Monday, 1 June 2020

دوسرےکی زمین پر ناجائز طریقہ سے راستہ (گذرگاہ) بنانا؟

دوسرے
کی زمین پر ناجائز 
طریقہ سے راستہ (گذرگاہ) بنانا؟

سوال(۳۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میں نے مکان کے لئے زمین خریدی، جس کی لمبائی ۷۸ ؍فٹ، چوڑائی ۲۷ ؍فٹ ہے، میں نے جب مکان تعمیر کرایا، تو ۹ ؍فٹ جگہ سامنے اس لئے چھوڑی کہ بھینس باندھنے یا کوڑا وغیرہ کے کام آتی رہے گی۔ جن لوگوں سے زمین خریدی تھی، اُن کے پلاٹ کا یہ آخری حصہ تھا، اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تم کو ہاتھے والے روڈ پر جانے کے لئے راستہ ملے، تو تم راستہ کھلا رکھنا ورنہ بند کردینا۔ میرے برابر میں دوسرے شخص نے مکان بنایا، اُس کا مکان میرے مکان سے ۷ یا ۸گز آگے تک بنا ہوا ہے، میری طرف سے اس کے مکان کی دیوار بنی ہوئی ہے، اُس کے مکان کا دروازہ شمال کی جانب ہے، اب یہ لوگ لڑائی جھگڑا کرتے رہتے ہیں، گالی گلوچ میرے دروازہ پر آکر بکتے ہیں، اینٹ اَدھے پھینکتے ہیں، کئی بار عورتوں کے چوٹ بھی لگی، یہ لوگ بہت ظالم ہیں، اُن کے دروازہ کی طرف میونسپلٹی کا کھڑنجا بچھا ہوا ہے، میری طرف پورے پلاٹ کا راستہ کچا ہے، میونسپلٹی کا کھڑنجا نہیں ہے، یہ لوگ ناجائز راستہ لینے کی کوشش کررہے ہیں، کسی کی زمین پر ناجائز راستہ لینا اور قبضہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟ 
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ 
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کی زمین پر ناحق قبضہ کرنا سخت ترین گناہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دوسروں کی ایک بالشت زمین بھی زبردستی دبا لے گا، قیامت کے دن اس کو ساتوں زمین کا طوق بناکر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا، جسے وہ برداشت نہیں کرسکے گا، اس لئے مذکورہ لوگوں کو اس حرکت سے باز آنا چاہئے، اور آخرت کی رسوائی سے ڈرنا چاہئے۔
عن سعید بن زید رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من أخذ شبرًا من الأرض ظلمًا، فإنہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع أرضین۔ (صحیح البخاري، باب ما جاء في سبع أرضین ۲؍۴۵۴ رقم: ۳۱۹۸، صحیح مسلم رقم: ۱۶۱۰، مشکاۃ المصابیح / باب الغصب ۲۵۴ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند، لمعات التنقیح ۵؍۶۱۵ رقم: ۲۹۳۸ دار النوادر)
یلزم ردّ المغصوب عینًا، وتسلیمہ إلی صاحبہ في مکان الغصب إن کان موجودًا۔ (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز ۴۸۸ رقم المادۃ: ۸۹۰ المکتبۃ الحنیفۃ کوئٹہ)
وعلی الغاصب رد العین المغصوبۃ، معناہ: ما دام قائمًا، لقولہ علیہ السلام: علی الید ما أخذت حتی ترد۔ وقال علیہ السلام: لا یحل لأحد أن یأخذ متاع أخیہ لاعبًا ولا جادًّا، فإن أخذہ فلیردّھ علیہ۔ (الہدایۃ / کتاب الغصب ۳؍۳۷۱ مکتبہ شرکت علمیہ ملتان، ۳؍۳۷۳ الأمین کتابستان دیوبند)
ویجب ردّ عینہ فی مکان غصبہ، لقولہ علیہ السلام: علی الید ما أخذت حتی ترد۔ ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یحل لأحدکم أن یأخذ مال أخیہ لاعبًا ولا جادًّا، وإن أخذہ فلیردّہ علیہ۔ (تبیین الحقائق / کتاب الغصب ۶؍۳۱۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر / کتاب الغصب ۴؍۷۸ غفاریہ کوئٹہ، وکذا في الرد المحتار / کتاب الغصب ۶؍۱۸۲ کراچی) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم 
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۵؍۱۱؍۱۴۲۶ھ 
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ 
------------
http://saagartimes.blogspot.com/2020/06/blog-post_44.html?m=1
----------
عکس: فتاوی حقانیہ

No comments:

Post a Comment