Sunday, 7 June 2020

موجودہ حالات میں نمازیں کس طرح ادا کی جائیں؟

موجودہ حالات میں نمازیں کس طرح ادا کی جائیں؟
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا بیان
بھارتی ریاست حیدرآباد سے مورخہ 7 جون کو جاری پریس ریلیز کے مطابق حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے کہا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر واحسان ہے کہ ہماری مسجدیں جن کا دروازہ اکثر نمازیوں پر بند کر دیا گیا تھا اور چند افراد سے زیادہ کو نماز میں شرکت کی اجازت نہیں تھی، یہاں تک کہ رمضان المبارک اور عید بھی اسی حال میں گذرا، اب حکومت کی طرف سے ۸؍ جون ۲۰۲۰ء سے مساجد کے بشمول مذہبی مقامات کو کھولنے کی اجازت دی گئی ہے، اللہ کرے کہ صورت حال بہتر ہو اور پھر مسجدوں کی بندش کی نوبت نہ آئے۔
لیکن ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیاں تو ختم کی گئی ہیں؛ لیکن کورونا کی وبائی بیماری آج بھی باقی ہے؛ بلکہ اس میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے، اور اپنی زندگی اور صحت کی حفاظت اور بیماری سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدبیر اختیار کرنا بھی شریعت کا ایک حکم ہے، اس پس منظر میں چند ضروری مشورے پیش خدمت ہیں: 
۱۔ اگرچہ نمازیوں کی سہولت کے لئے جائے نماز بچھانا ایک درست عمل ہے اور اگر یہ جائے نماز مخمل کی ہو تو بھی حرج نہیں؛ لیکن بحالت موجودہ طبی ماہرین کی ہدایت کے مطابق ان کو ہٹادینا اور نمازیوں کا اپنے اپنے گھر سے مصلیٰ یا رومال لے کر آنا اور اس پر نماز پڑھنا ہی مناسب ہے اور مسلمانوں کو اس پر عمل کرنا چاہئے۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک سنت گھر میں پڑھنے کا تھا؛ اسی لئے فقہاء نے بھی لکھا ہے کہ فرض کا مسجد میں پڑھنا اور سنتوں کا گھر میں پڑھنا افضل ہے؛ لہٰذا تمام لوگ اہتمام کریں کہ وضوء اور دیگر ضروریات سے گھر میں فارغ ہوں، سنت پڑھ کر مسجد آئیں اور جماعت ختم ہونے بعد جلد سے جلد اپنے گھر واپس ہو جائیں، اور گھر پر ہی سنت ادا کرنے کا اہتمام کریں۔
۳۔ مسجد میں پہنچنے کے بعد سینی ٹائزر کا استعمال کریں، سینی ٹائزر میں اگرچہ الکوحل کا استعمال ہوتا ہے؛ مگر ہر الکوحل نشہ آور نہیں ہوتا، اور پڑوسی ملک کے بعض دارالافتاء نے تحقیق کی ہے کہ یہ سینی ٹائزر نشہ آور الکوحل سے تیار نہیں کیا جاتا ہے ؛ اس لئے اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں ہے، حرمین شریفین میں بھی اسی پر عمل ہورہا ہے؛ اس لئے مسجد کو سینی ٹائز کرنے یا ہاتھوں کی صفائی کے لئے سینی ٹائزر لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۴۔ نماز کی حالت میں ناک اور منھ کو چھپا کر رکھنا مکروہ ہے؛ لیکن عذر کی بناء پر کراہت کا حکم ختم ہو جاتا ہے؛ اس لئے بطور احتیاط نمازیوں کو ماسک کا استعمال کرنا چاہئے؛ کیوں کہ اس میں ان کی بھی حفاظت ہے اور دوسرے شرکاء نماز کی بھی۔
