Wednesday 10 June 2020

مذاق اور مزاح شرعی حیثیت اور تمام پہلو

مذاق اور مزاح شرعی حیثیت اور تمام پہلو

 تعارف: 
             ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے  مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے. اسی طرح  اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ عزت وآبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک اہم طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت وآبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔
             اس تضحیک آمیز رویہ کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ، بدگمانی، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا، اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس تربیتی مضمون کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس روئیے کی سائنٹفک انداز میں وضاحت کی جائے، اس کے اسباب جانے جائیں اور اس سے بچنے کے لئے عملی مشقیں مکمل کی جائیں تاکہ دنیا وآخرت میں اللہ کی رضا کو حاصل کیا جاسکے۔
مذاق اڑانے کی قرآن وحدیث میں ممانعت:
            یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ نے اس کو براہ راست موضوع بنایا  ہے۔ چنانچہ سورہ الحجرات میں  واضح طور پربیان ہوتا ہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۤءٌ مِّنْ نِّسَاۤءٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّۚ. 
            ”اے ایمان والو! نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔ (الحجرات 11:49)
            مذاق اڑانا ایک شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔ اسی لئے روایات  میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے۔ ۔۔۔۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔ جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرے گا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوگی. (صحیح بخاری: جلد دوم: حدیث نمبر 440)۔
مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کارفرما ہے۔ دوسری جانب تکبر ہی قرآ ن و حدیث  میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جو تی بھی اچھی ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔ (صحیح مسلم: جلد اول: حدیث نمبر 266)
ایک اور روایت میں بھی اس رویہ کی بالواسطہ مذمت ہوں بیان ہوئی ہے۔
            "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تم لوگ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ ہی تناجش کرو (تناجش بیع کی ایک قسم ہے) اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوی یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔" (صحیح مسلم: جلد سوم: حدیث نمبر 2044)
 مذاق اڑانے کا منطقی نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس ایذا رسانی کی بھی ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذاء نہ پائیں۔ (صحیح بخاری: جلد اول: حدیث نمبر 9)
 مذاق اڑانے کا مفہوم:
