شورش کاشمیری اختر شیرانی کا عشق رسول
اختر شیرانی اک بلانوش شرابی، محبت کا سخنور اور رومان کا تاجور تھا۔ لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں ایک دفعہ چند کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلاکے ذہین تھے رومانوی شاعر اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ بلانوش تھے. شراب کی دو بوتلیں وہ اپنے حلق میں انڈیل چکے تھے، ہوش وحواس کھوچکے تھے. تمام بدن پر رعشہ طاری تھا. حتی کہ دم گفتار الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زباں سے نکل رہے تھے۔ ادھر اختر شیرانی کی انا کا شروع ہی سے یہ عالم تھا کہ اپنے سوا کسی کو مانتے نہیں تھے۔ نجانے کیا سوال زیر بحث تھا فرمایا:
’’مسلمانوں میں اب تک تین شخص ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینیس (ذہن و فطین) بھی ہیں اور کامل فن بھی،
پہلے ابوالفضل،
دوسرے اسداللہ خان غالب،
تیسرے ابوالکلام آزاد۔ ۔
شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے ہمعصر شعراء میں جو واقعی شاعر تھے انہیں بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔ کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا، طرح دے گئے۔ ۔ ۔ جوش کے متعلق پوچھا، کہا:
وہ ناظم ہے۔ ۔ ۔ سردار جعفری کا نام لیا تو مسکرادیئے ۔ ۔ ۔ فراق کا ذکر چھیڑا تو ہوں ہاں کرکے چپ ہوگئے ۔ ۔ ۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا، فرمایا: مشق کرنے دو۔ ۔ ۔ ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا: نام سنا ہے۔ ۔ ۔ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا:
میرا شاگرد ہے۔ ۔ ۔
نوجوانوں نے جب دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں تو بحث کا رخ پھیردیا۔ کہنے لگے: حضرت فلاں پیغمبر علیہ السلام کے بارے میں کیا خیال ہے؟
آنکھیں مستی میں سرخ ہورہی تھیں، نشے میں چور تھے، زباں پر قابو نہیں تھا لیکن چونک کر فرمایا:
کیا بکتے ہو؟ ادب و انشاء یا شعر و شاعری کی بات کرو‘‘۔ ۔ ۔
اس پر کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا کہ اس کے مکالمات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے. فرمایا:
اجی! یہ پوچھو کہ ہم کون ہیں؟ یہ ارسطو افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے۔ ہمیں ان سے کیا غرض کہ ہم ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔
ان کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے شہ پاکر ایک ظالم کمیونسٹ نے چبھتا ہوا سوال کیا:
آپ کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ۔ ۔؟
اللہ اللہ! نشے میں چور اک شرابی۔ ۔ ۔جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ ۔ ۔بدبخت اک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ۔ ۔اک روسیاہ سے پوچھتا ہے۔ ۔ ۔ اک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے۔ ۔ ۔؟
غصے سے تمام بدن کانپ رہا تھا، اچانک رونا شروع کر دیا حتی کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا؟ تمہیں جرأت کیسے ہوئی؟ گستاخ! بے ادب
باخدا دیوانہ باش بامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوشیار
اس شریر سوال پہ توبہ کرو میں تمہارے خبث باطن کو سمجھتا ہوں۔ خود قہر وغضب کی تصویر ہوگئے۔ اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس نے بات کو موڑنا چاہا مگر اختر کہاں سنتے تھے۔ اسے محفل سے نکال دیا پھر خود بھی اٹھ کر چل دیئے۔ ساری رات روتے رہے کہتے تھے:
’’یہ لوگ اتنے بے باک ہوگئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں، میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنادینا چاہتے ہیں‘‘۔
رات کے تاریک سناٹوں کی پیداوار لوگ
میکدوں میں سیرت خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ نکتہ چیں
(ماخوذ: مضامین شورش ii۔ مجھے ہے حکم اذاں)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/06/blog-post_8.html?m=1
No comments:
Post a Comment