Wednesday, 10 June 2020

لاک ڈاؤن: اساتذہ وائمہ مساجد کی تنخواہ

لاک ڈاؤن: اساتذہ وائمہ مساجد کی تنخواہ 
-------------------------------
--------------------------------
اللہ تبارک وتعالی نے ہر انسان کو جسمانی طاقت وقوت بخشی تاکہ وہ جسمانی محنت ومزدوری کرکے اپنی روزی تلاش سکے اور  اپنی جسمانی ومعاشی ضروریات کی تکمیل ازخود کرسکے، ہمارے مذہب میں آدمی کی خود اپنے ہاتھ کی کمائی یعنی محنت مزدوری اور حرفت وصناعت کو سب سے پاکیزہ عمل قرار دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اپنے چہیتے بندوں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے محنت ومزدوری کرواکے پیشہ محنت واجرت کی فضیلت اور عملی مثال بھی بیان کردی۔ یہ اللہ کا کتنا بڑا کرم واحسان ہے کہ بعض بندوں، مزدوروں، جفاکشوں اور محنت کشوں کو بعضوں کے ماتحت کرکے اس کا غلام، نوکر، خادم یا مزدور بنادیا، تاکہ وہ ازخود محنت مزدوری کرنے سے بچا رہے۔ جس کو کسی کے کام پہ لگایا جائے خواہ جسمانی کام ہو یا ذہنی (جیسے اساتذہ ومدرسین) اسے اجیر وملازم اور جس کے ماتحت کیا جائے اسے مالک ومستاجر کہتے ہیں۔ جو شخص متعین وقت کے اندر ایک ہی آدمی کا کام کرے اسے "اجیر خاص"، اور جو مختلف لوگوں کا کام کرے جیسے درزی وغیرہ، تو اسے "اجیر مشترک" کہتے ہیں۔ سرکاری اور نجی اداروں، تعلیم گاہوں اور مدارس کے مدرسین وملازمین؛ جن کے کام اور ذمہ داری کے اوقات متعین ہوں وہ ان اوقات میں اجیرِ خاص ہیں، متعینہ اوقات میں تسلیم نفس اور حاضر باشی سے یہ لوگ اجرت ومزدوری کے مستحق ہوجاتے ہیں، عمل کرنا ضروری نہیں، جبکہ اجیر مشترک تسلیم نفس سے نہیں، مفوضہ کام کرنے کے بعد اجرت کا مستحق ہوگا: 
الأجیر المشترک من یستحق الأجر بالعمل لا بتسلیم نفسه للعمل۔ الأجیر الخاص من یستحق الأجر بستلیم النفس وبمضی المدۃ، ولا یشترط العمل في حقه  لاستحقاق الأجر۔ (تاتارخانیة، زکریا 281/15  رقم: 2374-2375 ، المحیط البرہاني، المجلس العلمي 38/12، رقم: 14036، هندية، جدید 543/4)
الأجیر الخاص: هو الشخص الذي یستأجر مدۃ معلومة لیعمل فیها، الأجیر المشترك: هو الذي یعمل لأکثر من واحد، فیشترکون جمیعا في نفسه کالصباغ والخیاط۔ (فقہ السنة، دارالکتاب العربي 193/3)
کسب معاش کے تین ذرائع: تجارت، زراعت اور اجارہ ومزدوری میں سے تیسرا ذریعہ معاش "محنت ومزدوری" ہے۔ ہر مخلوق کا اصل رازق تو اللہ تعالی ہے؛ لیکن سبب وذریعہ کے درجے میں اللہ تعالی نے دونوں طبقوں: مالک ومزدور کی روزی روٹی ایکدوسرے سے مربوط کردی ہے۔ اگر مالک، زمیندار وصنعت کار مزدوروں وملازموں کے محتاج ہیں تو وہیں محنت کش مالکان کے محتاج ہیں. دونوں کے باہمی احتیاج، ارتباط وانضباط سے سماج کا اقتصادی نظام رواں دواں ہے:
’’نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَعِیْشَتَھُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضاً سُخْرِیّاً‘‘_ دنیوی زندگی میں ہم نے ان کی روزی تقسیم کررکھی ہے اور ہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے، تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔ (سورۃ الزخرف: 32)
