مولانا مفتی محمد نعیم رحمۃ اللہ علیہ کا خاندانی پس منظر
اہل دین کی بزم میں مفتی نعیم صاحب کی کمی بجا طور پر تادیر محسوس کی جاتی رہے گی۔ وہ اگلی شرافتوں کا نمونہ اور پرانی صحبتوں کا شب تاب چراغ تھے۔ ان کا دبنگ انداز، متحرک کردار اور سرگرم زندگی کے لیل و نہار ان کے اہل تعلق و ارادت کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی کامل مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
عنایت الرحمن شمسی
ادارتی صفحہ روزنامہ اسلام
(مفتی محمد نعیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم قاری عبدالحلیم رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے موقع پر لکھا گیا مولانا زاہدالراشدی صاحب کا تعزیتی کالم)
کراچی کے حالیہ سفر کے دوران جامعہ بنوریہ بھی جانا ہوا جو کراچی کے بڑے مدارس میں سے ہے اور اس کی دینی و تعلیمی سرگرمیوں کا دائرہ دنیا کے مختلف ممالک تک وسیع ہے۔ گزشتہ تین برس سے مجھے امریکا کی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں جانے کا موقع مل رہا ہے جہاں چشتیاں کے مولانا حافظ محمد اقبال صاحب ایک عرصہ سے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے تعلیمی و دعوتی پروگرام کا ایک حصہ مقامی ریڈیو پر دو گھنٹے کے ہفتہ وار پروگرام کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ مجھے اس پروگرام میں متعدد بار شریک ہونے اور ہیوسٹن میں مقیم مسلمانوں کے سامنے مختلف موضوعات پر گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ وہاں مجھے بتایا گیا کہ اس ہفتہ وار پروگرام کا ایک حصہ جامعہ بنوریہ کراچی کے تعاون سے چلتا ہے۔ جامعہ بنوریہ سے ریڈیو کا آن لائن رابطہ ہوتا ہے، لوگ سوالات کرتے ہیں جن کے جوابات یہاں سے دیے جاتے ہیں، اور جامعہ کے کوئی استاذ کسی موضوع پر بیان بھی کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ مجھے بہت پسند آیا ہے، اگر پاکستان کے بڑے تعلیمی ادارے اس طرز کے پروگرام منظم طور پر اور باہمی مشاورت و تقسیم کار کے ساتھ کریں تو اس کی افادیت بڑھ جائے گی اور غیرمسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی راہنمائی اور تعلیم کا خلاء بہت حد تک کم کیا جاسکے گا۔
جامعہ بنوریہ کے مہتمم مولانا مفتی محمد نعیم صاحب ہمارے پرانے دوست اور ساتھی ہیں اور ان کی تعلیمی سرگرمیاں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں ان کے والد محترم قاری عبدالحلیم صاحب کا انتقال ہوگیا تھا اور میں کراچی حاضری کے موقع پر ان کے پاس تعزیت کے لئے جانا چاہتا تھا۔ مولانا فداء الرحمان درخواستی سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں بھی گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے سفر پر تھا اور ابھی تک جامعہ بنوریہ نہیں جاسکا اس لئے اکٹھے چلتے ہیں۔ چنانچہ مولانا فداء الرحمان درخواستی اور راقم الحروف اکٹھے جامعہ بنوریہ گئے۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے جامعہ بنوریہ کے استاذ مولانا عبدالمجید صاحب کا اچانک انتقال ہوگیا ہے۔ وہ معمول کے مطابق اپنے کام کاج میں مصروف تھے، جامعہ سے تھوڑی دیر کے لئے گھر گئے، واپسی پر سیڑھیاں اترتے ہوئے کچھ تکلیف محسوس ہوئی مگر ڈاکٹر کے پاس پہنچنے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ کے حضور جا پہنچے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا مفتی محمد نعیم صاحب اور جامعہ کے دیگر اساتذہ سے مفتی صاحب کے والد قاری عبدالحلیم اور مولانا عبدالمجید رحمہم اللہ کے انتقال پر تعزیت کی اور کچھ دیر ان کے ساتھ ملاقات و گفتگو رہی۔
