Friday 19 May 2017

موت العالِم موت العالَم

ایس اے ساگر
علمی حلقوں کی فضا سوگوار ہے. ازہر ہند، اُم المدارس دارالعلوم دیوبند میں تقریبا چالیس سال درس و تدریس کی خدمات انجام دیکر ہزاروں تشنہ لبوں کو سیراب کرنے والی عظیم علمی و روحانی شخصیت، مسلمانان ہند کی سب سے بڑی تنظیم جمعیة علمائے ہند کے نائب صدر، محدث عصر، استاذ العلماء، حضرت مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند آج مورخہ ۲۳ شعبان بروز سنیچر وقتِ سحر اپنے ہزاروں روحانی فرزندوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ 
انالله وانا الیه راجعون۔
الله رب العزت حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے، اپنا قرب خاص نصیب فرمائے، بےشمار رحمتوں سے مالا مال فرمائے اور ہم تمام پسماندگان، متعلقین، متوسلین، شاگردگان خصوصا حضرت کے گھر، خاندان والوں اور اعزہ و اقرباء کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
اس موقع پر جمعیة علمائے ہند کے ناظم عمومی اور صاحب نسبت بزرگ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب مدظلہ نے غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کی وفات دارالعلوم دیوبند سمیت پوری ملت اسلامیہ خصوصا علمی دنیا کیلئے بہت بڑا خسارہ ہے، اس خلا کو پر کرنا بہت مشکل ہوگا۔ آج ہم اپنے انتہائی مشفق و مربی استاذ سے محروم ہوگئے، اس غمناک گھڑی میں ہر آنکھ اشکبار ہے۔ مولانا مدنی نے دارالعلوم کے تمام اساتذہ سمیت حضرت کے تمام لواحقین، پسماندگان، اعزہ و اقرباء، اور تمام شاگردوں و متعلقین کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ حقیقت میں ہم سب ایک دوسرے کی تعزیت کے مستحق ہیں۔
جمعیة علمائے ہند کے کل ہند سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے بتلایا کہ کل رات تک حضرت کی طبیعت بالکل ٹھیک تھی، صبح چار بجے کے قریب اٹیک آیا اور الله پاک نے اپنے پاس بلا لیا۔ آپ تقریبا دس سال جمعیة علمائے ہند کے نائب صدر کے عہدہ پہ فائز رہ کر اپنی قیمتی آراء و مشوروں سے نوازتے رہے، آپ کی عمر تقریبا 75 برس تھی، جس کا آدھہ سے زائد حصہ قال الله اور قال الرسول پڑھاتے ہوئے گزار دیا، آپ دارالعلوم کے انتہائی محبوب اساتذہ میں سے تھے، طلباء کے ساتھ انتہائی شفقت و محبت کا معاملہ فرماتے تھے، دارالعلوم دیوبند کا الہامی ترانہ "یہ علم و ہنر کا گہوارہ" اور جعیت علمائے ہند کا ترانہ "یہ اہل یقیں کی جمعیت" بھی آپ کی مرہون منت ہے۔ یقینا آپ کی رحلت پوری امت مسلمہ کیلئے بہت بڑا حادثہ ہے۔
مولانا حکیم الدین قاسمی نے بتلایا کہ حضرت رحمة الله علیه کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر احاطہ دارالعلوم میں ادا کی جائے اور قبرستان قاسمی میں تدفین ہوگی۔

اب انہیں ڈھونڈو چراغِ رخِ زیبا لے کر
علامہ فضیل احمد ناصری
ہاے یہ گردشِ دوراں مجھے لائی ہے کہاں؟
