Friday 12 June 2020

طلاق مشروط ومعلق سے رجوع کا حق نہیں

طلاق مشروط ومعلق سے رجوع کا حق نہیں
-------------------------------
--------------------------------
کیا فرماتے ہیں حضرات علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلۂ ذیل کے بارے میں کہ زید نے دورانِ تکرار حالت غضب میں اپنی منکوحہ سے کہا کہ اگر تو شام تک میرے ساتھ نہیں گئی تو تجھے طلاق اور غصہ ختم ہونے کے بعد اپنے قول سے رجوع کر لیا نیز شام ہونے تک دونوں میں سے کوئی بھی نہیں گیا تو کیا مذکورہ صورت میں زید کی بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی یا نہیں نیز کیا زید کو اپنے قول سے رجوع کر نے کا اختیار ہے  مفصل ومدلل جواب مرحمت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔۔۔عین وکرم ہوگا ۔۔۔۔۔ 
فقط ۔۔۔ المستفتی: حافظ محمد امجد
الجواب وباللہ التوفق:
یمین فور کے لئے دلالت حال یا شوہر کی 'نیت فور' کا پایا جانا ضروری ہے بغیر دلالت حال یا نیت فور کے مطلق یمین طلاق کو یمین فور پہ محمول نہیں کیا جاسکتا. یہاں سوال میں ایسی کوئی دلالت حال نہیں ہے کہ بیوی فوری جانا چاہتی ہو جس پہ شوہر نے طیش میں آکر تعلیق طلاق کردی ہو. اگر اس طرح کی کوئی دلالت حالیہ ہو تو یمین یمین فور ہوگی اور تعلیق صرف اسی وقت تک محدود ہوکر رہ جائے گی۔ یہاں پانچ بجے شام کی صراحت قرینہ ہے کہ یہ یمین مطلقہ ہے فوریہ نہیں. یمین مطلقہ میں بلا دلالت و قرینہ تعلیق کو فور پہ محمول کرنا اور تھوڑی دیر بعد تعلیق کو غیر مؤثر قرار دینا درست نہیں ہے. 
(وشرطه للحنث في) قوله (إن خرجت مثلا) فأنت طالق أو إن ضربت عبدك فعبدي حر (لمريد الخروج) والضرب (فعلہ فورا) لأن قصده المنع عن ذلك الفعل عرفا ومدار الأيمان عليه وهذه تسمى يمين الفور تفرد أبوحنيفة رحمه الله بإظهارها ولم يخالفه أحد۔
وفی الرد تحته: مطلب في يمين الفور (قوله فورا) سئل السغدي بماذا يقدر الفور؟ قال بساعة ، واستدل بما ذكر في الجامع الصغير: أرادت أن تخرج فقال الزوج إن خرجت فعادت وجلست وخرجت بعد ساعة لا يحنث۔الخ۔
(الدرالمختار761/3)
طلاق کو اگر کسی شرط کے ساتھ مشروط ومعلق کردیا جائے تو وہ شرط پاتے ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے 
طلاق کو کسی شرط پہ معلق ومشروط کردینے کے بعد شوہر اس تعلیق سے رجوع نہیں کرسکتا 
شوہر نے شام تک اپنے ساتھ نہ جانے پر طلاق کو معلق کیا تھا. شام تک اگر بیوی نہ گئی تو ایک طلاق رجعی واقعی ہوجائے گی. شوہر کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے، البتہ آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق".
(ہند یہ ج 1، ص420، رشیدیہ) وتنحل الیمین اذا وجد الشرط مرۃً(الدر المختار علی ہامش رد المحتار باب التعلیق ۔ 352/3) 
بدائع الصنائع میں تعلیق طلاق کے ایک مسئلہ کے ذیل میں تعلیق میں عدم رجوع کی تصریح اس طرح آئی ہے:
والرجوع لا یصح والإثبات صحیح فبقیت فیتعلق طلاقها بالشرط۔ (بدائع الصنائع، کراچی 34/3)
یمین فور کے لئے دلالت حال یا شوہر کی 'نیت فور' کا پایا جانا ضروری ہے بغیر دلالت حال یا نیت فور کے مطلق یمین طلاق کو یمین فور پہ محمول نہیں کیا جاسکتا. یہاں سوال میں ایسی کوئی دلالت حال نہیں ہے کہ بیوی فوری جانا چاہتی ہو جس پہ شوہر نے طیش میں آکر تعلیق طلاق کردی ہو. اگر اس طرح کی کوئی دلالت حالیہ ہو تو یمین یمین فور ہوگی اور تعلیق صرف اسی وقت تک محدود ہوکر رہ جائے گی۔ یہاں پانچ بجے شام کی صراحت قرینہ ہے کہ یہ یمین مطلقہ ہے فوریہ نہیں. یمین مطلقہ میں بلا دلالت و قرینہ تعلیق کو فور پہ محمول کرنا اور تھوڑی دیر بعد تعلیق کو غیر مؤثر قرار دینا درست نہیں ہے. 
(وشرطه للحنث في) قوله (إن خرجت مثلا) فأنت طالق أو إن ضربت عبدك فعبدي حر (لمريد الخروج) والضرب (فعلہ فورا) لأن قصده المنع عن ذلك الفعل عرفا ومدار الأيمان عليه وهذه تسمى يمين الفور تفرد أبوحنيفة رحمه الله بإظهارها ولم يخالفه أحد۔
وفی الرد تحته: مطلب في يمين الفور (قوله فورا) سئل السغدي بماذا يقدر الفور؟ قال بساعة ، واستدل بما ذكر في الجامع الصغير: أرادت أن تخرج فقال الزوج إن خرجت فعادت وجلست وخرجت بعد ساعة لا يحنث۔الخ۔ (الدرالمختار761/3)
واللہ اعلم 

No comments:

Post a Comment