۵۔ جماعت کی نماز میں صف میں مصلیوں کے مل جل کر کھڑے ہونے کی بڑی اہمیت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے اور یہ نہایت اہم سنت ہے؛ لیکن کورونا کا وائرس لوگوں کے اتصال سے ایک دوسرے کو متأثر کرتا ہے؛ اس لئے اِن خصوصی حالات میں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق فاصلہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اور دو صفوں کے درمیان بھی فاصلہ بڑھا دینا چاہئے۔
۶۔ جمعہ کے بشمول کسی بھی نماز میں ایک سے زیادہ جماعت مکروہ ہے؛ لہٰذا اس سے حتی المقدور احتیاط کرنی چاہئے؛ البتہ امام ابو یوسفؒ کے نزدیک ہیئت کی تبدیلی کے ساتھ دو جماعتیں ہو جائیں تو حرج نہیں ہے، اور ہیئت کی تبدیلی کے لئے یہ کافی ہے کہ امام نے جس جگہ سے امامت کی تھی، دوسری جماعت کا امام اس جگہ سے ہٹ کر کھڑا ہو؛ چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وعن أبی یوسف: لا بأس بہ مطلقا اذا صلیٰ فی غیر مقام الامام (البحرالرائق: ۲؍۸۰۵)
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ تکرار جماعت میں حرج نہیں، اگر پہلے امام کی جگہ سے ہٹ کر نماز پڑھائے۔
اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وعن أبی یوسفؒ: أنہ اذا لم تکن الجماعۃ بھیئۃ الأولیٰ لا تکرہ والا تکرہ وھو الصحیح، وبالعدل عن المحراب تختلف الھیئۃ کذا فی البزازیۃ (ردالمحتار: ۲؍۲۸۹)
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ اگر دوسری جماعت پہلی جماعت کی ہیئت پر نہ ہو تو اس میں کراہت نہیں ہے، اور اگر پہلی جماعت کی ہیئت پر ہو تو مکروہ ہے، یہی درست قول ہے اور محراب سے ہٹ جانے کی وجہ سے ہیئت بدل جاتی ہے۔
لہٰذا اگر مسجد کی کئی منزلیں ہوں اور عام دنوں میں جمعہ کی نماز کے لئے وہ تمام منزلیں استعمال نہیں ہوتی ہوں تو نمازیوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنے کے لئے ان منزلوں کو بھی استعمال میں لانا چاہئے، اگر مسجد تنگ ہو اور نماز جمعہ کے لئے محلہ کا کوئی فنکشن ہال حاصل کیا جا سکتا ہے تو مسجد کے علاوہ فنکشن ہال میں بھی جماعت رکھنی چاہئے، اور اگر مسجد کے تنگ ہونے اور دوسری جگہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھنے میں دشواری ہو تو امام ابو یوسفؒ کے قول پر عمل کرتے ہوئے مسجد میں جمعہ کی ایک سے زیادہ جماعت اس طرح رکھی جاسکتی ہے کہ پہلی جماعت کا امام جس جگہ کھڑا ہوا ہو، دوسری جماعت کا امام اس سے ایک صف پیچھے کھڑا ہو۔
طبی ماہرین کی وضاحت اور حکومت کی ہدایت کے 
مطابق ۶۵؍ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں اور ۱۰؍ سال سے کم عمر کے بچوں کو یہ بیماری بہت جلد متأثر کرتی ہے؛ اس لئے اس عمر کے لوگوں کو مسجد آنے کی بجائے گھر ہی میں نماز ادا کرنی چاہئے۔
بہرحال موجودہ حالات میں ہمیں نماز سے متعلق شریعت کے احکام پر قائم بھی رہنا ہے، شریعت میں حفظان صحت کی جو اہمیت ہے، اس کو بھی ملحوظ رکھنا ہے اور یہ بھی کوشش کرنی ہے کہ ہمارا کوئی عمل ملکی قانون سے متصادم نہ ہو، اللہ تعالیٰ حالات کو بہتر فرمائے اور انسانیت کو اس وباء سے نجات عطا فرمائے۔"
-------
موجودہ حالات میں صفوں کے درمیان فاصلہ رکھنے منہ پر ماسک پہن کر نماز پڑھنے ایک مسجد میں متعدد جماعت کرنے اور سینیٹائزر لگاکر نماز پڑھنے کا حکم 
از: مفتی اسماعیل صاحب کچھولوی دامت برکاتہم صدر مفتی وشیخ الحدیث جامعہ حسینیہ راندیر
حامدا ومصلیا ومسلما
