ تعالی نے سلیمان بن موسی سے بیان کیا ہے کہ ان سے ایسے شخص کے بارہ میں پوچھا گيا جو اپنی بیوی کی شرمگاہ دیکھتا ہے، تو انھوں نے جواب میں کہا:
میں نے عطاء رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا :
میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا تو انھوں نے اسی حدیث کو ذکر کیا ۔
حافظ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:
سنت نبویہ میں ایک اور حدیث بھی ملتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
اپنی بیوی اور لونڈی کےعلاوہ اپنے ستر کی ہرایک سے حفاظت کرو۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 4017 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2769 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن کہا ہے ۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1920 )، اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اسے تعلیقا روایت کیا ہے ( 1 / 508 ) ۔
اس حدیث پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول (اپنی بیوی کے علاوہ) کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اس پر دلالت کرتی ہےکہ اس کے لیے اسے دیکھنا جائز ہے، اور اس کا قیاس یہ ہے کہ مرد کے لیے بھی دیکھنا جائز ہوا ۔ اھـ
ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
مرد کے لیے اپنی بیوی کی شرمگاہ دیکھنا حلال ہے- بیوی اور لونڈی جن سے جماع کرنا حلال ہے– اور اسی طرح وہ دونوں بھی مرد کی شرمگاہ دیکھ سکتی ہیں، اصلا اس میں کوئی کراہت نہیں، اس کی دلیل وہ مشہور احادیث ہيں جو ام المؤمنین عائشہ، ام سلمہ، اور میمونہ رضی اللہ تعالی عنھن سے مروی ہیں:
وہ بیان کرتی ہیں کہ:
وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن میں غسل جنابت کیا کرتی تھیں ۔
ام المؤمنین میمونہ رضى اللہ تعالی عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چادر کے بغیر تھے، کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ برتن میں داخل کیا اور پھر اپنی شرمگاہ پر پانی بہایا اور اسے اپنے بائيں ہاتھ سے دھویا ۔
تو اس کے بعد کسی کی بھی رائے کی طرف التفات کرنا باطل ہے، تعجب والی بات تو یہ ہے کہ بعض متکلف اور جاہل قسم کے لوگ !! تو فرج میں وطئی کرنا تو مباح کہتے ہیں اور اس کی طرف دیکھنے سے روکتے ہیں۔
ا ھـ دیکھیں المحلی لابن حزم ( 9 / 165 ) ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جماع کی نسبت سے دیکھنے کی حرمت وسائل کی حرمت میں سے ہے، جب اللہ تعالی نے خاوند کے لیے بیوی سے مجامعت مباح کی ہے تو کیا اس کی شرمگاہ کی طرف دیکھنے سے روکا جائے یہ عقل مندی ہے؟ یہ نہیں ہوسکتا ۔ اھـ دیکھیں السلسۃ الضعیفۃ ( 1 / 353 ) ۔
دوم :
اس حالت میں طہارت و پاکیزکی کا حکم:
اس بارہ میں ہم یہ کہيں گے کہ سوتے وقت معانقہ کرکے سونا (یعنی ایک دوسرے سے لگ کر) اگر تو اس سے انزال نہیں ہوا اور نہ ہی جماع کیا گيا ہے تو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا، بلکہ جب مذی نکلی ہوتو مرد کو اپنی شرمگاہ دھو کر وضوء کرنا چاہیے ، اور عورت بھی اپنی شرمگاہ دھو کر وضوء کرے یعنی دونوں ہی استنجاء کرنے کے بعد وضوء کریں نہ کہ غسل ۔
واللہ اعلم .
شیخ محمد صالح المنجد
.......
اورل سیکس Oral sex یعنی اگر عورت مرد کی سپاری منہ میں ڈال لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگرچہ بعض اہل علم نے اس کو استمتاع کے عموم میں شامل سمجھ کر اس کی اجازت دی ہے۔ کیونکہ سوائے دبر کے بیوی سے ہر قسم کا استمتاع جائز ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ مغربی تہذیب کا اثر ہے جو ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ یہ عمل تکریم انسانیت اور احترام مسلم کے منافی ہے۔ اللہ نے انسان کو اس سے بلند پیدا فرمایا ہے۔کیا کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب طرز عمل ہے کہ وہ جس منہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہو، اذکار پڑھتا ہو اور اللہ کی تسبیح کرتا ہو۔ اسی منہ کے ساتھ شرمگاہ کا بوسہ لے۔ نبی کریم کی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ہر اچھے کام کو دائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے۔ اور استنجاء وغیرہ بائیں ہاتھ سے فرماتے تھے۔ جب ہاتھوں میں اتنی احتیاط کی جا سکتی ہے تو زبان تو پھر ایک افضل واعلی عضو ہے۔
لہذا آدمی کو چاہیئے کہ وہ مغرب کی مشابہت اختیار کرنے کی بجائے تکریم انسانیت اور احترام مسلم کا خیال رکھے اور اللہ تعالی کی جانب سے حلال کردہ امور سے استمتاع پر قناعت کرے۔ اور مشکوک امور سے اجتناب کرے۔
والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2334/0/
....