زمانہ ایک بار پھر قیامت کی چال چل گیا، دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے درمیان سے وہ شخصیت بھی اٹھ گئی، جن کا وجود ہم جیسے ہزاروں کروڑوں کے لیے ہمایوں سائبان تھا، حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی ظفر بجنوری صاحب بھی اسی عالم میں پہونچ گئے، جہاں پہونچنا ہر ذی نفس کا مقدر ہے، موت کا جام پینے والوں میں ایک اور نامی گرامی بندے کا اضافہ- انا للہ و انا الیہ راجعون:
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقاے دوام لا ساقی
موت کی خبر کسی بھی انسان سے متعلق ہو، وہ عزیز و اقارب کے لیے رلانے دھلانے والی ہی ہوتی ہے اور جانے والا جب گھنی چھاؤں والا ہو، جس کی مجلسیں اکسیرگر اور صحبتیں کیمیا اثر ہوں، اس کی موت کی خبر جس قدر وحشت اثر ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ کچھ وہی لگا سکتے ہیں، جن کے سروں سے کم سنی میں ہی پدری سائبان اٹھ گیا ہے-
حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب ہمارے دور کی عظیم ترین شخصیت تھے، ایسی شخصیت، جس کی تعمیر برسوں میں اور بڑی مشکل سے ہوتی ہے، ایسی بلند و بالا ہستی جس کے دیدار کے لیے نرگس کو ہزاروں سال اپنی بے نوری پر رونا پڑتا ہے- وہ اردو کے زبردست ادیب، مایۂ ناز انشا پرداز، نظم و نثر کے صاحبِ اسلوب اہلِ قلم، استعارات و تمثیلات کے امامِ وقت تو تھے ہی، وہ علومِ شریعت کے نادر الوجود "رمز شناس " اور دارالعلوم کے علمی و عملی ترجمان بھی تھے، ان کے اسباق میں شرکت کرنے والے اور ان کی بزمِ علم میں بیٹھنے والے جانتے ہیں کہ وہ علمِ حدیث پر کیسی عمیق نظر رکھتے تھے! ان کے دروس کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ نہایت سادہ، مختصر اور دل کش جملوں میں مشکل مقامات و مضامین کو حل کردینے کی صلاحیت سے مالا مال تھے، تعارضِ اقوال یا متعارض احادیث پر اطمینان بخش، خوب صورت کلام اور تطبیق ان کی تدریس کا حصہ تھی- کمزور گفتگو نہ وہ کرتے تھے، نہ کرنا جانتے تھے، ہم لوگ ان کی تدریس میں علمیت اور ادبیت  دونوں طرح کے چٹخارے پاتے-
تدریس کے علاوہ حضرت الاستاذ نے قلم کی راہ سے بھی پائیدار کام لیے، ان کی کتاب "شوریٰ کی شرعی حیثیت "اردو زبان میں اپنے موضوع پر اکیلی اور منفرد کتاب ہے، اس سے ان کی وسعتِ مطالعہ، دقتِ نظر، ذوقِ کتب بینی، سرعتِ قلم اور استنباطی طبیعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، یہ ضخیم ترین کتاب دارالعلوم کے مکتبے سے شائع ہو کر شہرتِ دوام حاصل کر چکی ہے، لیکن ان کی علمی گہرائی اور حدیثی مذاق کا اصل تعارف "ایضاح البخاری "ہے، تلمیذِ کشمیری فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالدین مراد آبادی مرحوم کے اسباقِ بخاری کو انہوں نے جس کمالِ مہارت اور چابک دستی سے قلم بند کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے- کئی جلدوں پر مشتمل یہ کتاب حلِ بخاری کے ساتھ علومِ اسلامیہ کا گراں قدر سرمایہ ہے، کوئی بھی اہلِ علم اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا- کاش کہ اس کی کامل جلدیں منظر عام پر آجاتیں!!!