الجواب وباللہ التوفیق:
اللہ جل جلالہ نے ہماری عصیان اور نالائقی کی وجہ سے اپنے دربار میں حاضر ہوکر عبادت کرنے سے روک دیا تھا اور رمضان جیسا مبارک مہینہ باہر رہکر گذارنا پڑا لیکن اسنے ہماری کوتاہیوں کو معاف کرکے اب پہر سے حسب معمول اپنے پاک دربار مساجد میں حاضر ہوکر عبادت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی یہ اس کا بڑا انعام ہے. فللہ الحمد اب ہم لوگوں پر لازم ہے کہ مساجد کا احترام کرتے ہوئے تمام نمازوں کو مساجد میں جماعت کے ساتھ ادا کریں۔
اس وقت صرف گجرات اور ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کورونا کا قہر جاری ہے. اس سے اپنے آپ کو اور دوسرے لوگوں کو بچنا بچانا بھی ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق مقبول عبادتیں بھی کرنی ہے. ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ ہر اچھائی یا برائی اللہ جل شانہ کی رضامندی اور حکم کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی. آگ بھی جلانے میں اور چھری بھی اپنے کاٹنے میں اللہ کی مرضی کی محتاج ہے لیکن یہ دنیا دارالاسباب ہے اللہ تعالی نے اسباب کو اختیار کرنے کا اور بھروسہ اللہ پر رکھنے کا حکم دیا ہے  
اسی وجہ سے براق کو بیت المقدس میں باندھا گیا اور عیسی علیہ الصلوۃ والسلام مینارہ سے نیچے اترنے کو سیڑھی منگوائنگے  اس لئے ہمیں اسباب پر عمل کرنا چاہئے ۔۔
حکومت نے اس بیماری سے بچاؤ کے لئے جو گائیڈلائین بتائی ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے مجبوری یا ضرورت کی وجہ سے ہم سے کوئی سنت یا مستحب چھوٹ جائے یا چھوڑنا پڑے تو اللہ تعالی اپنے فضل سے سنت چھوڑنے یا مختصر کرنے سے ثواب سے محروم نہیں رکھتا بلکہ پورا ثواب عطاء فرماتا ہے. جیساکہ حدیث شریف میں ھے کہ سفر کی وجہ سے جمعہ کا غسل نہ کیا جائے تو اللہ تعالی فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ اس میرے بندے نے مجبوری سے یہ چھوڑا ہے اس لئے اس کو پورا ثواب لکھ دو
اسی وجہ سے حکومت کی گائیڈلائن کی وجہ سے صف میں کچھ فاصلہ رکھا جائے یا داخل ہوتے وقت الکوحل والے سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کئے جائیں یا مساجد میں متعدد افراد کے ساتھ الگ الگ جماعت کی جائے تو موجودہ حالت جب تک باقی رہے وہاں تک شریعت کی طرف سے گنجائش ہے.
منہ پر ماسک لگائے رکھنے سے نماز میں قراۃ اور تسبیحات پڑھنے میں رکاوٹ نہو تو ماسک پہن کر نماز پڑھنا درست ہے مل ملکر کھڑا ہونا کندھے سے کندھا ملانا منہ کھلا رکھنا یہ سب سنت ہے لیکن یہ عام حالت اور ادا کرنے میں کوئی پریشانی نہو اس وقت ھے ضرورت اور مجبوری کے وقت شریعت آسانی پیدا کرتی ہے 
ہمیں اس وقت اس سہولت اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانا ہے جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہو انکو مسجد میں آنے سے منع کرنا درست ھے بڑی عمر والوں کو یا دس سال سے اوپر نابالغوں کو التجاء اور درخواست کرنا تو درست ھے بالکل روکنا نہیں چاھئے 
یہ الکوحل خمور اربعہ میں سے نہیں ہے بلکہ میڈسن الکوحل ہے اس لئے ناپاک نہیں کہاجائیگا۔۔
فقط واللہ اعلم 
١۵ شوال ۱٤٤١.
