اردو لکھنے میں کی جانے والی 12 غلطیاں
پہلی:
اردو کے مرکب الفاظ الگ الگ کر کے لکھنا چاہئیں، کیوں کہ عام طور پر کوئی بھی لفظ لکھتے ہوئے ہر لفط کے بعد ایک وقفہ (اسپیس) چھوڑی جاتی ہے، اس لیے یہ خود بخود الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ دراصل تحریری اردو طویل عرصے تک ’کاتبوں‘ کے سپرد رہی، جو جگہ بچانے کی خاطر اور کچھ اپنی بے علمی کے سبب بہت سے لفظ ملا ملاکر لکھتے رہے۔ جس کی انتہائی شکل ہم ’آجشبکو‘ کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے ماہرِ لسانیات کی کوششوں سے اب الفاظ الگ الگ کرکے لکھے تو جانے لگے ہیں، لیکن اج بھی بہت سے لوگ انہیں بدستور جوڑکر لکھ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب یہ اردو کے الگ الگ الفاظ ہیں، تو مرکب الفاظ کی صورت میں جب انہیں ملاکر لکھا جاتا ہے، تو نہ صرف پڑھنا دشوار ہوتا ہے، بلکہ ان کی ’شکل‘ بھی بگڑ جاتی ہے۔
مندرجہ ذیل میں ان الفاظ کی 12 اقسام یا ’طرز‘ الگ الگ کرکے بتائی جارہی ہیں، جو دو الگ الگ الفاظ ہیں یا ان کی صوتیات کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں الگ الگ کرکے لکھنا ضروری ہے۔
*جب کہ، چوں کہ، چناں چہ، کیوں کہ، حالاں کہ
*کے لئے، اس لئے، اس کو، آپ کو، آپ کی، ان کو، ان کی
*طاقت وَر، دانش وَر، نام وَر
*کام یاب، کم یاب، فتح یاب، صحت یاب
*گم نام، گم شدہ
*خوش گوار، خوش شکل
*الم ناک، وحشت ناک، خوف ناک، دہشت ناک، کرب ناک
*صحت مند، عقل مند، دانش مند،
*شان دار، جان دار، کاٹ دار،
*اَن مول، اَن جانا، اَن مٹ، اَن دیکھا، اَن چُھوا
*بے وقوف، بے جان، بے کار، بے خیال، بے فکر، بے ہودہ، بے دل، بے شرم، بے نام،
*امرت سر، کتاب چہ
*خوب صورت، خوب سیرت وغیرہ
دوسری:
اردو لکھتے ہوئے ہمیں یک سان آواز مگر مختلف املے کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہئے، جیسے کہ ’کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں وغیرہ
تیسری:
اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے، جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املے کا خیال رکھنا چاہئے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’ی‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیراعلیٰ، رحمٰن اور اسحٰق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں ’ل‘ ساکت ہوتا ہے جیسے ’السلام علیکم‘ اسے ’ل‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہے۔
چوتھی:
زیر والے مرکب الفاظ جیسے جانِِ من (نہ کہ جانے من) جانِ جاں (نہ کہ جانے جاں) شانِ کراچی (نہ کہ شانے کراچی) فخرِ پنجاب (نہ کہ فخرے پنجاب) اہلِ محلہ (نہ کہ اہلے محلہ) وغیرہ کی غلطی بھی درست کرنا ضروری ہے۔
پانچویں:
اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ’کردینا ہے‘ نہیں بلکہ ’کردیں گے‘ لکھنا چاہئے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کردو گے (نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کر دو گے (نہ کہ کردینی ہے) لکھنا چاہئے۔
چھٹی:
اردو کے ’مہمل الفاظ‘ میں’ش‘ کا نہیں بلکہ ’و‘ کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کتاب وتاب، کلاس ولاس، اسکول وسکول، پڑھائی وڑھائی، عادت وادت وغیرہ۔ انہیں کتاب شتاب، کلاس شلاس لکھنا غلط ہے۔
ساتویں:
اردو میں دو زبر یعنی‘ تنوین‘ والے لفظوں کو درست لکھنا چاہئے، اس میں دو زبر مل کر ’ن‘ کی آواز دیتے ہیں جیسے تقریباً، اندازاً، عادتاً، اصلاً، نسلاً، ظاہراً، مزاجاً وغیرہ۔
آٹھویں:
کسی بھی لفظ کے املے میں ’ن‘ اور ’ب‘ جہاں ملتے ہیں وہاں ’م‘ کی آواز آتی ہے، اس کا بالخصوص خیال رکھنا چاہے ’ن‘ اور ’ب‘ ہی لکھا جائے ’م‘ نہ لکھا جائے، جیسے انبار، منبر، انبوہ، انبالہ، استنبول، انبیا، سنبھل، سنبھال، اچنبھا، عنبرین، سنبل وغیرہ
نویں:
