Wednesday, 24 June 2020

اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تمہارے بدلے ایسی قوم لاتا جو گناہ کرتی

اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تمہارے بدلے ایسی قوم لاتا جو گناہ کرتی

ایک عالمِ دین نے مجھے یہ حدیث: كتاب التوبة (2) باب سُقُوطِ الذُّنُوبِ بِالاِسْتِغْفَارِ تَوْبَةً: حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عِيَاضٌ، - وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْفِهْرِيُّ - حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ: "‏لَوْ أَنَّكُمْ لَمْ تَكُنْ لَكُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا اللَّهُ لَكُمْ لَجَاءَ اللَّهُ بِقَوْمٍ لَهُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا لَهُمْ"‏‏ بھیج کر "اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم کو لے جاتا اور تمہارے بدلے میں ایک ایسی قوم لاتا جو گناہ کرتی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتے."  کی وضاحت چاہی ہے.

الجواب وباللہ التوفق:
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ حدیث گناہوں کی کثرت کی وجہ سے بخشش سے مایوس لوگوں کی مایوسی کو زائل کرکے انہیں توبہ کی طرف راغب کرنے کے مقصد سے ہے. اللہ تعالی اپنی مخلوق پر بہت مہربان ہے. وہ شفیق باپ کی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی مخلوق کو طرح طرح کے پیرایہِ بیان اور اسلوب سے سمجھاتا ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے نیک بندوں میں شامل ہوجائے. جب بندہ کثرت سے گناہ کرتا ہے تو پہاڑ جیسے اپنے گناہوں کی طرف نظر کرکے سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب تو وہ معافی کے قابل نہیں رہا اور سخت مایوس پھرتا رہتا ہے اور اس مایوسی کی وجہ سے مزید گناہوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے. ایسے مایوس گنہگاروں کے لیے اللہ تعالی کے ذریعے اختیار کردہ ایسا پیرایہِ بیان اور اسلوب ان کے لیے مژدہِ جانفزا اور سخت گرمی میں ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے اور نتیجۃً وہ مایوسی کو جھاڑ کر توبے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے.
حدیث کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ قصداً گناہ کئے جائیں یا اللہ تعالی کے نزدیک گناہ پسندیدہ چیز ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں نصوص گناہ کی مذمت میں بھرے پڑے ہیں اور گناہوں سے روکنے کے لیے ہی انبیاء کی بعثت ہوتی رہی ہے. حدیث کا یہ مضمون اصولی اور قانونی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ مایوس بندوں کی مردہ رگوں میں جان ڈالنے اور توبہ کے لیے ان کی ہمت بندھانے کے لیے ہے. قانونی اور اصولی نوعیت کے مضامین جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں جن میں گناہوں سے بچنے کی سخت تلقین کی گئی ہے اور ارتکاب کرنے پر عذابِ نار کی وعیدیں سنائی گئی ہیں.
یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں جگہ جگہ گناہوں کی سزا سنائی گئی ہے اور سخت مؤاخذہ بتایا گیا ہے مگر بعض جگہوں پر وعیدوں کا ذکر نہ کرکے گنہگاروں کو صرف توبہ کی طرف راغب کیا گیا ہے اور بعض جگہوں پر اہم شرطوں کا ذکر نہ کرکے مجملاً خوشخبری سنادی گئی ہے تاکہ بندہ اسے حاصل کرنے کی شروعات کردے.


No comments:

Post a Comment