Friday 12 June 2020

حین حیات اولاد کو جائیداد عطیہ وہبہ کرنے میں مساوات و تفاضل کی بحث

حین حیات اولاد کو جائیداد عطیہ وہبہ کرنے میں مساوات و تفاضل کی بحث
-------------------------------
--------------------------------
زید نے اپنے بیٹوں میں سے ایک بیٹے کو نقد رویے اور زمین کو بنک میں رہن رکھ کر یا بیچ کر روپیوں سے نوازتا ہے. دیگر بیٹوں کو کچھ بھی نہی دیتا ہے جبکہ سب بیٹے فرماں بردار ہیں
سمجھانے پر بولتے ہیں کہ میری چیز میری مرضی کسی کو بولنے کا کوئی جواز نہیں.  
واضح رہے کہ زید  گورنمنٹ وظیفہ یاب خود بھی عالم دین  اور انکےدو بیٹے بھی عالم دین ہیں  اور جسے نوازا جارہا ہے وہ دنیادار ہے تو کیا  والدین کو اس طرح دیگر اولاد کو محروم کرنے اور بعض کو خوب تر نوازنے کی شرعا  اجازت ہے؟؟؟؟  مفتی شکیل صاحب سے ادبا گزارش ہے کہ  تفصیلی جواب عنایت فرمائیں    
والسلام
سائل: ابرار قاسمی، کٹہری، بیگوسرائے
الجواب وباللہ التوفق:
انسان کے انتقال کر جانے کے بعد اس کی جائیداد خدائی ضابطے و قانون کے مطابق ہی تقسیم ہوگی ؛ البتہ جب انسان باحیات ہو اور صحت وعافیت کے زمانے میں ہو تو اسے اپنی جائیداد میں ہر قسم کے تصرفات کا کلی حق حاصل رہتا ہے، علمائے امت کا اجماع ہے کہ تندرستی کے ایام میں انسان اپنی پوری زر زمین  اجنبی کو بھی ہبہ، وقف اور عطیہ دے سکتا ہے، (لیکن اپنی اولاد کو محتاج ودست نگر چھوڑکر غیروں کے لئے پوری جائیداد وقف کردینا پسندیدہ عمل نہیں: 
إنك أن تدعَ ورثتَك أغنياءَ، خيرٌ من أن تدَعَهم عالةً يتكفَّفون الناسَ يتكفَّفون في أيدِيهم عن سعد بن أبي وقاص.صحيح النسائي: 3629)
جب اجنبی کو دینے کی گنجائش ہے تو کسی معقول وجہ و مصلحت سے اپنی اولاد میں سے بعض کو زیادہ دینا بدرجہ اولی مباح ہوگا. وارثین کا حق حصہ مورث کے مال میں اسکی موت کے بعد ثابت ہوتا ہے، یعنی وراثت جاری ہونے کے لئے مورث کی موت ضروری ہے ، حین حیات جائیداد میں کسی کا کوئی حق حصہ نہیں، زندگی میں تقسیم کیے جانے والے زر زمین کی حیثیت وراثت کی نہیں ؛ بلکہ ہبہ اور گِفٹ کی ہوتی ہے، ہبہ وعطیہ میں اولاد خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ان کے مابین تسویہ اور تعدیل کرنا ائمہ ثلاثہ کے یہاں مندوب اور امام احمد بن حنبل ، سفیان ثوری ،اسحاق بن راہویہ اور دیگر ائمہ کے یہاں واجب اور ضروری ہے (كشاف القناع4/310، الإنصاف 7/138، المغني 5 /664، ابن تيمية مجموع الفتاوى (31 /295) 
بلا شرعی سبب (مثلاً ورع و تقوی) یا معقول وجہ (مثلاً احتیاج، غربت ومعاشی کمزوری وغیرہ) کے اولاد میں سے بعض کو بعض پہ ترجیح دینا، تفاضل اور کمی بیشی کرنا ناپسندیدہ عمل اور غیرمنصفانہ تقسیم ہے 
حنابلہ ودیگر کے یہاں ایسا کرنا ناجائز اور ظلم ہے:
عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّهُ قَالَ إِنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا كَانَ لِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ مِثْلَ هَذَا فَقَالَ لَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْجِعْهُ 
رواه البخاري (2586) ومسلم (1623)
وفي لفظ لهما (خ  2587) (م  1623) عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ تَصَدَّقَ عَلَيَّ أَبِي بِبَعْضِ مَالِهِ فَقَالَتْ أُمِّي عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُشْهِدَهُ عَلَى صَدَقَتِي فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَعَلْتَ هَذَا بِوَلَدِكَ كُلِّهِمْ قَالَ لَا قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ فَرَجَعَ أَبِي فَرَدَّ تِلْكَ الصَّدَقَةَ"
(حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ کے بارے  میں منقول ہے کہ (ایک دن) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں  رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟ انہوں نے کہا:  ”نہیں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو) <اتقوا اللّٰه واعدلوا بین أولادکم> (صحیح بخاری، رقم: 2586،2587) ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔‘‘ سے دیگر ائمہ مساوات کے وجوب پہ استدلال کرتے ہیں. جمہورائمہ کے یہاں یہ حکم ندب واستحباب پہ محمول ہے۔ حاجت ، مصلحت یا عذر کی وجہ سے تفاضل کے جواز پر ان کے پیش نظر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث وعمل بطور مستدل ہے:
عن عائشة رضي الله عنهما الله عنها أَنَّهَا قَالَتْ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ كَانَ نَحَلَهَا جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ مَالِهِ بِالْغَابَةِ فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ وَاللَّهِ يَا بُنَيَّةُ مَا مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ أحبَّ إِلَيَّ غِنًى بَعْدِي مِنْكِ وَلَا أعزَّ عَلَيَّ فَقْرًا بَعْدِي مِنْكِ وَإِنِّي كُنْتُ نَحَلْتُكِ جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا فَلَوْ كُنْتِ جَدَدْتِيهِ وَاحْتَزْتِيهِ كَانَ لَكِ وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ وَإِنَّمَا هُمَا أَخَوَاكِ وَأُخْتَاكِ فَاقْتَسِمُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا أَبَتِ وَاللَّهِ لَوْ كَانَ كَذَا وَكَذَا لَتَرَكْتُهُ إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ فَمَنْ الأُخْرَى فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ذُو بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَ أُرَاهَا جَارِيَةً" (العيني/ نخب الافكار.14/358 شعيب الأرناووط/. تخريج شرح السنة. 2204. قال ابن حجر في الفتح (5 /215 ) إسناده صحيح)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں غابہ نامی جگہ کی کجھوروں میں سے بیس وسق کھجوریں عطیہ کيں اور جب انہیں موت آنے لگی تو انہوں نے فرمایا:
میری بیٹی! اللہ کی قسم مجھے لوگوں میں سے سب سے زيادہ اچھا اور پسند یہ ہے کہ تم میرے بعد غنی اور مالدار رہو، اور میرے بعد تیرا فقر میرے لئے سخت تکلیف دہ ہے، اگر تو ان کھجوروں کو لے کر اپنے قبضہ میں کرلیتی تو وہ تیری تھیں، لیکن آج وہ مال وارثوں کا ہے جو کہ تیرے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں لہذا اسے کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کرلینا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: اے میرے اباجان اللہ کی قسم اگر ایسے ایسے ہوتا تو میں اسے بھی ترک کردیتی، ایک بہن تو اسماء ہے اور دوسری کون ہے؟ تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ بنت خارجہ کے بطن میں ہے اور میرے خیال میں وہ لڑکی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف  الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ".ردالمحتار (4/444، کتاب الوقف،ط: سعید) 
جمہور ائمہ ثلاثہ کے یہاں اولاد کے مابین عطایا وہبہ میں کمی بیشی اگرچہ مصلحت واعذار کے وقت جائز ومباح ہے، لیکن بلاوجہ شرعی وبلا وجہ معقول تفاضل، اولاد اور والد کے درمیان بغض وعداوت اور نفرت وکدورت کا باعث بنے گا. اس لئے یہ تقسیم غیرعادلانہ ہوگی اور مزاج نبوت سے ہم آہنگ نہیں ہوگی، ایک مومن اور عاشق نبی کو ہر عمل میں مزاج یار کی رعایت لازمی ہے. لہذا مساوات کا اہتمام کرتے ہوئے <اتقوا اللّٰه واعدلوا بین أولادکم> پہ عمل کی کوشش ہونی چاہیے، ہاں ! مصلحت شرعی وعذر واقعی ہو تو اس کی گنجائش بھی موجود ہے۔ مضرت ومنفعت کے تقابل و تعارض کے وقت دفع مضرت ہی اولی وافضل ہوتا ہے، اولاد میں تباغض وتنافر کا مظنہ ہو تو عارضی مادی منفعت کے  حصول کے لئے اولاد و ممبران فیملی میں بغض وکینہ کی فضا ہموار کردینا مصلحت شرعی کے خلاف ہے:
"درء المفاسد أَولى من جلب المصالح" (شرح مجلة الأحكام: م: 30 ص: 38، الأشباه للسيوطي: 87، ابن النجيم: 90، الوجيز: 208)
واللہ اعلم 
٢٠ شىوال ١٤٤١ هجري

No comments:

Post a Comment