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
{اورجولوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے ، یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں}
المؤمنون (5 - 6)
امام ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اللہ تعالی نے اس میں بیوی اور لونڈی کے علاوہ ہر چيز سے شرمگاہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے، بیوی اور لونڈی سے حفاظت نہ کرنے میں اس پر کوئی ملامت نہیں، یہ آیت عموم پردلالت کرتی ہے جس میں اس کا دیکھنا، چھونا، اور ملانا شامل ہے ۔
ا ھـ دیکھیں المحلی لابن حزم ( 9 / 165 ) ۔
اور، سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اس کی دلیل ملتی ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جوکہ ہمارے درمیان ہوتا وہ مجھ سے جلدی کرتے حتی کہ میں انہیں کہتی کہ میرے لیے بھی چھوڑیں میرے لیے بھی چھوڑیں۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 258 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 321 ) مندرجہ بالا الفاظ مسلم کے ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
داوودی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ مرد اپنی بیوی اور بیوی اپنے خاوند کی شرمگاہ دیکھ سکتے ہیں، اس کی تائید مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے:
ابن حبان رحمہ اللہ تعالی نے سلیمان بن موسی سے بیان کیا ہے کہ ان سے ایسے شخص کے بارہ میں پوچھا گيا جو اپنی بیوی کی شرمگاہ دیکھتا ہے، تو انھوں نے جواب میں کہا:
میں نے عطاء رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا :
میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا تو انھوں نے اسی حدیث کو ذکر کیا ۔
حافظ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:
سنت نبویہ میں ایک اور حدیث بھی ملتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
اپنی بیوی اور لونڈی کےعلاوہ اپنے ستر کی ہرایک سے حفاظت کرو۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 4017 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2769 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن کہا ہے ۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1920 )، اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اسے تعلیقا روایت کیا ہے ( 1 / 508 ) ۔
اس حدیث پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول (اپنی بیوی کے علاوہ) کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اس پر دلالت کرتی ہےکہ اس کے لیے اسے دیکھنا جائز ہے، اور اس کا قیاس یہ ہے کہ مرد کے لیے بھی دیکھنا جائز ہوا ۔ اھـ
ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
مرد کے لیے اپنی بیوی کی شرمگاہ دیکھنا حلال ہے- بیوی اور لونڈی جن سے جماع کرنا حلال ہے– اور اسی طرح وہ دونوں بھی مرد کی شرمگاہ دیکھ سکتی ہیں، اصلا اس میں کوئی کراہت نہیں، اس کی دلیل وہ مشہور احادیث ہيں جو ام المؤمنین عائشہ، ام سلمہ، اور میمونہ رضی اللہ تعالی عنھن سے مروی ہیں:
وہ بیان کرتی ہیں کہ:
وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن میں غسل جنابت کیا کرتی تھیں ۔
ام المؤمنین میمونہ رضى اللہ تعالی عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چادر کے بغیر تھے، کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ برتن میں داخل کیا اور پھر اپنی شرمگاہ پر پانی بہایا اور اسے اپنے بائيں ہاتھ سے دھویا ۔
تو اس کے بعد کسی کی بھی رائے کی طرف التفات کرنا باطل ہے، تعجب والی بات تو یہ ہے کہ بعض متکلف اور جاہل قسم کے لوگ !! تو فرج میں وطئی کرنا تو مباح کہتے ہیں اور اس کی طرف دیکھنے سے روکتے ہیں۔
ا ھـ دیکھیں المحلی لابن حزم ( 9 / 165 ) ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جماع کی نسبت سے دیکھنے کی حرمت وسائل کی حرمت میں سے ہے، جب اللہ تعالی نے خاوند کے لیے بیوی سے مجامعت مباح کی ہے تو کیا اس کی شرمگاہ کی طرف دیکھنے سے روکا جائے یہ عقل مندی ہے؟ یہ نہیں ہوسکتا ۔ اھـ دیکھیں السلسۃ الضعیفۃ ( 1 / 353 ) ۔
دوم :
اس حالت میں طہارت و پاکیزکی کا حکم:
اس بارہ میں ہم یہ کہيں گے کہ سوتے وقت معانقہ کرکے سونا (یعنی ایک دوسرے سے لگ کر) اگر تو اس سے انزال نہیں ہوا اور نہ ہی جماع کیا گيا ہے تو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا، بلکہ جب مذی نکلی ہوتو مرد کو اپنی شرمگاہ دھو کر وضوء کرنا چاہیے ، اور عورت بھی اپنی شرمگاہ دھو کر وضوء کرے یعنی دونوں ہی استنجاء کرنے کے بعد وضوء کریں نہ کہ غسل ۔
واللہ اعلم .
