ناقابل برداشت منت فسخ کرکے کفارہ ادا کیا جاسکتا ہے؟
سوال: ایک عورت نے نذر مانی کہ جب تک، کرونا، ختم نہیں ہو گا میں روزے رکھتی رہوں گی. اب یہ تیسرا مہینہ چل رہا ہے اسے روزہ رکھتے ہوئے، کرونا کب تک ختم ہوگا کچھ معلوم نہیں. لہذا یہ عورت پریشانی میں مبتلا ہے. اس عورت کے لیے کیا حکم ہے؟ روزہ رکھنے کی اب اس میں طاقت نہیں ہے.
الجواب وباللہ التوفیق:
بغیر سوچے سمجھے اور بلاوجہ، غلبہ جوش وخروش میں نذر مان لینا بہتر نہیں ہے؛ کیونکہ انسان جوش میں منتیں مان تو لیتا ہے؛ لیکن بعد میں پوری کرنے سے عاجز آجاتا ہے. ضرورتیں پوری کروانے کے لئے منتوں کا سہارا لینے کو شریعت اسلامی بہتر نہیں سمجھتی، ایک تو اس سے کمزور یقین والوں کا ایمان خراب ہوتا کہ اللہ کی بجائے نذر ونیاز سے ہونے کا یقین پختہ ہوتا، دوسرے منتیں ماننے والا منتیں مان تو لیتا ہے لیکن بعد میں ایفاء نذر کی طاقت کھو دیتا ہے جس کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے۔ منت وغیرہ کے بجائے رجوع الی اللہ، توبہ، صدقہ، دعاء، استغفار اور نیکی کے دیگر راستوں کے ذریعہ اللہ پر بھروسہ کرکے حاجتیں پوری کروانی چاہئے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے:
نهَى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عن النَّذرِ، وقال: إنَّه لا يرُدُّ شيئًا، إنَّما يُستخرَجُ به من الشَّحيحِ (صحيح النسائي: 3811)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں سکتی، البتہ اُس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوالیا جاتا ہے)
لیکن جب نذر مخصوص لفظوں و صیغوں میں (صرف دل کے ارادے یا نیت سے منت منعقد نہیں ہوتی) مان لی جائے اور وہ نیکی اور طاعت کی جنس سے ہو، معصیت اور گناہ کا کام نہ ہو تو اسے پوری کرنا ضروری ہے. جس طرح طلاق کے ایقاع کے بعد واپس نہیں لی جاسکتی اسی طرح انعقاد نذر کے بعد اس میں رجوع ممکن نہیں ہے. اسے پوری کرنا لازم ہے.
{وَلْيوُفُوا نُذُورَهُم} {الحج: 29}
بخاری شریف میں ہے:
من نذر أن يُطِيعَ اللهَ فلْيُطِعْهُ، ومن نذرَ أن يعصِيَه فلا يَعْصِه (صحيح البخاري: 6696)
جو شخص اس بات کی نذر مانے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرے گا تو اسے اللہ تعالی کی اطاعت کرنی جاہیے یعنی نذر پوری کرنی جاہیے اور جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کرے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وکذا لو قال عليَّ حجة سواء کان النذر مطلقاً أو معلقاً بشرط بأن قال إن فعلت کذا فلِلّہ عليَّ أن أحج حتی یلزمه الوفاء إذا وجد الشرط۔ (عالمگیری، کتاب الحج، الباب السابع عشر فی النذر بالحج، ط زکریا: 327/1)
النذر لا تکفی فی إیجابه النية؛ بل لابدّ من التلفّظ به۔ (الأشباہ والنظائر ص: 89)
فرکن النذر: هو الصیغة الدالة علیه، وهو قوله: لِلّہ عزّ شانه علیّ کذا، أو عليّ کذا، وهذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة أو ما أملک صدقة أونحو ذٰلك۔ (بدائع الصنائع، کتاب النذر،، دار الکتب العلمیۃ بیروت 333/6)