یہ بات اس سے پہلے میرے علم میں نہیں تھی کہ مولانا مفتی محمد نعیم کا تعلق ایک نومسلم خاندان سے ہے۔ اس کی کچھ تفصیلات معلوم ہوئیں تو مجھے حضرت مولانا عبیداللہ سندھی اور حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہم اللہ کا خاندان یاد آگیا کہ یہ بھی نومسلم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دعوت و تبلیغ اور دینی علوم کی نشر و اشاعت کے ذریعہ کے طور پر انہیں قبول فرمالیا اور آج دنیا میں ان کا فیض عام ہے۔ مفتی محمد نعیم کے والد مرحوم قاری عبدالحلیم بھی ایک نومسلم باپ کے بیٹے تھے، ان کے بارے میں جو تفصیلات مجھے بتائی گئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔
۱۹۳۴ء میں قاری عبدالحلیم رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم جمشید صاحب سوڈان میں کسٹم آفیسر کی حیثیت سے ملازمت کیا کرتے تھے۔ انہیں سوڈان میں اسلام قبول کرنے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے اسلام لانے سے قبل اسلامی تعلیمات کو پڑھا، اسلام کو خوب سمجھا اور پھر قبول کیا۔ انہیں اسلامی تعلیمات کو دیکھنے کے بعد احساس ہوا کہ اصل اور حق پر مبنی مذہب صرف اور صرف اسلام ہے۔ ان کا نیا اسلامی نام عبد اللہ رکھا گیا۔ جناب عبداللہ صاحب سوڈان سے انڈیا آگئے اور اپنی فیملی کو اپنے اسلام لانے کی اطلاع دی اور گھر والوں کو سمجھایا کہ تم بھی کلمہ حق پڑھ لو۔ اس پر ان کی والدہ، بہن، دو بیٹوں برجور (قاری عبدالحلیم) اور سہراب نے اسلام قبول کرلیا۔ لیکن ان کی خوشدامن کو اعتراض تھا اور خاندان کی بڑی ہونے کی حیثیت سے انہوں نے خاصی مشکلات میں ڈال دیا اور پھر وہی پریشانیاں رہیں جو عام طور پر نومسلموں کو پیش آتی ہیں۔
قاری عبدالحلیم صاحبؒ کا پارسی نام برجور تھا، بام خاندان سے تعلق تھا، اور اسلام لانے کے وقت ان کی عمر ۴ برس تھی۔ ان کی خوشدامن کٹر پارسی تھیں، انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول نہیں کیا بلکہ بائیکاٹ کیا اور کہا کہ یہ برجور جب سے پیدا ہوا ہے منحوس ہے اسی کی وجہ سے ہمارے گھر میں اسلام آیا۔ مشکلات، پریشانی اور حالات کے پیش نظر حیدر آباد دکن چلے گئے کیونکہ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ وہاں کے مسلمان بہت اچھے ہیں وہاں آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ چنانچہ بحمد اللہ حیدرآباد دکن کے مسلمانوں کے رویے سے ان کی والدہ بہت خوش ہوئیں، والدین نے اسلامی تعلیمات کے لئے قاری صاحب کو ڈابھیل کے ایک مدرسہ میں حفظ قرآن کے لئے داخل کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس مدرسہ میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی پڑھایا کرتے تھے۔ کون جانتا تھا کہ یہ چار سال کا بچہ اسلام لانے کے بعد اسلامی تعلیمات کو پورے عالم میں پھیلانے کا باعث ہوگا۔ حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کرنے کے بعد قاری عبدالحلیم صاحب مرحوم نے پہلی تراویح بمبئی بھنڈی بازار میں پڑھائی اور بمبئی میں ہی انہوں نے اسکول کی تعلیم حاصل کی۔