حضرت الاستاذ کی اردو سے وابستگی سدا ہی "شہرۂ آفاق "رہی ہے، نثر کے ساتھ شعریات میں بھی انہیں قابلِ رشک ملکہ حاصل تھا، وہ شاعری کی ہر صنف پر کامل دستگاہ رکھتے، انتہائی دھلی ہوئی اور سلیس زبان، لطیف اور بامزا تعبیرات، دل آویز اور نشاط انگیز جملے- ان کا مجموعۂ کلام "نغمۂ سحر " چھپ کر اربابِ علم و ادب سے داد و تحسین وصول کر چکا ہے، لیکن ترانۂ دارالعلوم کو جو شہرت نصیب ہوئی، ویسی کسی بھی عالم کی نظم و غزل کے حصے میں نہیں آئی- دارالعلوم کے فضائل و مناقب کو بہتوں نے اشعار میں پرویا، متعدد مشاقوں نے ترانے لکھے، تاہم حضرت الاستاذ کا ترانہ سارے ترانوں پر اسی طرح چھا گیا، جس طرح دارالعلوم دیوبند سارے عالم میں چھایا ہوا ہے-
ترانے کی بات آگئی تو عرض ہے کہ "اسرار الحق مجاز لکھنوی "نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لیے خوب صورت ترانہ لکھا تھا، یہ لب و لہجہ اور آہنگ و اسلوب میں منفرد اور زور دار تھا، صد صالہ اجلاس کے موقعے پر حضرت الاستاذ نے دارالعلوم کے ترانے کے لیے اسی زمین کا انتخاب کیا اور کیا غضب کی شاعری کی!! افکار و خیالات کا وہ بہاؤ اور تموّجِ جذبات کے وہ نمونے کہ قاری پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، ترانے کی زبان اتنی معیاری اور حلاوت و چاشنی سے بھرپور الا ماشاء اللہ ہی دیکھی جاتی ہے- مقابلہ اور موازنہ کیجیے تو ترانۂ دارالعلوم کے سامنے ترانۂ علی گڑھ کی وہی حیثیت ہے جو چاند کے سامنے تاروں کی ہوتی ہے- اب تو اس کی تقلید میں اتنے ترانے وجود میں آگئے ہیں کہ شمار سے باہر-
حضرت الاستاذ رفتارِ زمانہ سے بھی باخبر رہتے، بعدِ عصر کی مجلسوں میں بالعموم عصرِرواں پر تبصرے ہوتے، سیاست کے زیر و بم اور حکومتی رجحانات و میلانات پر جچے تلے تبصرے کرتے، ان کی متعدد مجالس میں باریابی کی سعادتیں مجھ سیاہ نامہ کو بھی نصیب ہوئی ہیں-
علم و فضل اور زبان وادب میں فائقیت کے علاوہ حضرت الاستاذ کی ایک بڑی خوبی "احساسِ مروت " اور "خورد نوازی "بھی تھی، ان سے ملنے والا خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، مل کر لوٹتا تو یوں محسوس کرتا کہ کوئی "گنجِ گراں مایہ "ساتھ لے کر لوٹا ہے- طالب علمی کے دور میں حضرت الاستاذ شیخ عبدالحق صاحب مرحوم کے علاوہ میرا کسی سے رابطہ نہ تھا، شیخ صاحب سے ربط کی وجہ والدِ مرحوم حضرت مولانا جمیل احمد ناصری سے رفاقتِ قدیمہ تھی، میں  2008 میں جامعہ امام محمد انورشاہ، دیوبند میں بحیثیت "مدرّس "آیا اور اس کے ترجمان: ماہنامہ "محدثِ عصر "سے بھی وابستگی ہوئی تو اساتذۂ دارالعلوم سے تعارف اور رابطے ہوے- حضرت الاستاذ کے چھوٹے فرزند محترم مولانا سعدان