ندائے وقت
کلمہ گو مسلمانوں کے تمام فرقے ومسالک تمثیلِ نبوی کی روشنی میں ایک جسم کے مانند ہیں. اگر جسم کی قوت مدافعت مغلوب ہوجائے تو بیرونی جراثیم ووائرس اچھے بھلے تندرست وتوانا جسم انسانی کو بھی بیمار کر چھوڑتے ہیں.
ہم ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں ضرور ہیں؛ لیکن ہمارے مختلف اجزا میں ربط و تعاون کے فقدان اور ملی اتحاد وانضباط نہ ہونے کے باعث مسائل سے نمٹنے کی استعداد ہمارے اندر مفقود ہوچکی ہے.
ہمارے ملک میں مسلم اقلیت کے لئے اس وقت مسائل وحالات، مشکلات و پریشانیوں کا ایسا انبار لگا ہوا ہے جس کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.
ہمارے ملی وجود وجسم میں لگتا ہے قوت مدافعت انتہائی کمزور ہوچکی ہے.
اس لئے ہم تعداد میں کروڑوں، مال ودولت، اور علم وفن میں تسلیم شدہ صلاحیتوں، شہادتوں اور مہارتوں کے باوجود مسائل اور ظلم وجبر کا بری طرح شکار ہیں. اقوام وملل کے لئے قوت کا سرچشمہ 'اتحاد وبامقصد تنظیم' ہے. مرکزیت اور انضباط واتحاد کی جڑ تواضع یعنی دوسروں کو اپنے سے بَڑا تسلیم کرنا ہے. افسوس ہے کہ ہمیں دوسرے کو خود سے افضل مانتے ہوئے آج شرم آتی ہے. اس لئے ہر کوئی اپنے مزعومہ خول میں بند ہے.
بقول مفکراسلام علامہ علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ:
"اتحاد نام کی ایک دوسرے کو ملانے اور چپکانے والی چیز آج تک دنیا میں ایجاد نہیں ہوئی ہے."
یہ تو ناممکنات میں سے ہے کہ ملک کے سارے لوگ ایک رائے اور موقف پہ۔ چاہے وہ کتنا ہی صحیح وسچ کیوں نہ ہو۔ متفق ہوجائیں!
آپسی اختلافات کا ہونا لازمی و لابدی ہے وہ تو ہوتے آئے ہیں اور ہوتے ہی رہیں گے!
بیشمار ملی، ملکی، گروہی، مسلکی اور سیاسی اختلافات کے باوجود مشترکہ مفاد و مسائل کے لئے باہم متحد ومنضبط ہوکر متحدہ سعی وکوشش کرنے کو 'اتحاد' کہتے ہیں.
یہ اتحاد انسان کے اختیار اور بس کی چیز ہے.
دوسرے کو بڑا ماننے اور اجتماعی منافع و مسائل کے لئے باہم مل بیٹھنے میں ہمیں عار نہیں آنی چاہئے.
عقائد کے باب میں صلح کلی بننا اور ہواؤں کے رخ پہ منہج وموقف بدلتے رہنا یقیناً ممنوع اور بُرا ہے.
عقائد حقہ پہ پوری جرات کے ساتھ تصلب ہونا چاہئے
لیکن بنیادی نظریاتی اور مسلکی اختلاف رکھتے ہوئے بھی ہمارے جیسے ملک میں ادارے اور اشخاص سے ربط وضبط بحال رکھنا ملی وجود وبقاء کے لئے ضروری ہے.
کسی فرد یا ادارے سے نظریاتی اختلافات اس کی افادیت ونافعیت کو تسلیم کرنے میں مانع نہ ہونے چاہئیں. کسی گروہ سے چند فی صد اختلاف ہو تو اسے سو فی صد “مخالفت“ بناکر پیش کرنے اور تصادم و محاذ آرائی کی فضا پیدا کرنے سے اس ملک کے مسلمانوں کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔
ہمارے نظریاتی اختلافات سے دشمنوں کو تالیاں بجانے کا موقع نہ ملنا چاہئے. ملک کے موجودہ ماحول سے آنکھیں بند کرلینا اور فضا کو ہموار کرنے کی کوشش نہ کرنا طبقہ علماء کو زیبا نہیں.
اسلام اور مسلمانوں سے مربوط ومنسلک جماعتوں اور اداروں کے خلاف اس وقت تحریک چلانا یا سوشل مہم چھیڑنا ملت اسلامیہ کے پائوں پہ تیشہ چلانے کے مرادف ہوگا.
ملک کے موجودہ حالات میں کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے لئے منفی طریق کار کے بجائے مثبت طریقہ اپنانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، آپ کسی کی تردید نہ کرکے بھی معتدل انداز اور متوازن ومثبت اسلوب وپیرائے میں اپنی بات، اپنی فکر اور اپنا خیال پیش کرسکتے ہیں، اس طرح آپ کی صحیح بات فریق مخالف تک پہنچ جائے گی، آپ کی بات اگر صحیح ہوگی تو ان شآءاللہ رائج بھی ہوجائے گی۔
جو لوگ دورازکار ضمنی مسائل اور لاطائل قدیم فروعی مباحث سوشلستان پہ چھیڑکر افراد ملت کو الجھانے اور افتراق وانتشار کا نیا باب کھولنے کا کام کیا ہے. انہوں نے مناسب کام نہیں کیا ہے،
ملک کے نازک ترین وقت میں ساز چھیڑکر نغمہ سرائی کا موقع فراہم کرنا دور اندیش کام نہیں.
معاشرے میں رہتے ہوئے اتحاد باہمی کے شیشے پہ کبھی افتراق کا بال آجائے تو نہایت سبک گامی اور حکمت ومصلحت کے ساتھ اسے صاف کرنے یا کم از کم اسے بڑھاوا نہ دینے کی کوشش ہونی چاہئے
ہر کوئی 'سوا سیر' بننے اور اپنے مزاج وطبعیت کا سکہ چلانے کے فراق میں ہی رہے تو معاشرتی بے چینیوں کا زنجیری سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا
باہمی اختلاف، ضد اور انا کی نفسیات سے نکلنے، زمانہ شناسی اور موقع محل کی نزاکت کے ساتھ خوبصورت انداز میں آپسی ناہمواریوں کو حل کرنے کی ضرورت ہے.
متنازع موضوع پر اس حلقے میں اب کچھ بھی ترسیل، تعلیق، تبصرے وتجزیئے کی گنجائش نہیں ہے.
میں نے بوجھل دل کے ساتھ یہ سطور لکھے ہیں:
اسے کوئی رخ اور سمت دیئے بغیر غیر جانبدارانہ انداز میں چشم حقیقت کے ساتھ ملاحظہ کرنے کی خواہش کی جاتی ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مرکز البحوث الاسلامیہ العالمی
٢٤ شوال ١٤٤١ هجري
No comments:
Post a Comment