تمسخر کرنے یا مذاق اڑانے کے معنی ہیں کہ اہانت و تحقیر کے ارادے سے کسی کے حقیقی یا مفروضہ عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے۔ (امام غزالی۔ احیاءالعلوم، جلد سوم صفحہ ۲۰۷)
 مذاق اڑانے کی شرائط:
 ۱۔ پہلی شرط تو یہی ہے کہ مذاق کسی متعین فرد یا گروہ کے متعلق کیا جارہا ہو یعنی یہ مخصوص ہو اور عام نہ ہو۔
 ۲۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اگرمذاق کرنے والے کا مقصد کسی مخصوص شخص یا قوم کی توہین  کرنا یا اسے کمتر ثابت کرنا   یا اسے بدنام کرنا ہو یا پھر یہ مذاق اس متعلقہ شخص کو برا لگے۔ ان دو میں سے کوئی ایک بات بھی پوری ہورہی ہو تو  بھی یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا۔
وضاحت:
پہلی شرط تو واضح ہے۔ اگر مذاق عمومی یا  جنرل طریقے سے کیا جارہا ہے  اور اس کا نشانہ کوئی خاص فرد یا گروہ یا ادارہ نہیں ہے تو یہ استہزاء نہیں۔مثال کے طور پر   یہ لطیفہ ملاحظہ فرمائیں:
"ایک دوست دوسرے دوست سے بولا! یار آج تو صبح سے قسمت ہی خراب ہے، صبح اٹھا تو تو دیر سے آنکھ کھلی اور بیوی سے لڑائی ہوگئی اور بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ دفتر پہنچا تو باس ناراض تھا اس سے جھگڑا ہوگیا اور اس نے بھی نوکری سے نکال دیا۔ واپس آنے لگا تو گاڑی کا ایکسڈنٹ ہوگیا۔ تنگ آکر خود کشی کرنے کے لئے پیپسی میں زہر گھولا تو وہ گلاس تو نے پی لیا۔"
اس لطیفے میں کسی خاص شخص یا قوم یا ادارے کی بات نہیں ہورہی اس لئے یہ مذاق اڑانے کا عمل نہیں بلکہ مذاق کرنے کی  بات ہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ تحقیر کی نیت ہو یا یہ بات اس شخص کو بری لگے۔ مثال کے طور پر ریاض اپنے دوست سلمان کے بارے مذاق کرتا ہے کہ سلمان تو اپنی بیوی سے بہت ڈرتا ہے۔ اب اس بات کا تعین کس طرح ہوگا کہ یہ اس نے مذاق کیا ہے یا مذاق اڑایا ہے؟ اگر اس نے یہ بات سلمان کی توہین کے لئے کہی ہے تو یہ مذاق اڑانے کی کیٹگری میں آئے گا جو ایک ممنوع فعل ہے۔ لیکن اگر اس کا مقصد کچھ ایسا نہ تھا اور  سلمان اور اس کے درمیان اتنی بے تکلفی ہے کہ  سلمان نے برا  بھی نہیں مانا بلکہ وہ خود بھی محظوظ ہوا ہے تو یہ مزاح کے زمرے میں آئے گا۔
ایک اور صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ ریاض نے یہ بات   سلمان کی توہین اور اسے حقیر ثابت کرنے ہی کے لئے کہی ہو لیکن سلمان نے اس بات کا برا نہ مانا ہو ۔ اس کے باوجود یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا کیونکہ فیاض کی نیت تو استہزاء ہی کہ تھی۔
ایک تیسری صورت حال یہ یہ ہوسکتی ہے کہ  ریاض نے یہ بات محض تفنن طبع کے لئے کہی ہو اور اس کا مقصد سلمان کی توہین کرنا یا اسے حقیر ثابت کرنا یا اسے اذیت پہنچانا نہ ہو لیکن سلمان کو یہ بات بری لگی ہو۔ اس صورت میں بھی یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا۔ گوکہ ریاض کو اس بات کی چھوٹ دی جائے گی کہ اس نے یہ کام جان بوجھ کر نہیں کیا بلکہ لاعلمی اور ان جانے میں کیا ہے اور اس کی کوئی نیت ایسی نہ تھی۔
مزاح کیوں کیا جاتا ہے؟