جامی صاحب جامعہ میں ہمارے ساتھ پڑھاتے ہیں، انہیں کی وساطت سے ایک دن حضرت کی خدمت میں پہونچا اور مولانا سعدان صاحب نے تعارف کرایا تو فرمانے لگے: ماشاء اللہ! آپ ہی ناصری صاحب ہیں! "محدثِ عصر "میں آپ سے تو ہر ماہ ملاقات ہوجاتی ہے- بڑی دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں، مجھے بالکل نہیں لگا کہ ایک عظیم ترین شخصیت ایک "ہیچ مداں "طالب علم سے محوِ کلام ہے، بلکہ یوں لگا کہ کوئی قدیم مہربان اپنی کرم فرمائیاں نثار کر رہا ہے-میری کتاب "تفہیمِ اِلہامی "شرح اردو منتخب الحسامی پر ان کے تاثرات بھی ثبت ہیں-
اس ملاقات کے بعد پھر یہ سلسلہ برسوں چلا، وہ ہر ملاقات میں حوصلہ بڑھاتے،دل جوئی کرتے - چند ماہ پیش تر شدید بیمار پڑے اور "سنگینئ احوال" کی خبر ذرائعِ ابلاغ میں گردش کرنے لگی تو میں بھی ان کی عیادت کو "ڈی، کے، جین "پہونچا، مل کر اتنا خوش ہوے جیسے وہ علالت سے دوچار نہ ہوں، بلکہ آرام کی غرض سے یہاں چلے آے ہوں- اس عائدانہ ملاقات میں انہوں نے میرے نام کے لاحقے "ناصری "کی مناسبت سے کئی ایسے اشعار سناے جن میں "ناصری "آتا ہے- ان سے مل کر ایسا لگا کہ برسوں کا بچھڑا ہوا بیٹا اپنے باپ سے گلے مل رہا ہے-
جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند سے حضرت الاستاذ کو بڑا لگاؤ تھا، اس کا بیش قیمت ترانہ انہیں کے قلم سے ہے جو ہر اہم موقعے پر پڑھا جاتا ہے، جامعہ کی "مسجدِ انور شاہ " کی پیشانی پر اشعار کی لگی تختی بھی حضرت کی ہی مرہونِ منت ہے، اس کے ماسوا بانئ جامعہ فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری مرحوم کا "لوحِ مزار "انہیں کی عبارات اور شعر سے مزین ہے- ان سے آخری ملاقات جامعہ میں ہی ہوئی تھی-
میں اس وقت اپنے وطن "بہار "میں ہوں- آج بتاریخ ۲۰ / مئی ۲۰۱۷ کو علی الصباح میرے رفیقِ جامعہ: محترم مولانا ابوطلحہ اعظمی کا فون آیا، پھر متعدد مقامات سے لگاتار کئی فون آے کہ حضرت الاستاذ کا آج چار بجے شب وصال ہو گیا ہے تو میں چکرا کر رہ گیا، مجھے یقین ہی نہ آیا، ابھی سالانہ امتحان کے موقعے پر برادرم مولانا سعدان صاحب سے حال احوال معلوم کیے تھے اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں تھی، لیکن یہ کیا! اچانک ہمارے درمیان سے اٹھ گئے! دعا، نہ سلام- حضرت الاستاذ ایسے وقت میں رخصت ہوے ہیں کہ مدارس بند ہیں، اساتذہ اور طلبہ اپنے گھروں کو جاچکے، تاہم مجھے یقین ہے کہ ان کے جنازے میں اس بھیڑ سے بھی بڑھ کر ہجوم ہوگا جو تعلیمی ایام میں ہوا کرتا ہے- ہم جیسے حرماں نصیب دعاے مغفرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟
ایسا لگتا ہے کہ موت کی تیاری حضرت نے بہت پہلے سے کر رکھی تھی، اپنی روانگی کا اندازہ بھی شاید انہیں ہو چکا تھا- اہلیہ کے وصال کے بعد وہ پہلے ہی بجھ گئے تھے- حضرت مولانا عبدالرحیم بستوی کے سانحۂ ارتحال کے بعد جو تعزیتی اجلاس منعقد ہوا تھا، اس میں حضرت الاستاذ نے بطورِ خاص شرکت فرمائی اور جب خطاب کا موقع ملا تو فرمایا کہ "جانے کی باری میری تھی، مگر مولانا چلے گئے- ان کی یہ تقریر اتنی دل پذیر تھی کہ آج بھی تازہ ہے، ان کے خطبات دل پذیری سے خالی ہی کب ہوتے تھے؟ 
اب حضرت ہنستے مسکراتے ہمیں کبھی نہیں ملیں گے، ان کی ہشت پہلو شخصیت چلتے پھرتے اب کہیں نظر نہیں آے گی، ان سے مل کر لہو گرمانے کا موقع اب کبھی نہ ملے گا، ہاں! گورستانِ قاسمی میں ان کا مزار ضرور مل جاے گا، جہاں صرف خاک ہوگی، جی ہاں صرف تودۂ خاک- انہیں سمجھنے اور ان سے استفادے کے لیے اب کتابیں کھنگالنی پڑیں گی، ہنستے مسکراتے اور جیتے جاگتے شاید وہیں مل سکتے ہیں، اور کہیں بھی نہیں:
خیالِ زلفِ دوتا میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر
تغمدہ اللہ بغفرانہ
......

مولانا ریاست علی ظفرؔ  بجنوری
از: فاروق اعظم عاجزؔ کھگڑیاوی، متعلّم دارالعلوم دیوبند
یوں تو اردو زبان روز اوّل ہی سے اپنی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر لوگوں کی منظور رہی ہے اورآج اپنی بوقلمونی سے لوگوں کے ذہن و دماغ کو مسخر کررہی ہے۔ اس زبان کے ارتقائی سفر میں جہاں ادباء کا کردار انتہائی روشن رہا وہیں اس زبان کو اوج ثریا پر پہنچانے میں شعراء کا بھی اہم رول رہا ہے؛ بلکہ شاعری کو تو اردو ادب کی جان کہا گیا ہے۔
دبستانِ اردو کے انہیں متنوع پھولوں میں سے ایک خوبصورت نام ”مولانا ریاست علی ظفر صاحب“ کا بھی ہے، آپ جہاں ایک ذی استعداد عالم دین، مقبول مدرس، ماہر منتظم اور صاحب طرز ادیب ہیں وہیں آپ کے ذوقِ سخن کی رفعت اور شاعرانہ عظمت لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
اردو زبان کے تحفظ و بقا،اس کے جاہ وجلال کی پاسداری اوراس کی روح کی شادابی کے سامان فراہم کرنے میں شعراء نے اپنے فکر کی بلندی، ہنر کے معجزے، عشق و محبت کے کرشمے کا مظاہرہ کیا، ان کے کلام میں حقیقت کی آمیزش زیادہ اور مجاز کی کم ہوا کرتی تھی، ان کی شاعری میں مذہب کارنگ، سوزِ دروں کی شعلہ نوائی اور بھائی چارگی کا پیغام بھی ہوا کرتا تھا اور سب سے بڑھ کر اس زبان کا مرکزی نقطہ ”قومی یکجہتی“ کو فروغ دینے میں ان شعراء نے نمایاں کردارادا کیا بلکہ اس عظیم زبان کو دل و جان سے زیادہ عزیز بناکر اسے زندہ اور زندگی بخش حیثیت عطا کی انہیں عظیم معماروں میں مولانا ریاست علی ظفر صاحب کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے۔
