Sunday 7 June 2020

کیا میاں بیوی ایک دوسرے کے موبائل چیک کرسکتے ہیں؟

کیا میاں بیوی ایک دوسرے کے موبائل چیک کرسکتے ہیں؟

سوال: کیا شوہر کو یہ اجازت ہے کہ وہ اپنی بیوی کا موبائل چیک کرسکے اس کی اجازت کے بغیر، اگر بیوی یہ بولے آگے سے کہ پہلے آپ اپنا موبائل چیک کروائیں، پھر میں اپنا موبائل چیک کرواؤں گی؟ دین کی روشنی میں شوہر کے کیا حقوق ہیں اور بیوی پر کیا حقوق فرض ہیں؟
الجواب وباللہ التوفق:
واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے نکاح کی برکت سے میاں بیوی کی شکل میں جو رشتہ بطور نعمت عطا فرمایا ہے، اس کا مدار اعتماد اور بھروسے پر رکھا ہے، زوجین کا رشتہ اور تعلقات خوش گوار  رہنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کریں اور ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی سے بچیں، ایک دوسرے پر شک اور بدگمانی سے ازدواجی زندگی میں بہت بڑا بگاڑ آجاتا ہے، ایک دوسرے کے ظاہری احوال معلوم ہونے پر ہی اکتفا کرنا چاہئے اور آپس میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگ کر ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اور ایسے تمام امور سے بچنا چاہئے جو شک و شبہ کو جنم دے سکتے ہوں اور باہمی بداعتمادی کا باعث ہوں، چناں چہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو بغیر بتائے رات کے وقت  سفر سے گھر  لوٹنے سے بھی اجتناب کا حکم دیا ہے، من جملہ دیگر حکمتوں کے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کسی ایسی بات یا حالت پر مطلع نہ ہو جو اسے ناپسند ہو یا جس سے اعتماد کو ٹھیس پہنچے،  نیز اللہ رب العزت نے ٹوہ  لگانے اور تجسس سے منع فرمایا ہے، (1)  ارشاد باری تعالی ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا﴾ [الحجرات: ١٢]
ترجمہ: اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچا کرو؛ کیوں کہ بعضے گمان گناہ ہوتے ہیں اور سراغ مت لگایا کرو۔ (بیان القرآن)
نیز شریعتِ مطہرہ نے ہر شخص کو اپنی مملوکہ اشیاء کے استعمال میں آزاد رکھا ہے، اور اسے یہ حق دیا ہے کہ وہ دوسرے افراد کو اس سے کسی بھی قسم کے تصرفات سے روکے، اور دوسروں کو پابند کیا ہے کہ کسی کی کوئی بھی چیز مالک کی اجازت  اور اس کی رضامندی کے بغیر استعمال نہ کرے، پس صورتِ مسئولہ میں شوہر اپنے موبائل کا مالک ہے، جب کہ بیوی اپنے موبائل کی مالکہ ہے، لہذا ایک دوسرے کی اجازت کے بغیر  دوسرے کا موبائل استعمال کرنا جائز نہیں، اور ہر ایک کو روکنے کا حق حاصل ہے، نیز ملحوظ رہے کہ جس طرح سے ناجائز تعلقات استوار کرنا عورت کے لئے جائز نہیں، بالکل اسی طرح مرد کے  لئے بھی جائز نہیں، لہذا شک وشبہ اور بدگمانی میں مبتلا ہونے سے اپنے آپ کو بچانے کا اہتمام کریں، البتہ اگر بیوی غلط روش پر ہو، اور دلائل سے ثبوت بھی ہو یا قرائنِ قویہ موجود ہوں، تو اسے متنبہ کرنے کی اجازت ہوگی، تاہم زبردستی ایسی چیز تلاش کرنا غلط عمل ہے۔
حوالہ جات:
(1) فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:
باب لَا يَطْرُقْ أَهْلَهُ لَيْلًا إِذَا أَطَالَ الْغَيْبَةَ مَخَافَةَ أَنْ يُخَوِّنَهُمْ أَوْ يَلْتَمِسَ عَثَرَاتِهِمْ