قاری صاحب مرحوم کے والد محترم جناب عبداللہ کا ویسے تو چند سال مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ آنا جانا لگا رہا لیکن آخری عمر میں نیت کرکے کہ میری موت وہیں واقع ہو اور مجھے مدینہ منورہ کے قبرستان میں دفنایا جائے، ۱۹۴۳ء سے مستقل مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اعزہ و اقربا و اولاد نے بار بار اصرار کیا کہ آپ پاکستان تشریف لائیں، کچھ عرصہ کے لیے آجائیں لیکن وہ بضد تھے اور کہتے تھے کہ میری موت کہیں اور واقع نہ ہوجائے۔
پاکستان بننے کے بعد یہ فیملی ۱۹۴۸ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئی۔ ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والی فیملی نے یہاں تیرہ سو گز کا بنگلہ اس زمانہ میں انتالیس ہزار روپے میں خریدا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ پیسے دے کر بنگلہ خرید رہے ہیں حالانکہ آپ کو ہندوستان سے بدحال کرکے بھیجا گیا ہے۔ قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم بغیر پیسے دیئے اس بنگلے میں سکونت اختیار کریں۔ پاکستان آنے کے بعد قاری عبدالحلیم رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے پہلی تراویح سولجر بازار کے علاقہ میں واقع مسجد قباء میں پڑھائی۔ ۱۹۵۳ء میں مکی مسجد میں تراویح پڑھانی شروع کی اور مسلسل تیرہ سال تک یہیں تراویح پڑھاتے رہے، اسی وجہ سے ان کا نام قاری عبدالحلیم مکی مسجد والے کے نام سے مشہور ہوگیا تھا۔ اس دوران مکی مسجد کی مسلسل ترایح میں قاری صاحب کی شخصیت اور مسحورکن آواز میں تلاوت قرآن سے متاثر ہوکر اس وقت کے تبلیغی جماعت کے بزرگ حاجی خدا بخش مرحوم نے اپنی بیٹی صدیقہ کا رشتہ طے کردیا اور اس رشتہ کے بعد ایک میواتی فیملی کا رشتہ دہلی پنجابی سوداگران سے طے پایا۔ حاجی خدا بخش مرحوم کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا اور وہ انتہائی نیک و صالح ومتقی تھے، ساری زندگی تبلیغی خدمات انجام دیں۔
قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے بھائی کے ہمراہ اس بنگلہ میں رہا کرتے تھے لیکن والدہ کی خواہش پر گارڈن کے علاقہ میں رہائش اختیار کی۔ تبلیغی جماعت کے ایک بزرگ بھائی ابراہیم عبدالجبار نے مزدوروں کے لئے چھوٹے چھوٹے مکان بنوائے تھے، ان میں سے ایک مکان قاری صاحبؒ کو کرایہ پر دے دیا گیا لیکن انہوں نے اس مکان میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں، چھوٹا سا مکان تھا، بجلی نہیں تھی، سخت گرمی میں گزارہ کرتے تھے۔ رہائش ناموافق ہونے کی بنا پر پرانا گولیمار میں رہائش اختیار کی لیکن یہاں فقط چھ مہینے کا عرصہ گزرا۔ پھر قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ کی ایک سہیلی نے اسٹار ملز کے مالک سے سفارش کرکے قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اسٹار ملز کالونی کے مدرسہ میں قرآنی خدمات پر مامور کیا۔ اسٹار ملز کی ورکرز کالونی میں ۲۱۰ مکانات تھے جن میں سے ایک مکان انہیں رہائش کے لئے دیا گیا جہاں وہ ایک لمبا عرصہ مقیم رہے۔
مجھے قاری عبدالحلیم مرحوم کی زیارت کا ایک بار موقع ملا ہے جب جامعہ بنوریہ کے قیام کے بعد میں پہلی بار وہاں گیا تو مولانا مفتی محمد نعیم صاحب نے ان سے میری ملاقات اور تعارف کروایا۔ مرحوم بلاشبہ اس دور میں ایک مثالی زندگی کے حامل بزرگ تھے اور خاص طور پر ایک نومسلم کے طور پر اسلام کی دعوت و تبلیغ کے شعبہ میں جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ قابل رشک ہیں۔ مولانا مفتی محمد نعیم اور ان کے زیر نگرانی چلنے والا ایک بڑا دینی ادارہ جامعہ بنوریہ کی صورت میں قاری عبدالحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور پسماندگان کو صبر وحوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