اردو کے ان الفاظ کی درستی ملحوظ رکھنا چاہیے جو الف کی آواز دیتے ہیں، لیکن کسی کے آخر میں ’ہ‘ ہے اور کسی کے آخر میں الف۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے، تو اس کے معانی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے گلہ اور گلا، پیسہ اور پیسا، زن اور ظن، دانہ اور دانا وغیرہ وغیرہ۔
دسویں:
الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ چاہے وہ گول ’ہ‘ پر ختم ہوں یا ’الف‘ پر، انہیں جملے میں استعمال کرتے ہوئے بعض اوقات جملے کی ضرورت کے تحت ’جمع‘ کے طور پر لکھا جاتا ہے، حالاں کہ وہ واحد ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں جملے کا پچھلا حصہ یا اس سے پہلے والا جملہ یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ دراصل ’ایک‘ ہی چیز کا ذکر ہے۔ جیسے:
میرے پاس ایک ’بکرا‘ تھا، اس ’بکرے‘ کا رنگ کالا تھا۔
میرے پاس ایک ’چوزا‘ تھا، ’چوزے‘ کے پر بہت خوب صورت تھے۔
ہمارا ’نظریہ‘ امن ہے اور اس ’نظریے‘ کے تحت ہم محبتوں کو پھیلانا چاہتے ہیں۔
جلسے میں ایک پرجوش ’نعرہ‘ لگایا گیا اور اس ’نعرے‘ کے بعد لوگوں میں جوش وخروش پیدا ہوگیا۔ ’ کوا ‘چونچ میں روٹی کا ٹکڑا پکڑا ہوا تھا، جوں ہی ’کوّے‘ سے روٹی کا ٹکڑا چُھوٹا، توں ہی وہ کائیں کائیں کرنے لگا۔
ایک ’کوا‘ پیاسا تھا، اس ’کوے‘ نے پانی کی تلاش میں اڑنا شروع کیا۔
گیارہویں:
انگریزی الفاظ لکھتے ہوئے خیال رکھنا چاہئے کہ جو الفاظ یا اصطلاحات (ٹرمز) رائج ہوچکی ہیں، یا جن کا کوئی ترجمہ نہیں ہے یا ترجمہ ہے تو وہ عام طور پر استعمال نہیں ہوتا، اس لئے انہیں ترجمہ نہ کیا جائے بلکہ انگریزی میں ہی لکھ دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن انگریزی الفاظ کو اردو میں لکھا جائے گا، ان کی جمع اردو کی طرز پر بنائی جائے گی، نہ کہ انگریزی کی طرز پر، جیسے اسکول کی اسکولوں، کلاس کی کلاسوں، یونیورسٹی کی یونیورسٹیوں، اسٹاپ کی اسٹاپوں وغیرہ۔ تیسری بات یہ ہے کہ انگریزی کے بہت سے ایسے الفاظ جو ’ایس‘ سے شروع ہوتے ہیں، لیکن ان کے شروع میں ’الف‘ کی آواز ہوتی ہے، انہیں اردو میں لازمی طورپر الف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ جیسے اسکول، اسٹاپ، اسٹاف، اسٹیشن، اسمال، اسٹائل، اسٹوری، اسٹار وغیرہ۔ لیکن ایسے الفاظ جو شروع تو ’ایس‘ سے ہوتے ہیں لیکن ان کے شروع میں الف کی آواز نہیں ہے انہیں الف سے نہیں لکھا جائے گا، جیسے سچیویشن، سورس، سینڈیکیٹ، سیمسٹر، سائن اوپسس وغیرہ۔
بارہویں:
ہندوستانی فلموں نے اردو پر جو بھدا اثر ڈالا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں لفظ ’اپنا‘ کی جگہ میرا بولا جاتا ہے۔ ہمیں اردو لکھتے ہوئے اسے ٹھیک کرنا چاہئے، اس لیے ’میں میرے نہیں‘ بلکہ ’میں اپنے لکھا جائے‘ جیسا کہ میں میرے گھر میں میرے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بالکل غلط ہوگا، درست جملہ یوں ہوگا کہ میں اپنے گھر میں اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
تحریر: رضوان طاہر مبین
------
مفتی رضوان صاحب، دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں، جید عالم دین ہیں، فقہی جزئیات پر اچھی دست رس ہے۔
مندرجہ بالا تحریر چوں کہ پڑوس ملک کے تناظر میں لکھی گئی ہے، اس لئے پانچویں اور چھٹی شق کا قابل اصلاح ہونا ان کے یہاں واقعی ضروری ہے، مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب نے بھی ان باتوں کی طرف نشان دہی کی تھی۔
ہمارے یہاں یہ دونوں شقیں عدیم الوقوع ہیں۔ دسویں شق کی مثال میں "کوا روٹی کا ٹکڑا پکڑا ہوا تھا"، غیرمانوس اور غیرمستعمل ہے۔ صحیح، "کوا روٹی کا ٹکڑا پکڑے ہوئے تھا، یا پکڑے ہوا تھا"، ہے۔ پڑوس میں اسکول کو، سکول، اسٹیشن کو سٹیشن، اسٹاپ کو سٹاپ بولنے کا غلط رواج ہے، الحمد للّٰہ یہ المیہ ہمارے یہاں انتہائی کم ہے۔
----------------------------
No comments:
Post a Comment