یوں تو آپ سادہ لباس و سادہ مزاج ہیں مگراسی کے ساتھ خوش رو، خوش فکر اور خوش کلام بھی، آپ نے شعر وسخن کو نہ تو مستقل مشغلہ بنایا اور نہ ہی دورِ حاضر کے شعراء کی طرح آسائش زندگی کا ذریعہ، مگر ہاں! اردو ادب سے مولانا موصوف کا مخلصانہ تعلق رہا اور ہے چنانچہ آپ کی ہر نظم، ہر نعت اور ہر غزل میں کوئی نہ کوئی سبق اور کوئی نہ کوئی پیغام ضرور ملتا ہے۔ جیسے نظم ”محبت“ میںآ پ یوں گنگناتے نظر آتے ہیں:
محبت ماورائے ایں و آں ہے           
محبت حاصلِ کون و مکاں ہے
محبت ترجمانِ راز ہستی                  
محبت چشمِ قدرت کی زباں ہے
محبت التہابِ برقِ ایمن                
کلیم طور کا عزمِ جواں ہے
آپ ان کی نعت میں درس و پیام کو دیکھ سکتے ہیں کہ:
ہر اک بہار نے آکر تری شہادت دی            چمن چمن سے ملا ہے تیرا پیام مجھے
ظفرؔ نہ پوچھ، قیامت ہے وہ نظر جس نے         سکھا دیا ہے تمنا کا احترام مجھے
اسی طرح آپ کے فن کی جلوہ سامانی غزل کے پیرایے میں نظر آتی ہے کہ:
پھر آستیں کو شوق مری چشمِ نم کا ہے
کم کررہا ہوں قیمتِ لعل و گوہر کو میں
---------------
لالہٴ و گل کی عافیت ، برق سے ملتجی نہیں
برق کہاں جھکائے سر ، لالہ و گل نہ ہو اگر
آپ کے ذہن رسا سے تو سخن وری کے مختلف چشمے پھوٹے اور لوگوں کی سیرابی کا سامان فراہم کرتے رہے؛ لیکن تغزل کی شفافیت اور مٹھاس ہر ایک میں اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے، یوں تومولانا ظفر بجنوری کے کلام میں تنوع، البیلاپن، مضمون کی توانائی ان کی انفرادیت کی عکاسی کرتی ہے اس کے باوجود ان کی شاعری میں کبھی میر کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔ جیسے:
رُت بدلے گی، پھول کھلیں گی، جام مجھے چھلکانے دو
جام مجھے چھلکانے دو ، کونین کو وجد میں آنے دو
تو کبھی غالب کا آہنگ، حسرت مرحوم کے رنگ تغزل سے بھی مولانا موصوف کا سخن خالی نہیں؛ بلکہ کہیں کہیں اقبال کا طرزِ بیان بھی نظر آتا ہے۔
کسے نسبت ہے چشمِ معتبر سے          
حذر اے دل ! جہانِ کم نظر سے
منور ہے حریمِ زندگانی                 
گداز شام سے آہ سحر سے
مولانا ریاست علی ظفر بجنوری کی عبقریت و انفرادیت کی ترجمانی ترانہٴ دارالعلوم سے بھی پوری طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ کس سلیقے سے انوکھے اور اچھوتے آہنگ میں اسے ڈھالا کہ اس کے ایک ایک مصرعہ سے جہاں دارالعلوم کی عظیم دینی خدمات، اس کی تاریخی و انقلابی حیثیت اور اس کے ارباب کی گوناگوں خصوصیات، احیائے دین کی خاطر جہد مسلسل اور ملک کی آزادی کیلئے عظیم قربانیاں گویا اس عظیم درسگاہ کی پوری داستان نکھر کر سامنے آجاتی ہے وہیں آپ کی سخن وری، فصاحت و بلاغت گہرائی و گیرائی اور امتیازی مقام کاپتہ چلتا ہے۔