سرمایہ دارانہ نظام کی طرح مالک ومزدور کا یہ رشتہ خود غرضی، مفاد پرستی، جبروتشدد، بدعہدی پر مبنی نہیں ہے؛ بلکہ مالک ومزدور کے مابین محنت واجرت کا یہ رشتہ اخوت، بھائی چارہ، جذبہ خیرخواہی، وفاداری، نفع رسانی، ترحم، تعاون باہمی، ہمدردی وغمگساری اور مساوات پہ مبنی ہے۔ مذاہب عالم کے نظامہائے اقتصاد ومزدور میں یہ صرف اسلامی قانون محنت واجرت کا امتیاز ہے کہ اس نے مالک ومزدور کو بنیادی انسانی حقوق میں یکسر برابر قرار دیا، اونچ نیچ، اعلی وادنی، ارفع وکمتر کے فرق کو مٹایا، مالک کو بالادستی کے خبط اور مزدور کو حقیر وکمتر جیسے احساس کمتری سے یکسر پاک کیا۔ دونوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی استواری کی یہی اساس وبنیاد ہے۔ اس میں کمی ہونے سے ہی دونوں طبقوں میں تصادم واحتجاج کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اپنے حقوق کے مطالبہ کے لئے دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل آتے، صف آراء ہوتے اور اس کے نتیجے میں احتجاج ومظاہرے ہوتے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے:
............ إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُ (صحيح البخاري. كتاب الإيمان 30)
تمہارے خادم ومحتاج تمہارے بھائی ہیں، جس شخص کے بھائی کو اللہ اس کا ماتحت ومحتاج بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے)
پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدوری ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ. (سنن ابن ماجة. كتاب الرهون. باب أجر الأجراء، رقم الحديث 2443)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو) 
مزدور کے حقوق ہضم کرلینے والوں کو قیامت میں سزا ہوگی اور اللہ تعالی خود مزدور کی طرف سے روز قیامت جھگڑیں گے: 
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ (صحيح البخاري. كتاب البيوع رقم الحديث 2114. بَاب إِثْمِ مَنْ بَاعَ حُرًّا__ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑوں گا، ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام اور میری سوگند کے ذریعے کوئی عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا دوسرا وہ شخص ہے جس نے ایک آزاد شخص کو فروخت کیا اور اس کا مول کھایا اور تیسرا شخص وہ ہے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے کام لیا (یعنی جس کام کے لئے لگایا تھا وہ پورا کام اس سے کروایا) لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی) 
"آدم خور" کورونا کی تباہ کاری وقیامت خیزی سے ایک بھی شعبہ زندگی بچ نہیں سکا، تادم تحریر یعنی  10 جون 2020 تک دنیا میں کورونا کیسز 7323516، ہلاکتیں 413731 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہیں، اس وباء نے قریب آٹھ ملین صحت مند افراد کو بیمار کردیا وہیں دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی منڈیوں کی کمر بھی توڑ دی اور کاروبار زندگی کا پہیہ جام کردیا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے فیکٹریاں، سرکاری وپرائیویٹ ادارے، ملازمتی مراکز، مدارس وجامعات بالکل بند ہوگئے، معاشی سرگرمیاں معطل ہوگئیں، معاشی بحران کی وجہ سے برسرروزگار کروڑوں واربوں افراد ملازمت سے فارغ یا بغیر تنخواہ چھٹی پہ بھیجے جارہے ہیں، لاکھوں دیہاڑی دار افراد فاقہ کشی پہ مجبور ہیں۔ کورونا خدائی قہر اور آسمانی عذاب ووباء ہے، یہ مزدوری اور محنت کشوں کی طرف سے پیدا کردہ صورت حال نہیں ہے بلکہ ایک مجبوری کی حالت ہے، ماہانہ، ہفتہ وار، یومیہ مزدوری پانے والے اجیر خاص کی طرف سے کوئی تفریط وتعدی نہیں ہے، وہ تسلیم نفس پہ راضی اور کام کرنے پہ آمادہ وتیار ہیں، مالکان ومستاجرین جس طرح اس مہاماری کے دنوں میں اپنے اہل وعیال اور گھر والوں کا خیال رکھ رہے ہیں اسی طرح اپنے ملازمین کا بھی خیال رکھیں، جس طرح وہ کھارہے ہیں اپنے ملازمین کے چولہا چکی گرم رکھنے کا بھی نظم فرمائیں، "لاضرر ولاضرار" "لایظلمون ولایظلمون" اور "الضرر یزال" یعنی حتی الامکان نقصان کی تلافی کی جائے گی) جیسے اصول  وضوابط کا تقاضہ ہے کہ ملازمین کو فارغ کرنا یا بغیر تنخواہ چھٹی پہ بھیج دینا شرعا و اخلاقا جائز نہیں، بلکہ وحشیانہ عمل ہے۔ اگر کوئی اجیر کام میں کوتاہی کرے یا اجرت معاہدہ یا حکومت کے مقر ر کردہ معیار سے زیادہ اُجرت مانگے تب تو اس کو روکنے اور تنبیہہ کرکے عدالت تک معاملہ لے جانے کا حق ہے۔
"ولوقصرالاجیرفی حق المستاجرفنقصه  من العمل اواستزادہ فی الاجرمنعه  منه" (ابویعلیٰ/ الاحکام السطانیہ ص ٦٨٦) 
اجیر اگر مستاجر کے حق میں کوئی کوتاہی کرے یعنی کام کم کرے یا مقررہ معیار سے اُجرت زیادہ مانگے تو اس کو بھی اس سے روکا جائے گا۔ اگر اس محکمہ کے ذمہ داروں کی تنبیہہ اور ہدایت کے بعد بھی وہ باز نہ آئیں یا آپس میں کشمکش کریں توفوراً یہ معاملہ سول کورٹ کے سپرد کردیا جائے اور وہ اس بارے میں اپنی صواب دید کے مطابق فیصلہ کرے گی) 
لیکن آسمانی افتاد کورونا لاک ڈاؤن کے وقت جبکہ اس کی جانب سے کوئی تعدی نہیں ہے، وہ کام پہ آمادہ اور تسلیم نفس پہ راضی وتیار بیٹھے ہیں. کام سے فارغ کرنا عقد اجارہ یکطرفہ مسترد کردینا یا بلاتنخواہ چھٹی کردینا انسانی اقدار وشریعت کے خلاف ہے) اگر کسی مدرسے یا مسجد کا ایام تعطیل میں تنخواہ نہ دینے یا اساتذہ کے عزل ونصب کا پہلے سے طے کردہ ضابطہ ہو یا تقرری کے وقت اساتذہ وائمہ سے ان اصول سے روشناس کرواکے اس پہ دستخط لے لئے گئے ہوں تب تو تنخواہ یا تقرر وتعطل کی بابت اسی اصول پہ عمل ہوگا اور فریقین اس پہ عمل درآمد کے مکلف ہونگے؛ لیکن جہاں اس طرح کا اصول وضابطہ طے نہ ہو وہاں مرکزی ادارے، جامعات ومساجد کا عرف معتبر ہوگا، اگر لاک ڈاؤن کے آغاز میں ائمہ ومدارس کی ملازمتیں منسوخ ومعطل نہ کی گئی ہوں یا وہ آئندہ سال سلسلہ تدریس وامامت جاری رکھنے سے استعفاء نہ دیئے ہوں تو لاک ڈاؤن یا اس کے بعد مدارس ومساجد کی بندش کے پورے زمانے تک حضرات ائمہ موذنین واساتذہ مدارس باہم طے شدہ  مشاہرات کے حقدار ہونگے. مدارس میں تعلیم  یا نئے داخلہ کا موقوف ہونا استحقاق اجرت ومشاہرہ میں موثر نہیں ہوسکتا، سلسلہ تعلیم وداخلہ کا جریان عقد اجارہ خاص  میں معقود علیہ نہیں ہے، معقود علیہ اساتذہ کا تدریس کے لئے تسلیم نفس وآمادگی نفس ہے، وہ بہرحال موجود ہے۔ علامہ شامی لکھتے ہیں: 