والنذر فی معنی الطلاق والعتاق لأنه لا یحتمل الفسخ بعد وقوعه(أى بعد انعقاده) ۔ (البحرالرائق کتاب الصوم فصل فی النذر ،296/2. زکریا)
حتی المقدور نذر معین پوری کرے:
عن ابن عباس: أن رسول اللہ ﷺ قال: ومن نذر نذرا أطاقه فلیف به۔(سنن أبی داؤد، الأیمان والنذور، باب من نذر نذرا لایطیقه: 3322)
اگر کسی وجہ سے ایفاء نذر کی طاقت وقدرت نہ ہو تو نذر ختم کرنے کا متبادل حل شریعت میں موجود ہے. ناقابل تحمل و برداشت منت ختم کرکے اس کے بدلے قسم کا کفارہ ادا کرے: كفارةُ النذرِ كفارةُ اليمين (صحيح مسلم:1645) (نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے)
البحرالرائق میں ہے:
وَوَجْهُ الصَّحِيحِ حَدِيثُ مُسْلِمٍ {كَفَّارَةُ النَّذْرِ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ} وَهُوَ يَقْتَضِي السُّقُوطَ بِالْكَفَّارَةِ مُطْلَقًا فَتَعَارَضَا فَيُحْمَلُ مُقْتَضَى الْإِيفَاءِ بِعَيْنِهِ عَلَى الْمُنَجَّزِ، أَوْ الْمُعَلَّقِ بِشَرْطٍ يُرِيدُ كَوْنَهُ وَحَدِيثُ مُسْلِمٍ عَلَى الْمُعَلَّقِ بِشَرْطٍ لَا يُرِيدُ كَوْنَهُ لِأَنَّهُ إذَا عَلَّقَهُ بِشَرْطٍ لَا يُرِيدُهُ يُعْلَمُ مِنْهُ أَنَّهُ لَمْ يُرِدْ كَوْنَهُ الْمَنْذُورَ حَيْثُ جَعَلَهُ مَانِعًا مِنْ فِعْلِ ذَلِكَ الشَّرْطِ، مِثْلُ دُخُولِ الدَّارِ وَكَلَامِ زَيْدٍ; لِأَنَّ تَعْلِيقَهُ حِينَئِذٍ لِمَنْعِ نَفْسِهِ عَنْهُ بِخِلَافِ الشَّرْطِ الَّذِي يُرِيدُ كَوْنَهُ إذَا وُجِدَ الشَّرْطُ فَإِنَّهُ فِي مَعْنَى الْمُنَجَّزِ ابْتِدَاءً فَيَنْدَرِجُ فِي حُكْمِهِ وَهُوَ وُجُوبُ الْإِيفَاءِ، ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ هَذَا التَّفْصِيلَ، وَإِنْ كَانَ قَوْلَ الْمُحَقِّقِ فَلَيْسَ لَهُ أَصْلٌ فِي الرِّوَايَةِ ; لِأَنَّ الْمَذْكُورَ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ لُزُومُ الْوَفَاءِ بِالْمَنْذُورِ عَيْنًا مُنَجَّزًا كَانَ أَوْ مُعَلَّقًا، وَفِي رِوَايَةِ النَّوَادِرِ هُوَ مُخَيَّرٌ فِيهِمَا بَيْنَ الْوَفَاءِ وَبَيْنَ كَفَّارَةِ [ص: 321] الْيَمِينِ قَالَ فِي الْخُلَاصَةِ وَبِهِ يُفْتَى فَتَحَصَّلَ أَنَّ الْفَتْوَى عَلَى التَّخْيِيرِ مُطْلَقًا وَلِذَا اُعْتُرِضَ فِي الْعِنَايَةِ عَلَى تَصْحِيحِ الْهِدَايَةِ ا هـ . (321/4: البحرالرائق)
قسم کے کفارے کا بیان قرآن میں یوں ہے:
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (المائدۃ: 89)
(اللہ تمہاری بے مقصد قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو سنجیدہ قسمیں تم کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا، پس اس (قسم توڑنے) کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑا پہنانا یا غلام آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن روزے رکھے، جب تم قسم کھاؤ (اور اسے توڑ دو) تو یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اللہ اسی طرح اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو.)
واللہ اعلم بالصواب
۳ مئی ۲۰۲۰
No comments:
Post a Comment