ماہرین نے مزاح کرنے کے تین بڑے اسباب بیان کئے ہیں ۔ پہلا سبب برتری کا احساس ہے چنانچہ اس احساس کے تحت ہم جسے کم تر ، بے ڈھنگا، بدصورت، غلط، احمق یا کسی اور پہلو سے کمتر سمجھتے ہیں تو اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک اور سبب غیر مطابقت ہے یعنی جب نتائج مروجہ توقعات کے مطابق نہیں ہوتے تو ہم ہنس پڑتے ہیں جیسے ایک غیر اہل زبان اردو کا کوئی لفظ ادا نہ کرپائے تو  لوگ ہنستے ہیں۔ اسی طرح ایک اور سبب دباؤ کی تخفیف ہے یعنی لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے یا ہلکا پھلکا ہونے کے لئے بھی مزاح کرتے ہیں۔
جائز مزاح اورمذاق اڑانے  میں فرق:
مذاق اڑانے کی حدود تو ہم نے  یہ طے کی ہیں کہ اگر مذاق کا مقصد  متعین شخص کی تحقیر و تذلیل ہو یا یہ مذاق متعلقہ شخص کو برا لگے تو یہ  مذاق اڑانے کا عمل ہے۔لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہیں ہورہی تو یہ مذاق اڑانے کا عمل نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس کے بعد  ہر قسم کا مذاق جائز ہے۔ کسی مذاق یا مزاح کے جائز ہونے کے لئے مزید کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ چنانچہ جائز مذاق: ”وہ بات، اشارہ  یا عمل جو تفنن طبع اور تفریح کے لئے کیا جائے اور جس میں کسی مخصوص فردیا قوم کی تحقیر و تذلیل کی نیت نہ ہو اور نہ ہی اس میں جھوٹ، ایذارسانی، فحاشی، بدگوئی یا کسی غیراخلاقی و غیرشرعی عنصر کی آمیزش ہو۔”
لہٰذا اگر مذاق میں کوئی جھوٹ شامل ہے تو وہ جائز نہیں۔ مثال  کے طور پرزینب نے اپنی بہن کا موبائل چارپائی کے نیچے پڑا ہوا دیکھا۔ جب اس کی بہن نے پوچھا تو اس نے تفریح کی نیت سے جھوٹ بول دیا کہ علم نہیں۔ اس مذاق میں جھوٹ شامل ہے اور یہ جائز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی مذاق میں فحاشی کا عنصر ہو یا کوئی گالی ہو تو یہ بھی ناجائز ہے۔ اس کے علاوہ مذاق میں کسی بدتمیزی ، بدتہذیبی یا کوئی اور غیراخلاقی حرکت ہورہی ہو تو یہ بھی ناجائز حدود ہیں۔ کسی شرعی مسلمے کی خلاف ورزی بھی ناجائز ہے جیسے نماز یا روزے کا مذاق اڑانا یا کسی شرعی حکم کی تحقیر کرنا۔ اس ضمن میں میں ایک جملہ معترضہ کے طور پر یہ سمجھ لیں کہ کچھ محاورے بھی ایسے ہیں جن میں  دین کا مذاق اڑایا جاتا ہے جیسے "نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے۔" اس قسم کے محاورے یا ضرب الامثال مناسب نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح:
 اس ضمن میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے مدد لینی چاہِیے۔ آپ  اپنے اصحاب اور ازواج سے  مزاح  کیا کرتے تھے۔ اس  بات سے ان خشک مزا ج اہل علم کے اس نظریے  کا انکار ہوتا ہے جس کے تحت وہ حضرات مذاق کو ایک شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے مذاق کے تمام حدود وقیود کا علم ہوتا ہے۔ چند احادیث وآثار ملاحظہ فرمائیں:
حدیث نمبر ۱: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی سارے دانت کھول کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کا حلق نظر آنے لگے، بلکہ آپ صرف تبسم فرماتے تھے۔ (بخاری: حدیث: ۱۰۲۵)
وضاحت: اس کا مطلب یہ نہیں کہ قہقہ لگانا ممنوع ہے لیکن بہرحال ایک سنجیدہ مزاج شخصیت کو ٹھٹھے مارکر ہنسنا زیب نہیں دیتا۔