ممتاز عالم دین، روایت سے جڑے قدرے غیرروایتی آہنگ کے دینی پیشوا اور جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی کے مہتمم مولانا مفتی محمد نعیم بھی مختصر علالت کے بعد واصل بحق ہوگئے۔ مفتی محمد نعیم جد و جہد کا استعارہ تھے، انہوں نے اپنی زندگی دین کی تعلیم و تدریس میں کھپائی اور آخری سانس تک دین اسلام کی نشر و اشاعت کی محنت سے وابستہ رہے۔ حق گوئی اور بے باکی ان کی زندگی کا وصف خاص تھی، انہوں نے جس بات کو حق سمجھا، اس کے اظہار میں کسی ڈر و خوف کو حائل نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں غیر ملکی طلبہ کو پوری جرات سے جامعہ بنوریہ عالمیہ میں داخلے دیے، جب آمر پرویز مشرف نے غیر ملکی طلبہ کیلئے پاکستان میں دینی تعلیم کے دروازے بند کر دیے تھے اور پاکستان کا کوئی مدرسہ غیر ملکیوں کو داخلہ دینے کا "رسک" لینے کو تیار نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی جامعہ بنوریہ کو آج پاکستان میں یہ امتیازی مقام حاصل ہے کہ یہاں دنیا کے 50 سے زیادہ ملکوں کے طلبہ دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یہ اعزاز جامعہ بنوریہ کے سوا پاکستان کے کسی دوسرے دیوبندی مدرسے کو حاصل نہیں۔ مفتی نعیم غیرملکی طلبہ کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے تھے، جامعہ بنوریہ میں اس مقصد کے لئے انہوں نے خصوصی دلچسپی سے الگ شعبہ قائم کیا، اس شعبے میں اساتذہ کی بڑی تعداد بھی غیر ملکیوں کی ہے، جن میں زیادہ تر جامعہ بنوریہ کے فضلاء شامل ہیں۔
مفتی محمد نعیم کا ایک اور امتیازی کام نو مسلموں کی اعانت ونصرت ہے، چونکہ وہ خود ایک نو مسلم گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ان کے دادا پارسی (مجوسی- آتش پرست) سے مسلمان ہوئے تھے، اس لئے وہ نومسلموں کے مسائل اور مشکلات کو دوسروں سے زیادہ سمجھتے اور اس حوالے سے فکر مند رہتے تھے، چنانچہ انہوں نے نو مسلموں کی سرپرستی کے لئے اپنے مدرسے میں ایک شعبہ قائم کیا، جس کے تحت نو مسلموں کی تعلیم، قانونی جنگ، عائلی و سماجی مسائل اور گھر بسانے تک کی خدمات فی سبیل اللہ انجام دی جاتی ہیں۔ مفتی نعیم بائی برتھ جفاکش تھے، ان کے دادا اور والد نے بڑی مشکلات اور صعوبتیں اٹھائی تھیں، ان مشکلات نے انہیں کندن بنایا اور محنت و مشقت ان کے مزاج کا حصہ بن گئی، اسی محنت و لگن سے انہوں نے اپنے والد کے قائم کردہ ایک چھوٹے سے مدرسے کو ملکی و عالمی سطح کی جامعہ میں تبدیل کیا۔ گزشتہ کچھ عرصے میں دینی تعلیم و روایت سے جڑی کئی نامی گرامی شخصیات انتقال کرگئی ہیں، جو روحانی طور پر اہل دین کیلئے بہت نقصان کی بات ہے، اب مفتی صاحب بھی ایک ایسے وقت میں بزم رفتگان کا حصہ بن گئے، جب اہل دین ان کی رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتے تھے:
موت ہے ہنگامہ آرا قُلزمِ خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
بشکریہ: روزنامہ اسلام، لاہور ۳۰ جنوری ۲۰۱۰ء: ایڈیٹنگ: ایس اے ساگر
No comments:
Post a Comment