چنانچہ مولانا لقمان الحق صاحب فاروقی مرحوم مولانا بجنوری کی سخن سنجی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”انھوں (جناب ظفر بجنوری) نے دارالعلوم کاترانہ لکھا، اس میں دارالعلوم کی خصوصیات بھی ہیں، اکابر دارالعلوم کا ان کے امتیازی رنگ کے ساتھ تذکرہ بھی ہے، تاریخی واقعات کی طرف اشارے بھی ہیں۔“ آگے آپ کے رنگ تغزل کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”لیکن ان تمام مضامین کے بیان میں شعری اصطلاحات اور تغزل کے تحفظ کا جو ثبوت ظفر بجنوری نے پیش کیا ہے وہ ان کی انفرادیت کی واضح علامت ہے۔
مولانا موصوف نے اپنے کلام میں دارالعلوم دیوبند کی تاریخی حیثیت کی تصویر کشی اس عمدگی سے کی کہ بیک نظر اس کی پوری تاریخ نگاہوں کے سامنےآجاتی ہے مثلاً:
یہ علم و ہنر کا گہوارہ، تاریخ کا وہ شہہ پارہ ہے
ہرپھول یہاں اک شعلہ ہے، ہر سرو یہاں مینارہ ہے
اس شعر میں مولانا نے دارالعلوم دیوبند کے مقصد تاسیس کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اسے تاریخ عالم کا ایک عظیم سرمایہ بھی قرار دیا، یہاں کے خوشہ چینوں کو پھول اور پہاڑ جیسے ان کے بلند عزائم و افکار کو شعلہ سے تشبیہ دی ہے اور ”ہر سرو یہاں مینارہ“ سے اس قلعہٴ اسلامی کی عظمت کو سراہا ہے۔ مولانا کا یہ قدیم تاریخ اردو روایتوں کو خوبصورتی کے ساتھ نیالب ولہجہ اور نیا پیراہن عطاکرتا ہے۔
چوں کہ اردو ادب کا عظیم سرمایہ شاعری بھی ہے اور شاعری کی آبرو غزل ہے، مولانا کے تغزل میں ابتذال سے پاک حسن و عشق کی رعنائی بھی ہے، عالمانہ پختگی کے ساتھ تصوف اور علم و حکمت کاآہنگ بھی اوراخلاق و سیاست کا رنگ بھی۔
اس وقت مولانا موصوف اپنی عمر کی ۶۸ویں منزل طے کررہے ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے ہر چیز سے یکسو ہوکر تدریس حدیث میں پورے طور پر منہمک ہیں اورایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں حدیث کی خدمات انجام دے رہے ہیں، آپ کے شاگرد ایک طرف احادیث نبوی (…) کی شیرینی سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو دوسری طرف اسلوب کی سادگی کے باوجود ادب کے موتیوں سے اپنے دامن دل کو بھر کر ذوقِ سخن کو توانائی بخشتے ہیں۔
آپ کے اشہب قلم سے نکلے ہوئے لعل و گوہر کا مجموعہ ”نغمہ سحر“ کی شکل میں مولانا موصوف کی ادبی شان کی عبقریت پر غماز ہے اور اس کتاب کو غزل کا نگینہ اور ادب کے شائقین کیلئے متاعِ گراں مایہ کہا جاسکتا ہے۔
_________
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 90 ‏،ذیقعدہ 1427 ہجری مطابق دسمبر2006ء
.......