حدیث نمبر ۲:  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ہم سے خوش طبعی کی باتیں کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں لیکن) میں حق بات ہی کہتا ہوں۔ (ترمذی حدیث: ۲۰۵۶)
وضاحت: یعنی مذاق میں بھی کوئی جھوٹ، فحش یا غیراخلاقی بات کرنا جائز نہیں اور جو بات ہو وہ حق ہو۔
حدیث نمبر ۳: حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ نے (مذاق میں) اس سے کہا کہ میں تو تمہیں اونٹ کا بچہ دونگا۔ اس شخص نے کہا کہ میں اونٹ کے بچے کا کیا کرونگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ (ترمذی حدیث صحیح غریب :۲۰۵۶ )
حدیث نمبر ۴: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کہا ’’یا ذوالاذنین‘‘ یعنی اے دو کانوں والے۔ (ترمذی حدیث ۲۰۵۷)
وضاحت: کیونکہ ہر شخص کے دو کان ہوتے ہیں اس لئے اس میں تحقیر  بھی نہیں  اور تفنن طبع بھی ہے۔
حدیث نمبر۵: حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپ کے پاس آئی اور جنت میں داخلے کی دعا کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بوڑھی عورت جنت میں داخل نہیں ہوسکتی۔ وہ روتی ہوئی واپس ہونے لگی تو آپ نے کہا کہ اس سے کہہ دوکہ وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ سب اہلِ جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنادیں گے اور حق تعالیٰ کی اس آیت میں اس کا بیان ہے جس کا بیان ہے کہ ہم نے ان (جنتی) عورتوں کو خاص طرز پر بنایا ہے کہ وہ کنواری ہیں۔ (شمائل ترمذی: حدیث ۲۷۷)
وضاحت:  یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاق میں کسی کو ایذا پہنچانا تو جائز نہیں جبکہ یہاں ان بوڑھی خاتون کو تکلیف ہوئی۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان محترمہ بات کو غلط سمجھ بیٹھیں جس کی بنا پر انہیں دکھ ہوا۔ اگر وہ اصل مفہو م تک پہنچ جاتیں تو انہیں دکھ نہ ہوتا بلکہ وہ خود بھی محظوظ  ہوتیں۔
مذاق اڑانے کے مختلف انداز:
ہمارے معاشرے میں  لوگوں کا مذاق اڑانا ایک عام سی بات ہے۔ عام طور پرکسی خاص شخص یا قوم کا  مذاق اڑایا جاتا ، ان کی کسی خامی، کمزوری یا عیب کو نشانہ بنایا جاتا اور ان کی تحقیر و تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ استہزا بالعموم   الفاظ کے ذریعے کیا جاتا ہے جن میں گفتگو  کے دوران لطیفے یا دیگر جملے استعمال ہوتے ہیں۔مذاق اڑانے کا ایک اور انداز یہ ہے کہ اشارے یا باڈی لینگویج کا استعما ل کیا جائے جیسے آنکھوں سے اشارہ کرنا یا آنکھ مارنا، منہ چڑانا،  نقل اتارنا،  آوازیں نکالنا،معنی خیز مسکراہٹ دینا، قہقہ لگانا،ہاتھ سے کوئی اشارہ کرنا، منہ بنانا وغیرہ۔ ہم اپنی سوسائٹی میں مذاق اڑانے کے عمل کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
نجی محفلیں:
 سب سے زیادہ مذاق نجی محفلوں میں کیا جاتا ہے۔ ان نجی محفلوں میں شادی کی تقاریب، گھر پر چھوٹی موٹی دعوت،  دفاتر میں فارغ اوقات کی بیٹھک ، دوستوں کی ملاقاتیں، طلباء کی تعلیمی اداروں میں محفلیں وغیرہ شامل ہیں۔ ان محفلوں میں مذاق اڑانے کے مختلف انداز ہوتے ہیں۔ 