مطلب فيمن لم يدرس لعدم وجود الطلبة  وفي الحموي سئل المصنف عمن لم يدرس لعدم وجود الطلبة فهل يستحق المعلوم أجاب إن فرغ نفسه للتدريس بأن حضر المدرسة المعينة لتدريسه استحق المعلوم لإمكان التدريس لغير الطلبة المشروطين قال في شرح المنظومة المقصود من المدرس يقوم بغير الطلبة بخلاف الطالب فإن المقصود لا يقوم بغيره اه. وسيأتي قبيل الفرع أنه لو درس في غيرها لتعذره فيها ينبغي أن يستحق العلوفة وفي فتاوى الحانوتي يستحق المعلوم عند قيام المانع من العمل ولم يكن بتقصيره سواء كان ناظرا أو غيره كالجاني. مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم البطالة قوله (وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي الخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته فقال في المحيط إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا اه. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم البطالة في الأصح وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس لأن يوم البطالة للاستراحة وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي المهمة ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب البطالة وأيام التدريس قليلة اه. ورده البيري بما في القنية إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء لا يحل له أن يأخذ ويصرف أجر هذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ما إذا لم يقدر لكل يوم مبلغا فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف بخلاف غيرهما من أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجر عن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدر له أجر كل يوم أو لا اه ط. قلت هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا (ردالمحتار 567/6، کتاب الحدود)
 دررالحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے: 
(المادة 425): الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة. ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل. أما الأجير الذي يسلم نفسه بعض المدة ، فيستحق من الأجرة ما يلحق ذلك البعض من الأجرة.
(انظر المادة 470) مثال ذلك كما لو آجر إنسان نفسه من آخر ليخدمه سنة على أجر معين فخدمه ستة أشهر ثم ترك خدمته وسافر إلى بلاد أخرى ثم عاد بعد تمام السنة وطلب من مخدومه أجر ستة الأشهر التي خدمه فيها؛ فله ذلك وليس لمخدومه أن يمنعه منها بحجة أنه لم يقض المدة التي استأجره ليخدمه فيها. (البهجة). وإنما لا يشترط عمل الأجير الخاص بالفعل كما ورد في هذه المادة؛ لأنه لما كانت منافع الأجير مدة الإجارة مستحقة للمستأجر وتلك المنافع قد تهيئت والأجرة مقابل المنافع، فالمستأجر إذا قصر في استعمال الأجير ولم يكن للأجير مانع حسي عن العمل كمرض ومطر فللأجير أخذ الأجرة ولو لم يعمل (الزيلعي). وعلى ذلك فللراعي الذي استؤجر على أن يكون أجيرا خاصا أخذ الأجرة تامة ما دام حاضرا للعمل ولو هلك بعض المواشي، أو كلها (ردالمحتار) (2/459)
درمختار میں ہے: 
وهل يأخذ أيام البطالة كعيد ورمضان؟ لم أره، وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي. واختلفوا فيها، والاصح أنه يأخذ، لانها
