کیا
گاہک کو چیز کی
اصل قیمت بتانا ضروری ہے؟
تجارت میں خریدنے والا شخص شے کی اصلی قیمت پوچھتا ہے تو فروخت کرنے والے کو اپنی شے کی اصل قیمت کو بتانا ضروری ہے یا نہیں؟
براہ کرم اس کا جواب دیجئے
الحواب وباللہ التوفیق:
ہر گاہک کو اصل قیمت بتانا ضروری نہیں ہے، قیمتِ خرید بتائے بغیر بائع (فروخت کرنے والا) جتنا بھی مناسب نفع رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے، اس لئے کہ شریعتِ مطہرہ میں عمومی احوال میں (یعنی غلہ وغیرہ کی قلت وغذا کا بحران نہ ہو تو طعام کے علاوہ دیگر اشیاء کے) منافع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، باہمی رضامندی سے جس قیمت پر سودا ہوجائے وہ جائز ہے، تاہم مسلمان کی خیر خواہی کا جذبہ ملحوظ رہنا چاہئے، اس لیے کسی سادہ لوح گاہک کو اتنی قیمت لگاکر فروخت کرنا جس میں دھوکے کا پہلو آتا ہو درست نہیں ہے۔
اور اگر کوئی گاہک قیمتِ خرید بتانے پر اصرار کرے (جیساکہ بیعِ مرابحہ میں خریدار اسی اعتماد پر سودا کرتا ہے) تو اسے بجائے یوں کہنے کے ’’میں نے اتنے میں خریدا ہے.‘‘ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’مجھے اتنے میں پڑا ہے‘‘، اور اس صورت اصل قیمتِ خرید کے ساتھ ان اشیاء کے لانے کا کرایہ، دکان کا کرایہ وغیرہ دیگر اخراجات شامل کرکے جو اس کی قیمت بن رہی ہو وہ بیان کی جاسکتی ہے۔
الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (5/ 135):
"(ويضم) البائع (إلى رأس المال) (أجر القصار والصبغ) ... (ويقول: قام علي بكذا، ولايقول: اشتريته)؛ لأنه كذب، وكذا إذا قوم الموروث ونحوه أو باع برقمه لو صادقا في الرقم فتح".
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 124):
"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها".
فقط واللہ اعلم
http://saagartimes.blogspot.com/2020/06/blog-post_96.html?m=1
No comments:
Post a Comment