ایک انداز تو یہ ہے کہ کسی ایسے کمزور شخص کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو اپنے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو۔ چنانچہ اس کمزور شکارکے کسی حقیقی یا خود ساختہ عیب یا کمزوری کو پکڑ کر اس پر جملے کسے جاتے، اس کی تحقیر و تذلیل کی جاتی اور اس کو بالکل ہی دیوار سے لگادیا جاتا ہے۔ اس مذاق میں  ایک یا دو حضرات ہی فعال ہوتے ہیں جبکہ باقی لوگ ہنس کر یا کسی اور طریقے سے ان کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ اس دوران بے احتیاطی میں یہ احساس بھی نہیں ہوپاتا کہ اس شخص پر کیا بیت رہی ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ ایک لمحے کے لئے خود کو اس شخص کی جگہ پر رکھ کر سوچا جائے کہ ہمیں کیسا محسوس ہوگا؟ اگر یہ احساس ہوجائے کہ متعلقہ شخص کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو  موضوع بدل دیا جائے یا بات کا رخ موڑ دیا جائے۔
مذاق اڑانے کا ایک اور انداز ایک دوسرے پر پھبتی اور جملے کسنا، ان پر طنزیہ فقرے کہنا، انہیں برے ناموں سے پکارنا، آوازیں نکالنا یا اس کے خاندان کو برا بھلا کہنا  ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگر دونوں فریق مضبوط ہوں تو دو بدو جواب دیے جاتے اور ایک دوسرے پر حملے کئے جاتے ہیں جس سے اکثر اوقات رنجشیں پیدا ہوجاتی اور بات دشمنی تک چلی جاتی ہے۔ اور اگر ایک فریق کمزور ہو تو وہی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ایک اور انداز یہ ہے کہ مذاق کا نشانہ کسی ایسے شخص کو بنالیا جاتا ہے جو اس محفل میں موجود نہیں۔اس صورت میں دو گناہ یعنی تضحیک اور غیبت کا ایک ساتھ جمع  ہوجاتے ہیں۔
محفلوں میں ایک  اورعام انداز لطیفہ گوئی ہے  جو اپنی اصل میں کوئی ممنوع عمل  نہیں لیکن اس لطیفہ گوئی میں اوپر بیان کردہ حدود قیود کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لطیفہ گوئی میں سب سے عام لیکن ناپسندیدہ عنصر فحش اور غیر اخلاقی باتوں کا ہے۔ اس میں صرف نوجوان اور ناتجربہ کار لوگ ہی ملوث نہیں بلکہ پختہ عمر کے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات کچھ مذہبی راہنما بھی بے احتیاطی کرجاتے ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ فحاشی کی وعید کو یاد رکھا جائے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے وہ یہ کہ فحاشی کا چرچا کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔ نیز غیراخلاقی بات یوں بھی مومن کو زیبا نہیں۔لطیفہ گوئی کا ایک اور پہلو  یہ ہے کہ اس میں کسی قوم کی برائی شامل ہوتی ہے خاص طور پر ان قوموں کی جن سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔ اس سے عصبیت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ لطیفہ کا بنیادی مقصد محظوظ ہونا ہے اور لطیفے کی ترمیم کرکے اسے جائز مزاح کی حدود میں لایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اگر ترمیم ممکن ہو تو وہ کرلی جائے وگرنہ اس ے ترک کردیا جائے۔ مثال کے طور پر اس لطیفے پر غور کریں:
“ایک ٹائیگر نے پٹھان کو قتل کردیا۔ کسی نے ٹائیگر سے پوچھا کہ اس کو کیوں مار دیا۔ ٹائیگر نے کہا: ”اتنی دیر سے بولے جارہا تھا کہ اتنا بڑا بلی کا بچہ۔“