شیخ محمد صالح المنجد
.......
اورل سیکس Oral sex یعنی اگر عورت مرد کی سپاری منہ میں ڈال لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر عورت مرد کی سپاری منہ میں ڈال لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
سائلہ: شازیہ، فرانس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃالحق والصواب
اگر آلہ کی سپاری جماع کے بعد میں منہ میں لی تو یہ حرام ہے کہ اس وقت عضو پر نجاست کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔ اور اگر جماع سے پہلے ہو اور عضو تناسل میں تندی ہو تو پھر سپاری کو منہ میں لینا مکروہ تحریمی ہے کہ اکثر شہوت کے وقت مذی کا اخراج ہوتاہے۔ اور اگر معتدل حالت میں منہ میں لینا بھی مکروہ ہی ہے کیونکہ اسی منہ سے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔
المحیط البرھانی میں ہے:
’’اذا دخل الرجل ذکرہ فی فم امراتہ یکرہ ،لانہ موضع قراء ۃ القرآن ،فلا یلیق بہ ادخال الذکر فیہ ،وفیہ قیل بخلافہ ایضاً‘‘
یعنی،
’’اگر مرد نے اپنا ذکر عورت کے منہ میں داخل کرے تو یہ مکروہ ہے اس لئے کہ یہ قرآن پڑھنے کی جگہ ہے، پس ذکر منہ میں داخل کرنے کے لائق نہیں ہے۔ اور بعض نے اس کے خلاف قول کیا ہے‘‘۔
[المحیط البرھانی ،کتاب الکرھیۃ والاستحسان ،الفصل۳۲،فی المتفرقات، ج:۸، ص:۱۳۴، مطبوعہ، مکتبۃ الرشید، الریاض، السعودیہ]۔
اسی طرح المحیط البرھانی، کتاب الکرھیۃ والاستحسان، الفصل۳۲، فی المتفرقات، ج:۶، ص:۱۶۳، مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]۔ میں ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں فتاویٰ نوازل کے حوالے سے منقول ہے کہ :
’’فی النوازل، ’’اذاادخل الرجل ذکرہ فی فم المرأۃ، قدقیل یکرہ وقدقیل بخلافہٖ‘‘ کذافی الذخیرۃ‘‘
یعنی،
’’اگر مرد اپنے عضو تناسل کو زوجہ کے منہ میں داخل کرے، تو کہا گیا ہے کہ یہ مکروہ ہے اور بعض نے اس کے خلاف کاقول کیا ہے؛ اسی طرح ذخیرہ میں ہے‘‘۔
[فتاویٰ عالمگیری، ج۴، ص:۴۵۳، قدیمی کتب خانہ، کراچی]۔
اور اگر مردکی ایسی حالت ہے کہ جب تک زوجہ اس کے ذکر کو ہاتھ نہ لگائے اس کو شہوت ہی نہیں آتی، تو ایسی حالت میں مس کرنا تو جائز ہے اور فقہاء کرام نے ایسی حالت میں اگر نیت اچھی ہو تو مس کرنے پر ثواب کا بھی قول کیا ہے ۔
چنانچہ البحرالرائق میں ہے:
’’عن ابی یوسف’’ سألت الامام عن الرجل یمس فرج امتہٖ اوہی تمس فرجہ لیحرک آلتہ الیس بذلک بأس؟
قال: ارجوان یعظم الاجر‘‘
یعنی،
’’امام ابویوسف علیہ الرحمۃ نے امام اعظم رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو اپنی لونڈی کی شرمگاہ کو چھُوتا ہے یا وہ لونڈی اس مرد کے آلے کو چھوتی ہے تاکہ آلے میں حرکت پیدا ہو، تو کیا اس میں کوئی گناہ ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’میں اس کے متعلق بہت بڑے اجر عظیم کی امید کرتاہوں‘‘۔
[البحرالرائق،ج:۸، ص: ۳۵۴، مکتبہ رشیدیہ ،کوئٹہ]۔
خلاصہ کلام یہ ہے مرد کے آلہ کی سپاری جماع کے بعد منہ میں لینا حرام ہے اور اگر جماع سے پہلے ہو تو یہ مکروہ ہے۔
واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
......
