اسلام اور سیاست
اسلام اور سیاست لازم و ملزوم ہیں ۔ اسلام صرف انفرادی و باطنی زندگی ہی نہیں؛ بلکہ اجتماعی وظاہری زندگی کی اصلاح کا نظام بھی فراہم کرتا ہے، بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت کا منصب حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس ہوتا تھا
نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد خلفاء کی خلافتوں اور سیاست وقیادت کی پیش گوئی فرمائی. بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
قالَ: كانَتْ بَنُو إسْرائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأنْبِياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وإنَّه لا نَبِيَّ بَعْدِي، وسَيَكونُ خُلَفاءُ فَيَكْثُرُونَ قالوا: فَما تَأْمُرُنا؟ قالَ: فُوا ببَيْعَةِ الأوَّلِ فالأوَّلِ، أعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فإنَّ اللَّهَ سائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعاهُمْ. عن أبی هريرة. صحيح البخاري: 3455.
حضرت یوسف علیہ السلام
حضرت موسی علیہ السلام
حضرت سموئیل علیہ السلام (جالوت جیسے ظالم حکمراں کے مقابلے کے لئے) کی سیاسی جد وجہد اور حکمرانی اس بابت چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی سیاست وفلاحی ریاست کا عملی نمونہ مدینہ منورہ سے پیش فرمادیا. یہیں سے دنیا کو امورحکومت چلانے کا سلیقہ واسوہ بھی ملا.
خلفاء راشدین کے زمانے میں 'اسلام کا نظام سیاست' مزید ہمہ جہت وہمہ گیر شکل میں فروغ پذیر ہوا. عہد فاروقی کو اسلامی سیاست کا عہدزریں (گولڈن پیریڈ) کہا جاتا ہے. جہاں دس سالہ دور خلافت میں تقریبا ۲۲ لاکھ ۱۵ ہزار مربع میل تک اسلام کا دامن وسیع ہوگیا تھا. سیاست کو اسلام سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا.
ہمارے یہاں نماز روزہ حج وزکات کی طرح سیاست و امورحکمرانی کا باضابطہ نظام بھی مرتب، منضبط ومدون ہے۔ الحمد للّٰہ ہمارے حلقے میں تجربہ کار وتجزیہ کار، دور رس، بالغ نظر، اکابر علماء تشریف رکھتے ہیں. حالات، وقت اور تقاضے کے مطابق سیاسیات کے موضوع پہ ہمیں ان کے وقیع وگراں قدر 'ضمنی و ذیلی تبصرے و تجزیئے' سے بھی گاہے گاہے استفادے کی کوشش کرنی چاہیے
گروپ کا مقصد اصلی یقیناً علمی تحقیق وتجزیہ ہے. لیکن ذیلی طور پہ اکابر علماء سے سیاسی رہنمائی حاصل کرنے کی بھی ہمیں ضرورت ہے.
No comments:
Post a Comment