الشرح‏:‏ قوله ‏(‏باب لا يطرق أهله ليلا إذا أطال الغيبة مخافة أن يتخونهم أو يلتمس عثراتهم‏)‏ كذا بالميم في ‏"‏يتخونهم وعثراتهم"‏ وقال ابن التين الصواب بالنون فيهما، قلت‏:‏ بل ورد في الصحيح بالميم فيهما على ما سأذكره وتوجيهه ظاهر، وهذه الترجمة لفظ الحديث الذي أورده في الباب في بعض طرقه، لكن اختلف في إدراجه فاقتصر البخاري على القدر المتفق على رفعه واستعمل بقيته في الترجمة، فقد جاء من رواية وكيع عن سفيان الثوري عن محارب عن جابر قال ‏"‏نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يطرق الرجل أهله ليلا يتخونهم أو يطلب عثراتهم"‏ أخرجه مسلم عن أبي بكر بن أبي شيبة عنه وأخرجه النسائي من رواية أبي نعيم عن سفيان كذلك، وأخرجه أبو عوانة من وجه آخر عن سفيان كذلك، وأخرجه مسلم من رواية عبد الرحمن بن مهدي عن سفيان به لكن قال في آخره‏"‏ قال سفيان‏:‏ لا أدري هذا في الحديث أم لا" يعني ‏"‏یتخونهم أو يطلب عثراتهم"‏ ثم ساقه مسلم من رواية شعبة عن محارب مقتصرا على المرفوع كرواية البخاري، وقوله ‏"‏عثراتهم بفتح المهملة والمثلثة جمع عثرة وهي الزلة، ووقع عند أحمد والترمذي في رواية من طريق أخرى عن الشعبي عن جابر بلفظ ‏"‏لا تلجوا على المغيبات فإن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم‏"‏ الحديث‏:‏ حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ طُرُوقًا الشرح‏:‏ قوله ‏(‏يكره أن يأتي الرجل أهله طروقاً‏)‏ في حديث أنس ‏"‏أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يطرق أهله ليلا، وكان يأتيهم غدوة أو عشية"‏ أخرجه مسلم، قال أهل اللغة‏:‏ الطروق بالضم المجيء بالليل من سفر أو من غيره على غفلة، ويقال لكل آت بالليل طارق ولا يقال بالنهار إلا مجازا كما تقدم تقريره في أواخر الحج في الكلام على الرواية الثانية حيث قال لا يطرق أهله ليلا، ومنه حديث ‏"‏طرق عليا وفاطمة"‏ وقال بعض أهل اللغة‏:‏ أصل الطروق الدفع والضرب، وبذلك سميت الطريق لأن المارة تدقها بأرجلها، وسمى الآتي بالليل طارقا لأنه يحتاج غالبا إلى دق الباب، وقيل أصل الطروق السكون ومنه أطرق رأسه، فلما كان الليل يسكن فيه سمى الآتي فيه طارقا‏.‏ الحديث‏:‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَطَالَ أَحَدُكُمْ الْغَيْبَةَ فَلَا يَطْرُقْ أَهْلَهُ لَيْلًا الشرح‏:‏ وقوله في طريق عاصم عن الشعبي عن جابر ‏"‏ إذا أطال أحدكم الغيبة فلا يطرق أهله ليلا ‏"‏ التقييد فيه بطول الغيبة يشير إلى أن علة النهي إنما توجد حينئذ، فالحكم يدور مع علته وجودا وعدما، فلما كان الذي يخرج لحاجته مثلاً نهارًا ويرجع ليلاً لايتأتى له ما يحذر من الذي يطيل الغيبة كان طول الغيبة مظنة الأمن من الهجوم، فيقع الذي يهجم بعد طول الغيبة غالبا ما يكره، إما أن يجد أهله على غير أهبة من التنظف والتزين المطلوب من المرأة فيكون ذلك سبب النفرة بينهما، وقد أشار إلى ذلك بقوله في حديث الباب الذي بعده بقوله ‏"‏كي تستحد المغيبة، وتمتشط الشعثة" ويؤخذ منه كراهة مباشرة المرأة في الحالة التي تكون فيها غير متنظفة لئلا يطلع منها على ما يكون سببا لنفرته منها، وإما أن يجدها على حالة غير مرضية والشرع محرض على الستر وقد أشار إلى ذلك بقوله ‏"‏أن يتخونهم ويتطلب عثراتهم" فعلى هذا من أعلم أهله بوصوله وأنه يقدم في وقت كذا مثلا لا يتناوله هذا النهي، وقد صرح بذلك ابن خزيمة في صحيحه، ثم ساق من حديث ابن عمر قال ‏"‏قدم النبي صلى الله عليه وسلم من غزوة فقال‏:‏ لا تطرقوا النساء، وأرسل من يؤذن الناس أنهم قادمون."