اردو فتاوی
تعداد: 22459
المحیط البرھانی میں ہے:
’’اذا دخل الرجل ذکرہ فی فم امراتہ یکرہ ،لانہ موضع قراء ۃ القرآن ،فلا یلیق بہ ادخال الذکر فیہ ،وفیہ قیل بخلافہ ایضاً‘‘
یعنی،
’’اگر مرد نے اپنا ذکر عورت کے منہ میں داخل کرے تو یہ مکروہ ہے اس لئے کہ یہ قرآن پڑھنے کی جگہ ہے، پس ذکر منہ میں داخل کرنے کے لائق نہیں ہے۔ اور بعض نے اس کے خلاف قول کیا ہے‘‘۔
[المحیط البرھانی ،کتاب الکرھیۃ والاستحسان ،الفصل۳۲،فی المتفرقات، ج:۸، ص:۱۳۴، مطبوعہ، مکتبۃ الرشید، الریاض، السعودیہ]۔
اسی طرح المحیط البرھانی، کتاب الکرھیۃ والاستحسان، الفصل۳۲، فی المتفرقات، ج:۶، ص:۱۶۳، مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]۔ میں ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں فتاویٰ نوازل کے حوالے سے منقول ہے کہ :
’’فی النوازل، ’’اذاادخل الرجل ذکرہ فی فم المرأۃ، قدقیل یکرہ وقدقیل بخلافہٖ‘‘ کذافی الذخیرۃ‘‘
یعنی،
’’اگر مرد اپنے عضو تناسل کو زوجہ کے منہ میں داخل کرے، تو کہا گیا ہے کہ یہ مکروہ ہے اور بعض نے اس کے خلاف کاقول کیا ہے؛ اسی طرح ذخیرہ میں ہے‘‘۔
[فتاویٰ عالمگیری، ج۴، ص:۴۵۳، قدیمی کتب خانہ، کراچی]۔
اور اگر مردکی ایسی حالت ہے کہ جب تک زوجہ اس کے ذکر کو ہاتھ نہ لگائے اس کو شہوت ہی نہیں آتی، تو ایسی حالت میں مس کرنا تو جائز ہے اور فقہاء کرام نے ایسی حالت میں اگر نیت اچھی ہو تو مس کرنے پر ثواب کا بھی قول کیا ہے ۔
چنانچہ البحرالرائق میں ہے:
’’عن ابی یوسف’’ سألت الامام عن الرجل یمس فرج امتہٖ اوہی تمس فرجہ لیحرک آلتہ الیس بذلک بأس؟
قال: ارجوان یعظم الاجر‘‘
یعنی،
’’امام ابویوسف علیہ الرحمۃ نے امام اعظم رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو اپنی لونڈی کی شرمگاہ کو چھُوتا ہے یا وہ لونڈی اس مرد کے آلے کو چھوتی ہے تاکہ آلے میں حرکت پیدا ہو، تو کیا اس میں کوئی گناہ ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’میں اس کے متعلق بہت بڑے اجر عظیم کی امید کرتاہوں‘‘۔
[البحرالرائق،ج:۸، ص: ۳۵۴، مکتبہ رشیدیہ ،کوئٹہ]۔
خلاصہ کلام یہ ہے مرد کے آلہ کی سپاری جماع کے بعد منہ میں لینا حرام ہے اور اگر جماع سے پہلے ہو تو یہ مکروہ ہے۔
واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم
......