للاستراحة أشباه من قاعدة العادة محكمة، وسيجئ ما لو غاب، فليحفظ (ولو) كان الموقوف (دارا فعمارته على من له السكنى) ولو متعددا من ماله لا من الغلة إذ الغرم بالغنم. (الدرالمختار شرح تنويرالأبصار وجامع البحار نویسنده: الحصكفي، علاء الدين جلد: 1 صفحه: 372) 
فتاوی شامی میں ہے: 
مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم البطالة (قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته ، فقال في المحيط : إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. ا هـ. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس; لأن يوم البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة ، ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب البطالة، وأيام التدريس قليلة ا هـ ورده البيري بما في القنية إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء لا يحل له أن يأخذ ويصرف أجر هذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ما إذا لم يقدر لكل يوم مبلغا، فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف، بخلاف غيرهما من أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجر عن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدر له أجر كل يوم أو لا. ا هـ . ط قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف ، فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا. وفي الفصل الثامن عشر من التتارخانية قال الفقيه أبو الليث [ص: 373] ومن يأخذ الأجر من طلبة العلم في يوم لا درس فيه أرجو أن يكون جائزا وفي الحاوي إذا كان مشتغلا بالكتابة والتدريس. ا هـ. (قوله: وسيجيء) أي عن نظم الوهبانية بعد قوله مات المؤذن والإمام . (ردالمحتار على الدرالمختار» كتاب الوقف» مطلب في قطع الجهات لأجل العمارة 372/4)
ہاں! اجیر مشترک اجرت کا مستحق  کام کرنے کے بعد ہوگا اس سے پہلے نہیں: 
(المادة 424 ): الأجير المشترك لا يستحق الأجرة إلا بالعمل. أي لا يستحق الأجرة إلا بعمل ما استؤجر لعمله؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لا يسلم له العوض والمعقود عليه هو العمل ، أو أثره على ما بينا؛ فلا بد من العمل .(زيلعي. ردالمحتار). فمتى، أوفى العامل العمل استحقت الأجرة. (انظر المادة 469 وشرحها ) (دررالحكام في شرح مجلة الأحكام (2/459)
اسلام کا قانون محنت واجرت خیرخواہی، بھائی چارہ، ترحم وہمدردی پر مبنی ہے، یہ کیسی خیر خواہی ہے؟ کہ جن کے دم سے ہمارے آگن میں امیری کے شجر لگے ہوں، سخت مجبوری، کس مپرسی اور لاچارگی کی گھڑی میں ہم انہیں ہی  بے یار و مددگار چھوڑدیں؟ انسانی حقوق میں مالک ومزدور سب برابر ہیں، متعینہ تنخواہ میں مناسب حال کمی کرکے قدر ضرورت "تن خواہ" کا نظام حسب حال بحال رکھا جائے، جن لوگوں کو اجیر خاص بناکر ان کا  معاشی تکفل آپ کے کندھوں تھا، سخت مجبوری کے لمحے میں ان پہ تنگی کرنا ٹال مٹول کے زمرے میں آکر گناہ کا کام شمار ہوگا۔ متعدد ارباب مدارس کی طرف سے اطلاعات واعلانات عام ہورہی ہیں کہ: 
"کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگست تک  مدارس کھلیں گے نہ تعلیمی سلسلہ جاری ہوسکے گا؛ لہذا مدرسین ادھر کا رخ نہ کریں، اپنی ملازمت کہیں اور دیکھ لیں، جبکہ بعض مدرسین کو بلاتنخواہ چھٹی کردی گئی ہے.  