7/6/20..
ناقل یکے از خدام حضرت مفتی اسماعیل صاحب کچھولوی دامت برکاتہم
----------
صفوں کے درمیان فاصلے:
کورونا وائرس سے حفاظت کے لئے اس بات کی رعایت ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے قریب ہوکر رہنے 
سے بچیں اور فاصلہ قائم رکھیں، فاصلہ قائم رکھنے 
کا تعلق دو باتوں سے ہے: ایک یہ کہ اگلی صف اور پچھلی صف کے درمیان کتنا فاصلہ رہے دوسرے: ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درمیان کس حد تک فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہے؟ تو اصل مطلوب طریقہ تو یہ ہے کہ دو صفوں کے درمیان دو ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہئے:
الفرجۃ بین الصفین مقدار زراع أو زراعین (طحطاوی: ۳۹۳)؛ 
تاہم اگر کسی وجہ سے یہ فاصلہ بڑھ جائے؛ لیکن امام کی نقل وحرکت سے مقتدی واقف ہوسکتے ہوں، تب بھی اقتداء درست ہے، یہاں تک کہ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اگر امام محراب میں ہو اور مقتدی مسجد کے آخری حصہ میں تب بھی نماز درست ہوجائے گی؛ اس لئے کہ مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہوئے چاہے نمازیوں کے درمیان یا امام اور مقتدی کے درمیان فاصلہ بڑھ جائے؛ لیکن پوری مسجد ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے: ولو اقتدیٰ بالإمام فی أقصی المسجد والإمام فی المحراب جاز؛ لأن المسجد علی تباعد أطرافہ جعل فی الحکم کمکان واحد(بدائع الصنائع: ۱؍۱۴۵) ——
اس سے معلوم ہو اکہ اگر حفظان صحت کے لئے صفوں کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا جائے جیسے عام طور پر جتنا فاصلہ رکھا جاتا ہے، اس سے دوہرا فاصلہ رکھا جائے تو اس کی گنجائش ہے اور جب یہ عذر کی بناء پر ہو تو اس میں کراہت بھی نہیں ہوگی۔
فاصلہ پیدا کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی صف میں جو لوگ کھڑے ہوئے ہیں، وہ ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونے کے بجائے کچھ فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوں، اس مین کوئی شبہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں مِل مِل کر کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے اور دو نمازیوں کے درمیان بلاضرورت فاصلہ رکھنے کو منع فرمایا ہے؛ لیکن موجودہ حالات میں صحت وزندگی کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے اگر جماعت میں شریک حضرات ایک ہی صف میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے کھڑے ہوں؛ جیسا کہ طبی ماہرین کا مشورہ ہے تو اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے؛ کیوں کہ جب پوری مسجد کو ایک جگہ مان لیا گیا تو جیسے دو صفوں کے درمیان فاصلہ گوارہ کیا جاسکتا ہے، اسی طرح ایک صف میں کھڑے ہونے والوں کے درمیان بھی فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہوگی، ویسے بھی صف میں اتصال کا حکم وجوب کے درجہ کا نہیں ہے،(البنایہ: ۲؍۳۵۴) 
اس پر بعض فقہاء کے اجتہادات سے بھی روشنی پڑتی ہے، مشہور فقیہ قاضی خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ صحراء میں نماز پڑھیں، صف کے بیچ میں حوض یا اس طرح کی کوئی اور چیز ہو، صف کا ایک حصہ حوض کے ایک طرف ہو اور دوسرا حصہ دوسری طرف، اور درمیانی حصہ میں کوئی نمازی نہیں ہو تو نماز درست ہوجائے گی؛ کیوں کہ یہ سب ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے:
 قوم صلوا فی الصحراء بجماعۃ ووسط الصفوف موضع مقدار حوض أو فارقین لم یقم فیہ أحد جازت صلاتھم (فتاویٰ قاضی خان: ۱؍۳۲)
غرض کہ افضل طریقہ تو یہی ہے کہ صفوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو اور کاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑے ہوں؛ لیکن اگر طبی ماہرین اس کو مضر قرار دیتے ہوں، یا کسی جگہ حکومت کی طرف سے فاصلہ رکھتے ہوئے نماز ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہو تو وہاں ان گنجائشوں پر عمل کیا جاسکتا ہے، خواہ جماعت مسجدمیں ہو یا کسی اور جگہ، اور خواہ پنچ وقتہ نمازوں کی جماعت ہو یا جمعہ کی.