اردو فتاوی
تعداد: 22459
متفرقات - حلال و حرام
سوال # 177
میاں بیوی کے درمیان اورل سیکس کا کیا حکم ہے؟
کیا میاں بیوی ایک دوسرے کے اعضائے مخصوصہ کو دیکھ سکتے ہیں اور بوسہ دے سکتے ہیں؟
Published on: Feb 1, 2016 جواب # 177
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 184/م=185/م)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
إذا أدخل الرجلُ ذکرَہ فی فم امرأتہ قد قیل یکرہ...... یعنی اگر مرد اپنی بیوی کے منھ میں شرمگاہ کو داخل کرلے تو یہ مکروہ ہے۔
(عالمگیری:5/372)
اس سے معلوم ہوا کہ زوجین کے درمیان اورل سیکس (شرمگاہ کو بوسہ دینا، منھ میں لینا اور زبان لگانا وغیرہ) یہ سب مکروہ فعل اور بے حیائی کی بات ہے۔
ہاں میاں بیوی ایک دوسرے کے اعضائے مخصوصہ کو دیکھ سکتے ہیں لیکن نہ دیکھنا اولیٰ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Halal--Haram/177
........
اردو فتاوی
تعداد: 22459
متفرقات - حلال و حرام
Pakistanسوال # 250
میں اورل سیکس کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا یہ جائز ہے کہ عورت اپنے شوہر کا عضو مخصوص اپنے منھ میں لے ، اسے بوسہ دے؟ والسلام
سوال # 177
میاں بیوی کے درمیان اورل سیکس کا کیا حکم ہے؟
کیا میاں بیوی ایک دوسرے کے اعضائے مخصوصہ کو دیکھ سکتے ہیں اور بوسہ دے سکتے ہیں؟
Published on: Feb 1, 2016 جواب # 177
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 184/م=185/م)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
إذا أدخل الرجلُ ذکرَہ فی فم امرأتہ قد قیل یکرہ...... یعنی اگر مرد اپنی بیوی کے منھ میں شرمگاہ کو داخل کرلے تو یہ مکروہ ہے۔
(عالمگیری:5/372)
اس سے معلوم ہوا کہ زوجین کے درمیان اورل سیکس (شرمگاہ کو بوسہ دینا، منھ میں لینا اور زبان لگانا وغیرہ) یہ سب مکروہ فعل اور بے حیائی کی بات ہے۔
ہاں میاں بیوی ایک دوسرے کے اعضائے مخصوصہ کو دیکھ سکتے ہیں لیکن نہ دیکھنا اولیٰ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Halal--Haram/177
........
اردو فتاوی
تعداد: 22459
متفرقات - حلال و حرام
Pakistanسوال # 250
میں اورل سیکس کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا یہ جائز ہے کہ عورت اپنے شوہر کا عضو مخصوص اپنے منھ میں لے ، اسے بوسہ دے؟ والسلام
Published on: Apr 21, 2007 جواب # 250
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 13/د=13/د)
مرد کے عضو مخصوص کا عورت کو منھ میں لینا یا اس کو چومنا اگر اس پر نجاست نہ بھی لگی ہو، اچھا نہیں ہے، مکروہ ہے۔ یہ طریقہ جانوروں کے طریقہ کے مشابہ ہے۔ حیاء کو ایمان کا اہم شعبہ قرار دیا گیا ہے:
الحیاء شعبة من الإیمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نہ تو آپ کے ستر کو دیکھا اور نہ آپ نے میرے ستر کو کبھی دیکھا۔
فطرة سلیمہ کا تقاضہ ہے کہ اس سے بچے مگر عورت اگر غلبہٴ شہوت کے تقاضہ سے ایسا کرلے تو ناجائز نہیں ہے: في النوازل إذا أدخل الرجل ذکرہ في فم امرأتہ قد قیل یکرہ وقد قیل بخلافہ کذا في الذخیرة (فتاویٰ عالمگیري: ج5 ص372)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Halal--Haram/250
......
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 13/د=13/د)
مرد کے عضو مخصوص کا عورت کو منھ میں لینا یا اس کو چومنا اگر اس پر نجاست نہ بھی لگی ہو، اچھا نہیں ہے، مکروہ ہے۔ یہ طریقہ جانوروں کے طریقہ کے مشابہ ہے۔ حیاء کو ایمان کا اہم شعبہ قرار دیا گیا ہے:
الحیاء شعبة من الإیمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نہ تو آپ کے ستر کو دیکھا اور نہ آپ نے میرے ستر کو کبھی دیکھا۔
فطرة سلیمہ کا تقاضہ ہے کہ اس سے بچے مگر عورت اگر غلبہٴ شہوت کے تقاضہ سے ایسا کرلے تو ناجائز نہیں ہے: في النوازل إذا أدخل الرجل ذکرہ في فم امرأتہ قد قیل یکرہ وقد قیل بخلافہ کذا في الذخیرة (فتاویٰ عالمگیري: ج5 ص372)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Halal--Haram/250
......
No comments:
Post a Comment