"یہ حد درجہ شرمناک، المناک، افسوسناک، غیرانسانی اور مفادپرستانہ حرکت ہے، معمولی تنخواہوں پہ اخلاص، کفایت شعاری، محنت، جدوجہد، لگن، دل جمعی اور بشاشت قلبی سے اساتذہ کرام  مدارس ومساجد میں کام کرتے رہے ہیں، آج  برے وقت میں انہیں یوں بے یار ومددگار چھوڑدینا کوئی انسانی کام ہے؟ بھلا اس وقت انہیں کون کام پہ رکھے گا؟ ذمہ داران مساجد ومدارس اپنے اداروں کے "منتظمین اور امین محض" ہی تو ہیں، مالک تو نہیں؟ قوم کی تبرعات وعطایا سے ان کی تنخواہیں دی جاتی ہیں، اوقاف کے ادارے دراصل اللہ کی ملکیت ہوتے ہیں، یہ ادارے اسلام کے قلعے ہیں، خداوند تعالی ہی غیب سے اس کا نظم ونسق چلاتے ہیں، اہل ثروت کے قلوب کو ان اداروں کی معاونت کی طرف مائل فرماتے ہیں، کسی مہتمم یا منتظم کے بس کا نہیں کہ نصرت غیبی ومددخداوندی کے بغیر بزور بازو دینی ادارہ چلالے، اللہ پہ توکل بھروسہ اور اخلاص کے ساتھ تنخواہوں کے نظام کو حسب حال بحال رکھا جائے۔ اصحاب خیر، فیاض دل اور متمول طبقہ باہر آکر "ذات، مذہب، برادری، علاقائی، وطنی، لسانی تنگنائیوں" سے اوپر اٹھ کر محض انسانی رشتوں کی بنیاد پر حالات گزیدہ دُکھی انسانیت کی مدد اور راحت رسانی اور فلاح انسانیت کے کاموں میں بیش بہا خدمات کی انجام دہی میں بحمد اللہ جُٹ کر خیرامت ہونے کا عملی ثبوت پیش کررہا ہے۔ تاہم اس موقع سے بطور خاص اپنی زندگیاں دینی علوم کی ترویج و اشاعت اور شعائر اسلام کے بقاء وتحفظ کے لئے وقف کردینے والے  مفلس، باغیرت اور خوددار علمائے کرام، ائمہ ومؤذنین کے حالات کی خبر گیری کرنا، ان کی ضروریات کا تکفل کرنا، تلاش تلاش کر ان کی حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا کرنا نسبۃً زیادہ ضروری ہے۔ مدارس ومساجد کا نظام انہی کے ایثار سے قائم ہے، ان کے تعطل سے مدارس اور اس کا سارا تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہوگا۔ وقت کے میناروں سے یہ صدا آرہی ہے، گردش زمانہ آواز دے رہی ہے، انسانیت ہمارے جذبے کو مہمیز لگارہی ہے، کہ ہم اپنی نگاہ غیرت وہمدردی کو بلند کریں، ہم اپنی دینی حمیت اور ملی تخیل کو بیدار کریں اور ارشاد ربانی "لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون" کا علم بلند کرکے اس لاک ڈاؤن کی عالمی وباء میں انسانیت کی خدمت اور بطور خاص مسکین ومفلوک الحال علماء اور مدرسین  کی دست گیری کا مناسب حال نظم کریں. مذہب اسلام  نے انسان ہی نہیں جانوروں تک کے ساتھ رحم و کرم اور خیرخواہی کرنے کا حکم دیا ہے. محتاجوں کے کام آنا‘ بھوکے کو کھانا کھلانا‘ مسکینوں کی سرپرستی کرنا‘ امن و آشتی، انس والفت اور تسکین قلوب کا باعث ہے، کمزروں لاچاروں اور معاشی بے چاروں کے طفیل ہی اللہ تعالی مالداروں کو روزی دیتا ہے۔ موجودہ اضطرابی حالات میں اپنے مدرسین وائمہ کی تنخواہوں کی کٹوتی کرنا، انہیں بلاتنخواہ گھر بٹادینا یا ملازمت سے سبکدوش کردینا شرعا واخلاقا جائز نہیں ہے۔ 
واللہ اعلم 
مورخہ ١٨ شوال ١٤٤١ هجري 
١٠ جون ٢٠٢٠

No comments:

Post a Comment