مام شافعی رحمہ اللہ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ، ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ؟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
1. ﺑﮩﺖ ﺑﻮﻟﻨﺎ،
2. ﺭﺍﺯ ﻓﺎﺵ ﮐﺮﻧﺎ، ﺍﻭﺭ
3. ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﺮ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮐﺮﻟﯿﻨﺎ۔
(الانتقاء ج ١ ص١٠٠)
ایک مسلمان کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی دوسرے کا راز فاش نہ کرے، کسی کی پوشیدہ بات جاننے کی کوشش بھی نہ کرے اور ایک دوسرے کے عیوب کی پردہ پوشی کرے کیونکہ رازطاقت کا ایسا سرچشمہ ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا‘ اور راز ایسی فوج جسے شکست نہیں دی جاسکتی۔ بعض راز کسی ایک شخص‘ بعض ایک خاندان اور بعض پورے معاشرے سے متعلق ہوتے ہیں۔ انفرادی، خاندانی اور معاشرتی راز فاش ہونے سے دوسروں کو مذکورہ تینوں طبقوں سے استہزا اور نقصان پہچانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اسی طرح کسی ریاست کے اہم راز اس کے دشمن کے ہاتھوں میں چلے جانے سے ملک کے سنبھلنے کا امکان باقی نہیں رہتا اوراس ریاست کو شکست کی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں راز کو امانت قرار دیا گیا رسول کائنات رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جب آدمی کوئی بات کرے اور چلا جائے تو یہ امانت ہے.‘‘
(جامع ترمذی: 1959)
اس بات کی مزید وضاحت عمل صحابہ رضی اﷲ عنہم سے ہوتی ہے ۔حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لا ئے اس وقت میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سب کو سلام کیا اور مجھے کسی کام کے لیے بھیج دیا تو میں اپنی والد ہ کے پاس تا خیر سے پہنچا، جب میں آیا تو والدہ نے پوچھا تمھیں دیر کیوں ہوئی؟
میں نے کہا مجھے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کا م سے بھیجا تھا۔ انہوں نے پو چھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ کام کیا تھا؟
میں نے کہا: وہ ایک راز ہے۔
میری والدہ نے کہا تم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا راز کسی پر افشا نہ کرنا۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے (نے اُس وقت اپنے شاگر د حضرت ثابت بنانی رحمۃ اﷲ علیہ سے) فرمایا: ’’ﷲ کی قسم! اے ثابت! اگر میں وہ راز کسی کو بتاتا تو تمہیں ضرور بتا تا‘‘(صحیح مسلم: 2482) راز داری کے حوالے سے چند اہم امور پیش خدمت ہیں جن سے رازداری کی اہمیت وافادیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔
1: اپنے راز کی خو د حفاظت کرنا:ہم اپنے اسرار کی حفاظت خودکریں تو بہت سی پریشانیوں سے بچے رہیں گے ۔ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم کافرمان ہے:
’’سِرُّ کَ اَسِیْرُکَ فَاِنْ تَکَلَّمْتَ بِہٖ صِرْتَ اَسِیْرَ ہُ‘‘
راز اس وقت تک آپ کا غلام ہے جب تک آپ نے اسے کسی سے بیان نہیں کیا ہے لیکن جب اسے بیان کردیا تو اب آپ اس کے غلام ہوگئے۔ (ادب الدنیا والدین :ماوردی)
اسی طرح جب ﷲ کی طرف سے کوئی خاص فضل وکرم ہو جس کے بیان کرنے سے بغض وحسد کا اندیشہ ہو تو اس کا ذکر لوگوں میں خصوصیت کے ساتھ نہیں بلکہ عمومی انداز میں کریں تاکہ اس نعمت کے حاسد کو پتہ نہ چلے جیساکہ ارشاد باری ہے: ’’یعقوب علیہ السلام نے کہا پیارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں‘‘ (یوسف: 5)
اس آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام سے خواب کی نعمت وبشارت کو اپنے بھائیوں سے چھپانے کا ذکر ہے اورفرمان نبوی ہے: ’’لوگوں سے چھپاکر اپنے مقاصد کی کامیابی پرمدد طلب کرو کیوں کہ ہر نعمت والے سے حسد کیا جاتا ہے.‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