اس لطیفے میں پٹھان قوم کی تحقیر بیان ہورہی ہے جو کسی صورت میں گوارا نہیں۔ اسے معمولی سی ترمیم سے بہتر بنایا جاسکتا ہے اور اس سے تفریح پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا.
ترمیم شدہ لطیفہ:
ایک ٹائیگر نے کسی آدمی کو قتل کردیا۔ کسی نے ٹائیگر سے پوچھا کہ اس کو کیوں مار دیا۔ ٹائیگر نے کہا: ”اتنی دیر سے بولے جارہا تھا کہ اتنا بڑا بلی کا بچہ۔“
چنانچہ محفلوں میں مذاق کی حدود وقیود کو سامنے رکھا جائے اور اس کے باوجود اگر محفلیں اس غلط طرز عمل کو برقرا ر رکھیں پہلے تو انہیں حکمت سے سمجھایا جائے، اگر یہ ممکن یا موزوں نہ تو   موضوع کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے، اگر یہ بھی  ممکن نہ ہو تو مذاق اڑانے والوں کا ساتھ نہ دیا جائے اور ہنسنا بند کردیا جائے تاکہ مذاق اڑانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو ۔ اگر یہ حل بھی کام نہ کرے تو وہاں سے اٹھ جانا ہی بہتر ہے۔
ٹی وی پروگرامز:
آج کل ٹی وی پروگرامز میں مزاح کے نام پر مشہور شخصیات خاص طور پر سیاست دانوں کی عزت پر حملہ کیا جاتا، ان کی نقلیں اتاری جاتی اور ان پر طنز و تشنیع کے تیر برسائے جاتے ہیں۔ کوئی شخص ہمیں کتنا ہی ناپسند کیوں نہ ہو اور وہ کتنا ہی  بدمعاش و کرپٹ ہو ، اس کا مذاق اڑانا جائز نہیں۔البتہ سیاست دان چونکہ خود کو عوام کی خدمت کے لئے پیش کرتے اور عوام کے نمائندے ہوتے ہیں اس لئے ان کی پالیسیوں، کرپشن  اور دیگر غلط حرکات کو مذاق کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔لیکن کسی شخص کی ذاتی زندگی کا مذاق اڑانا یا اس کے کسی ذاتی عیب کا تذکرہ درست نہیں۔ چنانچہ ناجائز مذاق پر مبنی پروگرامز کا حل یہی ہے کہ  مزاح نگار، پروڈیوسرز اور ٹی وی مالکان کو توجہ دلائی جائے، ناظرین کو ان پروگرامز کا بائیکاٹ کرنے کو کہا جائے اور خود بھی ایسے پروگرامز نہ دیکھے جائیں۔
موبائل فون اور انٹرنیٹ:
 ایس ایم ایس اور  ای میل آج کل تفریح پھیلانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ چنانچہ ایسے لطیفے اور مزاح جو ناجائز ہوں انہیں کسی طور آگے فارورڈ نہ کیا جائے بلکہ بھیجنے والوں کو کوئی حدیث یا قرآن کی آیت  بھیجی جائے جس سے وہ اس عل سے رک جائیں۔
پرنٹ میڈیا:
 اخبارات اور میگزین میں بھی  مضامین  اور کارٹونز وغیرہ چھاپے جاتے ہیں۔ ان کی اشاعت میں بھی ان تمام قیود کا خیال رکھنا لازمی ہے۔
تضحیک آمیز رویہ میں بیان ہونے والے امور:
 یوں تو ہم سب جانتے ہیں کہ مذاق اڑانے میں کن کن باتوں کو عام طور پر بیان کیا جاتا ہے ۔ لیکن ذیل میں ان باتوں کی ایک لسٹ دی جارہی ہے تاکہ خیال رہے کہ کہیں ہم تو ان میں سے کسی طریقے میں ملوث نہیں۔
۱۔ جسمانی ساخت کی تحقیر جیسے کالی رنگت، پست قامتی، بدصورتی، گنج پن، ناک، کان یا دیگر اعضاء کی ساخت، کوئی جسمانی معذوری۔
۲۔ حرکات و سکنات کا مذاق اڑانا مثلاََ چلنے، اٹھنے بیٹھنے یا بولنے کا انداز۔
۳۔ پیشے کا مذاق جیسے کسی کو حقارت سے موچی کا طعنہ دینا۔
۴۔ حسب نسب یا ذات پات کا مذاق اڑانا
۵۔ لسانی بنیادوں پر مذاق اڑانامثال کے طور پر پشتو بولنے والوں کی تحقیر یا اردو بولنے والوں پر جملے بازی
۶۔مالی تفریق کی بنیاد پر مذاق جیسے غریبوں کی غربت کی تضحیک یا ان سے متعلق چیزوں کی تحقیر