واللہ اعلم بالصواب
(حضرت مولانا) خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم
المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
--------
جن Sanitizers میں Denatured Alcohol ڈالا جاتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
(103698-No)
سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! آج کل ڈاکٹرز جراثیم سے بچنے کے لئے، سینیٹائزر (sanitizer) كے بار بار استعمال کا مشورہ دے رہے ہیں، جس میں (denatured alcohal) (یعنی ایسی شراب، جو پینے کے قابل نہ رہے) شامل ہوتا ہے. کیا اِس کو استعمال کرسکتےہیں؟
الجواب وباللہ التوفق:
واضح رہے کہ Denatured Alcohol کو میتھائیل (methyl) اور آیسوپروپائیل (isopropyl) الکحل کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے، الکحل کی یہ دونوں قسمیں اشربہ اربعہ محرمہ (یعنی انگور اور کھجور) کےعلاوہ سےحاصل کی جاتی ہیں، یہ ناپاک نہیں ہے، لہذا جو sanitizers اس قسم کے الکحل پر مشتمل ہوں، وہ پاک ہیں، اور بطور sanitizer ان کا استعمال جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل: وفی فقہ البیوع: وقد ثبت من مذھب الحنفیۃ المختار ان غیر الاشربۃ الاربعۃ (المصنوعۃ من التمر او من العنب) لیست نجسۃ۔ (294/1)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص
--------------
السوال: سوال یہ ہیکہ موجودہ حالات میں فاصلہ (سوشل ڈسٹینس) کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنا مساجدوں میں کیسا ہے؟ نیز اگر فاصلہ کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں تو کتنا فاصلہ رکھ سکتے ہیں؟ اس سلسلہ میں شرعی اعتبار سے کیا اصول ہے؟ رہبری فرمائیں عین نوازش ہوگی، بینوا توجروا ـ 
المستفتی: نور محمد قاسمی بنگلوری (کرناٹک) 
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
عام حالات میں نماز باجماعت میں مل مل کر کھڑے ہونے کا حکم ہے، فاصلے کے ساتھ کھڑا ہونا مکروہ ہے؛ لیکن ٨ جون سے جب مساجد میں شرائط کے ساتھ نمازیں اداء کرنے کی عام اجازت ہوجائے گی تو محکمہ صحت کی ہدایت کے مطابق نماز باجماعت میں ہر دو نمازیوں کے درمیان حسب ضرورت ڈیڑھ، دو فٹ فاصلہ رکھنے میں کچھ حرج نہ ہوگا۔
ولو صلی علی رفوف المسجد ان وجد في صحنہ مکاناً کرہ کقیامہ في صف خلف صف فیہ فرجۃ الخ، (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الامامۃ، ٢: ٣١٢، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند، ٣: ٥٦١، ت: الفرفور، ط: دمشق)؛ قولہ: (کرہ)؛ لأن فیہ  ترکاً لاکمال الصفوف (رد المحتار)، قولہ: (کقیامہ في صف الخ): ھل الکراھۃ فیہ تنزیھیۃ أو تحریمیۃ؟ ویرشد الی الثاني قولہ علیہ الصلاہ والسلام: ''ومن قطعہ قطعہ اللہ'' (المصدر السابق)؛ 
فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔
کتبہ: محمد نعمان سیتا پوری غفرلہٗ 
(مفتی دارالعلوم دیوبند)  
١٣؍ ١٠؍ ١٤٤١ ھ، مطابق: ٦؍ ٦؍ ٢٠٢٠ ء، شنبہ
http://saagartimes.blogspot.com/2020/06/blog-post_7.html?m=1

No comments:

Post a Comment