‏ قال ابن أبي جمرة نفع الله به‏:‏ فيه النهي عن طروق المسافر أهله على غرة من غير تقدم إعلام منه لهم بقدومه، والسبب في ذلك ما وقعت إليه الإشارة في الحديث قال‏:‏ وقد خالف بعضهم فرأى عند أهله رجلا فعوقب بذلك على مخالفته ا هـ‏.‏ وأشار بذلك إلى حديث أخرجه ابن خزيمة عن ابن عمر قال ‏"‏نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تطرق النساء ليلا، فطرق رجلان كلاهما وجد مع امرأته ما يكره "‏ وأخرجه من حديث ابن عباس نحوه وقال فيه ‏"‏فكلاهما وجد مع امرأته رجلا"‏ ووقع في حديث محارب عن جابر ‏"‏أن عبد الله بن رواحة أتى امرأته ليلا وعندها امرأة تمشطها فظنها رجلا فأشار إليها بالسيف فلما ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم نهى أن يطرق الرجل أهله ليلا"‏ أخرجه أبوعوانة في صحيحه‏.‏ وفي الحديث الحث على التواد والتحاب خصوصا بين الزوجين، لأن الشارع راعى ذلك بين الزوجين مع اطلاع كل منهما على ما جرت العادة بستره حتى إن كل واحد منهما لا يخفى عنه من عيوب الآخر شيء في الغالب، ومع ذلك فنهى عن الطروق لئلا يطلع على ما تنفر نفسه عنه فيكون مراعاة ذلك في غير الزوجين بطريق الأولى، ويؤخذ منه أن الاستحداد ونحوه مما تتزين به المرأة ليس داخلا في النهي عن تغيير الخلقة، وفيه التحريض على ترك التعرض لما يوجب سوء الظن بالمسلم‏".
(2) وفي كتاب أبي داود عن معاوية قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم - يقول: إنك إن اتبعت عورات الناس أفسدتهم أو كدت تفسدهم فقال أبو الدرداء: كلمة سمعها معاوية من رسول الله صلى الله عليه وسلم نفعه الله تعالى بها. وعن المقدام بن معدي كرب عن أبي أمامة عن النبي صلى الله عليه وسلم  قال: (إن الأمير إذا ابتغى الريبة في الناس أفسدهم).
وعن زيد بن وهب قال: أتي ابن مسعود فقيل: هذا فلان تقطر لحيته خمرًا. فقال عبد الله: إنا قد نهينا عن التجسس، ولكن إن يظهر لنا شيء نأخذ به. 
فقط والله أعلم
------------------------------------------------------
میاں بیوی ایک دوسرے کا موبائل فون بغیر اجازت چیک نہیں کرسکتے: مفتی طارق مسعود کا فتویٰ
مفتی طارق مسعود نے فتویٰ جاری کیا کہ میاں بیوی بغیر اجازت ایک دوسرے کا موبائل فون چیک نہیں کرسکتے. انہوں نے کہا کہ کسی کی بھی ذاتی زندگی یا پرائیویسی میں دخل اندازی کرنا جائز نہیں ہے۔
شوہر کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کا موبائل بغیر اجازت دیکھنا شروع کردے ٹھیک ایسے ہی بیوی کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بغیر اجازت اپنے شوہر کا موبائل فون چیک کرے۔
مفتی طارق مسعود نے کہا کہ یہاں تک کہ کسی کا خط تک پڑھنا جائز نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سفر سے واپس لوٹو تو شہر میں داخل ہونے سے قبل اپنے اہل خانہ کو اطلاع دے دو کہ میں آرہا ہوں۔ جس کا مطلب ہے کہ اچانک گھر میں چھاپے مت مارو۔ اگر آپ کو بیوی پر شُبہ ہے تو اسے پہلے سے ہی بتادو کہ میں تمہاری نگرانی کررہا ہوں۔ مفتی طارق مسعود کا مکمل فتویٰ سُننے کے لیے ویڈیو ملاحظہ کیجئے:

No comments:

Post a Comment