2: دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنا:اگر کسی کے پاس کسی دوسرے کا راز ہے تو اسے لوگوں میں بیان نہ کرے خواہ وہ راز اس کے گھر، اس کی ذاتی برائی، عیب اور نقص سے متعلق ہو۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اﷲ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا‘‘ (ابن ماجہ:207) ابن حجر عسقلانی نے کہا :’’پردہ پوشی سے مراد ہے کسی نے کسی کی کوئی برائی دیکھی تو اسے لوگوں کے سامنے بیان نہ کرے ‘‘ 3:کسی کی جاسوسی نہ کرنا:حدیث میں جاسوسی کرنے اورچھپ کر دوسروں کی باتیں سننے سے منع کیا گیا ہے ۔ ارشاد گرامی ہے :’’جس شخص نے کسی قوم کی باتوں پر کان لگایا حالانکہ وہ اسے ناپسند سمجھتے ہوں یا وہ اس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا‘‘(صحیح بخاری:7042) 4:لوگوں کے راز فاش کرنے کی سزا:رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑکر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے ۔‘‘( سنن ترمذی:1959) راز ایک امانت ہے اس کا ظاہر کرنا گویا چغلی کرنا ہے اورچغل خوروں کی سزاجہنم ہے ۔ زوجیت کے متعلق راز فاش کرنے والا خواہ شوہر ہو یا کوئی دوسرا چغل خور قیامت میں اﷲ کے نزدیک سب سے برا انسان ہوگا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :’’قیامت کے دن، اﷲ کے ہاں لوگوں میں مرتبے کے اعتبار سے بدترین وہ آدمی ہو گا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت میں جاتا ہے اور وہ اس کے پاس خلوت میں آتی ہے پھر وہ(آدمی) اس کا راز افشا کر دیتا ہے.‘‘ (صحیح مسلم: 1437)
5: راز کی حفاطت کا طریقہ:خاموشی اختیار کرناکیوں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :’’ جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پالی‘‘( جامع ترمذی:2501) سیدنا عمربن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ کاقول ہے : ’’دل رازوں کا برتن ہے ، دونوں ہونٹ اس کا تالا ہیں اور زبان اس کی کنجی ہے پس ہر آدمی اپنے راز کی کنجی کی حفاظت کرے اپنی زبان کی حفاظت کرے ‘‘۔(ادب الدنیا والدین) 6: راز فاش کرنے والے کا حکم:راز جب امانت ہے تواس کا ظاہر کرنا خیانت اور گناہ کبیرہ اور توبہ لازم ہے ۔ کچھ ا مور ایسے ہیں جن کو بیان کرنے کا حکم دیا گیاہے مثلاً ایسا شخص جوعلانیہ برائی کرنے والا ہواور افراد ، معاشرہ وسماج کے لئے خطرہ کا باعث ہویعنی اس کی شرانگیزی کسی شخص کو یاپورے سماج کو نقصان پہنچا رہی ہوتواس کی حقیقت سے پردہ اٹھانے میں حرج نہیں تاکہ اس کے شر سے محفوظ رہا جا سکے ۔فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے : ’’میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوائے کھلم کھلا بغاوت کرنے والے کے ، ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا)کام کرے اور اس کے باوجود کہ اﷲ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اﷲ کے پردے کو کھولنے لگا‘‘ (صحیح بخاری:6069) اسی طرح کسی کے حق میں گواہی طلب کی جائے تو جو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسے بیان کرے ، یہاں پر چھپانا جائز نہیں ہے ۔ اﷲ تعالی کا فرمان ہے : ’’اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو شخص گواہی کو چھپاتاہے تواس کا دل گناہ گار ہے ‘‘ (البقرۃ:283)اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے اور دوسروں کے راز کی حفاظت اورعیوب کی پردہ پوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے !آمین بجاہ النبی الامین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ۔
No comments:
Post a Comment