۷۔ جنسی تفریق پر مذاق مثال کے طور پر عورتوں کا مرد ذات پر اور مردوں کا عور ت ذات پر ہنسنا
۸۔ مذہبی اختلاف پر تمسخر جیسے سکھوں کو بے وقوف قوم کے طور پر بیان کرنا
۹۔ مسلکی تفریق پر مذاق جیسے شعیہ، سنی، دیوبندی بریلوی وغیرہ کا ایک دوسرے پر پھبتی کسنا تاکہ غیرعلمی طریقے سے تحقیر کی جاسکے۔
۱۰۔ برے ناموں سے پکارنا جیسے کسی کو تحقیر کی نیت سے چاچا، کالو، لمبو، موٹے وغیرہ کہنا
۱۱۔ دین کا مذاق اڑانا یا دین پر عمل کرنے والوں کا مذاق اڑانا
۱۲۔ اللہ کا یا اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا
۱۳۔ رسولوں کا مذاق اڑانا
 مذاق اڑانے کے اسباب و محرکات:
لوگ مذاق کیوں اڑاتے ہیں؟ اس کا کوئی حتی جواب دینے یا وجہ بیان کرنا تو مشکل کام ہے۔البتہ اس فعل کی عام وجوہات درج ذیل ہیں:
۱۔ تکبر: تمسخر کی اہم  وجہ استکبار ہے یعنی خود کو برتر سمجھنا اور  اور فریق کو کمتر ثابت کرنا۔  
۲۔ نفرت اور کینہ: کسی کے خلاف اگر کینہ پیدا ہوجائے اور پھر اس کا بدلہ اسے دوسروں کی نظروں میں گراکر لیا جاتا ہے اور کسی کو گرانے کا آسان طریقہ مذاق ہے کیونکہ اگر سامنے والا برا مانے تو یہ کہہ کر جان چھڑالی جاتی ہے کہ میں تو مذاق کررہا تھا۔
 ۳۔ منفی سوچ: کچھ لوگ منفی سوچ کے عادی ہوتے ہیں چنانچہ وہ لوگوں کا مشاہد ہ منفی انداز ہی میں کرتے ہیں۔ اس بنا پر انہیں لوگوں کی خامیاں ہی نظر آتی ہیں۔ چنانچہ کسی کی کالی رنگت نظر آتی ہے تو کسی کی غربت پر نظر رکھی جاتی ہے۔
۴۔ حسد: یہ بھی ایک اہم وجہ سے چنانچہ کسی کے مال و دولت، اولاد یا ترقی سے جل کر اس کی مذاق کے ذریعے تحقیر کی جاتی ہے۔
۵۔ زیادہ بولنے کی عادت: بلاسوچے سمجھے بولنے کی عادت  اکثر مذاق اڑانے جیسے گناہ میں ملوث کرادیتی ہے۔
۶۔ احساسِ کمتری: اگر کوئی شخص کسی اعتبار سے کمتر ہے تو وہ اس احساس کو مٹانے کے لیے دوسروں کو کمتر ثابت کرتا اور ان کا مذاق  اڑاتا ہے۔
۷۔ انتقام و بدگمانی: اس  کی بنا پر کہ فلاں شخص میرے خلاف ہے یا یہ میرا مذاق اڑا رہا ہے، ایک جوابی کاروائی کرکے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
۸۔ مخاطب کو خوش کرنا: یہ ایک بہت اہم وجہ ہے۔ لوگ اکثر کسی کا مذاق اسی لئے اڑاتے ہیں تاکہ باقی لوگوں کی توجہ حاصل کی جائے، انہیں محظوظ کرکے پوائینٹ اسکورنگ کی جائےاور اس طرح محفل کو لوٹ لیا جائے۔
تدارک کی تدابیر:
مذاق اڑانے جیسے موذی گناہ سے بچنا کوئی ایک دو دن کا کام نہیں اس میں ہفتے اور مہینے  بھی لگ سکتے ہیں۔ سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ یہ جانا جائے کہ آپ  اس مرض میں مبتلا ہیں یا نہیں۔ یہ جاننا بڑا ضروری ہے کیونکہ جو شخص تضحیک کررہا ہوتا ہے اسے اس کا احساس ہی نہیں ہوپاتا۔ اس کے جاننے کا ایک طریقہ تو یہ ہے مذاق کرتے وقت مخاطب کی باڈی لینگویج اور چہرے کے تاثرات پر نظر رکھی جائے۔ اگر وہا ں ناگواری کے اثرات ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ کا مذاق موزوں نہیں۔ دوسرا یہ کہ اپنے قریبی لوگوں سے رابطہ کرکے اپنے بارے میں سنجیدگی سے پوچھا جائے کہ آپ اس فعل میں مبتلا ہیں یا نہیں۔ جب یہ جان لیں کہ آپ اس گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں تو درج ذیل ہدایات پر عمل  کریں:
