Wednesday 24 June 2020

جواب دے رہا ہوں سے وقوع طلاق؟

جواب دے رہا ہوں سے وقوع طلاق؟
-------------------------------
--------------------------------
جواب دے رہا ہوں سے وقوع طلاق ہوگیا؟
الجواب وباللہ التوفق:
ہم لوگوں کے عرف (بیگوسرائے سمستی پور واطراف) میں "جواب دیا " طلاق کے معنی میں ہی مستعمل ہے 
اس لئے یہ لفظ بمنزلہ صریح طلاق ہوگیا 
شوہر کا پہلا جملہ 'جواب دے رہا ہوں' مضارع کا صیغہ ہے 
جس میں حال اور مستقبل دونوں کا احتمال رہتا ہے 
زمانہ حال، غلبۂ استعمال، دلالت حال یا نیت سے متعین ہوگا 
اگر شوہر نے اس لفظ سے فوری طلاق کی نیت نہ کی ہو یا وہاں اس تعبیر سے ایقاع طلاق کثیرالاستعمال نہ ہو تو اب استقبال پہ محمول ہوگا اور صرف طلاق کی دھمکی متصور ہوگی انشاء طلاق نہ ہوگا، اور اس لفظ سے کوئی طلاق نہ پڑے گی، صرف دوسرے لفظ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی 
ہاں اگر وہ اس سے فی الحال طلاق کی نیت کرلی ہو تب اس سے بھی طلاق رجعی (ہم لوگوں کے عرف میں) واقع ہوگی:
ولوقال: أطلقك لم یقع؛ إلا إذا غلب استعماله  في الحال۔ (الدرالمنتقي شرح ملتقي الأبحر، کتاب الطلاق، باب إیقاع الطلاق، دارالکتب العلمیۃ 14/2)
ولو قال: أطلقك  إن نویٰ به الطلاق یقع وإلافلا۔ (تاتارخانیة، 40/4،)
لوقال بالعربية: أطلق لایكون طلاقاً إلا إذا غلب استعماله للحال، فیکون طلاقاً۔ (هندیۃ، ٣٨٤/١ کتاب الطلاق الفصل السابع فی الطلاق بالألفاظ الفارسیۃ)
جواب میں مذکور پہلے لفظ مضارع "جواب دے رہا ہوں" سے مطلق وقوع طلاق کی بات درست نہیں ہے 
واللہ اعلم



No comments:

Post a Comment