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے اظہار رنج وغم

جمعیۃ علماء ہند کے صدر امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے دارالعلوم کے موقر استاذ حدیث اور جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر مولانا ریاست علی ظفر بجنوری کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔وہ ۷۷؍سال کے تھے اور پچھلے پینتالیس سالوں سے دارالعلوم دیوبند میں علم حدیث وفقہ کی تعلیم وتعلم سے وابستہ تھے ۔
 صدر جمعیۃ علماء ہند نے اپنے بیان میں کہا کہ دارالعلوم دیوبند نے اپنا ایک عظیم سپوت کھودیا ہے ، جنھوں نے مسلک دیوبند اور اس کے فکر کی بحسن وخوبی ترجمانی کی۔مولانا منصورپوری نے کہا کہ وہ بیک وقت ذی استعداد عالم ، مقبول استاذ، ماہر منتظم اور صاحب طرز ادیب تھے ۔ وہ خوش رو ، خوش فکر اور خوش گفتار ہونے کے ساتھ اعلی درجے کے معاملہ فہم اور صاحب رائے انسان تھے ۔ان کے سانحہ ارتحال سے علمی و دینی حلقے میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے ، آج بالخصوص دارالعلوم دیوبند او رجمعیۃ علما ء ہند اوربالعموم پورا عالم اسلا م سوگوار ہے ۔ حضرت والا جمعےۃ اور دارالعلوم دونوں میں کلیدی حیثیت کے حامل تھے اورمشکلات میں پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے ان کی جانب رجوع کیا جاتا تھا۔مولانا مرحوم فراغت کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے دفتر الجمعیۃ بکڈپو کے مینیجر رہے اور سال ۲۰۰۸ء میں جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر منتخب ہوئے ، جس پر تادم واپسیں فائز رہے ۔
آپ ۹؍مارچ۱۹۴۰ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے ، جب کہ آبائی وطن حبیب والا ضلع بجنور تھا۔۱۹۵۸۸ء میں دارالعلوم میں اول پوزیشن سے فراغت حاصل کی۔۱۹۷۲ء میں دارالعلوم دیوبند کے استاذ مقرر ہوئے ۔اس کے علاوہ آپ دارالعلوم دیوبند میں مجلس تعلیمی کے ناظم ، شیخ الہند اکیڈ می کے نگراں اور عارضی طور سے دارالعلوم کے نائب مہتمم کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے ۔ آپ علم حدیث و فقہ کے بڑے عالم کے ساتھ اردو زبان وادب کے نامور قلم کار وادیب بھی تھے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ’’ نغمہ سحر‘‘ ایک عظیم شاہکار ہے ۔ اس کے علاوہ ’’ایضاح البخاری‘‘ ’’ شوری کی شرعی حیثیت ‘‘ ان کی معرکۃ الاراء تصنیفات ہیں ۔ ان کا لکھا ہو ا دارالعلوم کا ترانہ بہت ہی جامع و مقبول ہے ، اس میں دارالعلوم کی خصوصیا ت ، مقصد تاسیس ، تاریخی واقعات کو بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے ۔
 مولانا منصورپوری اور مولانا مدنی نے حضرت والا کے لواحقین خاص طور سے ان کے تینوں صاحبزادگان سے اظہار تعزیت کیا ہے ۔ آج جمعیت علماء ہند کا ایک وفد دیوبند پہنچا اور صاحبزادگان سے مل کر جمعیۃ کی جانب سے تعزیت پیش کیا، نیز نماز جنازہ اور تجہیزو تکفین میں شرکت کی ۔نماز جنازہ امیر الہند حضرت مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری صاحب صدر جمعیتہ علماء ہند نے احاطہ مولسری میں پڑھائی، جمعیتہ کے وفد میں مولانا یوسف قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند ،مولانا معزالدین احمدناظم امارت شرعیہ ہند، مولانا کلیم ا لدین قاسمی ،مولانا عرفان قاسمی اور مولانا یسین قاسمی شریک تھے ۔ادھر مسجد عبدالنبی دفتر جمعیت میں بعد نماز ظہر حضرت والا کے لیے ایصال ثواب کی ایک نشست منعقد ہوئی جس میں مولانا طاہر قاسمی، مولانا نجیب اللہ قاسمی ، مولانا عبدالحق قاسمی، مولانا عبدالملک قاسمی اور عظیم اللہ صدیقی قاسمی کے علاوہ کثیر تعداد میں افراد شریک ہوئے ۔
 مولانا منصورپوری اور مولانا مدنی نے تمام جماعتی احباب، ذمہ داران مدارس ، متعلقین واحبا ب کو تلقین کی ہے کہ حضرت والا کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا خصوصی اہتمام کریں ۔

No comments:

Post a Comment