۱۔ اگر آپ تکبر کی وجہ سے مذاق اڑاتے ہیں تو  تکبر کا علا ج کریں اور اپنا مسئلہ اہل علم حضرات سے ڈسکس کریں۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ جان لینا چاہئے  کہ تکبر حرام ہے اور اونٹ تو شاید سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے لیکن متکبر شخص جنت میں نہیں جائے گا۔
۲۔ عام طور پر لوگ کمزوروں کا ہی مذاق اڑاتے ہیں جو غربت، جسمانی کمزروی یا احساس کمتری کی بنا پر کسی فوری رد عمل کا اظہار نہیں کرسکتے۔ اگر آپ بھی ایسا کرتے ہیں تو وہی مذاق کسی صاحب حیثیت شخص کے سامنے کردیں کچھ دنوں میں طبیعت راہ راست پر آجائے گی۔
۲۔بولنے سے پہلے دوسروں کے جذبات کا خیال کیا جائے ۔خود کو اس شخص کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ اگر آپ اس کی جگہ ہوتے تو آُ پ پر کیا بیتتی۔
۳۔ دوسروں کے متعلق گفتگو کرنے میں احتیاط برتی جائے اور ان کی پردہ پوشی کی جائے اور لوگوں کے بارے میں اچھا سوچنے کی عادت ڈالی جائے۔
۴۔ حسد پر قابو پایا جائے اور محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے حق میں دعائے خیر کی عادت ڈالی جائے۔
۵۔ نفرت، کینہ، غصہ اور دیگر اخلاقی آفات پر نظر رکھی جائے اور انہیں اپنی شخصیت اور نفسیات کا حصہ بننے سے روکا جائے۔
۶۔ اگر یہ شک ہو کہ یہ مزاح ہے یا تمسخر تو خاموشی کو جائز مزاح پر ترجیح دیں۔
۷۔ اگر بعد میں یہ احساس ہوجائے کہ کسی کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے تو اس شخص سے برملا اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے اور معافی مانگی جائے۔ اس کے علاوہ اس کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا جائے مثلاً اس شخص کو تحفہ دینا، اس کی دعوت کرنا، اس کے ساتھ کوئی خصوصی رویہ اختیار کرنا وغیرہ۔۔
۷۔ ایس ایم  ایس، ای میل یا فیس بک اور سوشل میڈیا پر ایسے ناجائز مذاق  کو ہرگز آگے فارورڈ نہ کریں اور ایسا کرنے والوں کی اصلاح کی کوشش کریں۔ یعنی جب بھی کوئی غیراخلاقی روِیے پر مبنی ای میل یا ایس ایم ایس ملے تو اسے جواب میں سورہ الحجرات کی اس آیت کا ترجمہ فارورڈ کردیں یا کسی اور طریقے سے اس کا حکمت سے جواب دے دیں کہ وصول کرنے والے شخص کو برا نہ لگے۔
۸۔ ناجائز مزاح  پر مبنی فلمیں، ڈرامے اور  ٹی وی پروگرامز کا کو خودبھی نہ دیکھیں اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی ترغیب دیں۔
۹۔ ایسی محفلوں میں چوکنے بیٹھیں جہاں لوگوں کی تضحیک کی جاتی ہو۔ اگر اس کو روکنا ممکن نہ ہو تو اس کا حصہ نہ بنیں اور اس سے اجتناب کریں۔
۱۰۔ اگر پھر بھی اس عادت پر قابو نہ ہو تو اپنے لیے جرمانے کا نظام نافذ کرلیں۔ یعنی کسی کا مذاق اڑانے کی صورت میں آپ یا تو ایک مخصوص رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کریں، یا روزہ رکھیں یا مخصوص تعدا د میں نوافل ادا کریں۔ لیکن جرماہ نہ تو اتنا سخت ہوکہ اس پر عمل ہی  نہ ہوسکتا ہو اور نہ ہی اتنا نرم ہو کہ طبیعت کو بالکل بار محسوس نہ ہو۔
http://saagartimes.blogspot.com/2020/06/blog-post_10.html?m=1

No comments:

Post a Comment