Thursday, 18 June 2020

مدرسوں میں بیرونی طلبہ رکھنے کیلئے ایک معیار قائم ہو؟

مدرسوں میں بیرونی طلبہ رکھنے  کیلئے ایک معیار قائم ہو؟

 ہمارے اسلامی مدرسے بغیر بیرونی طلبہ کے ایسے ہیں جیسے بغیر پانی کی مچھلی؟ کچھ لوگوں سے بیرونی طلبہ کو رزق العلما کہتے ہوئے بھی سنا گیا! ذرا تصور کیجئے کہ ہمارے اداروں میں اگر باہر کے بچے نہ ہوں تو شاید ہمارے علماء کو فاقہ کی نوبت آجائے!
قوم کی ذہنیت کو اس قدر بگاڑ دیا گیا ہے کہ زکواۃ، صدقات اور دیگر عطیات کو انہی مدرسوں میں دینے سے ڈبل ثواب اور دوہرا اجر ہے جہاں مہمانان رسول (بیرونی طلبہ) زیر تعلیم ہوں؟ 
جس کے نتیجے میں ہندوستان کے تمام مکاتب جو کبھی ہمارے لئے فرضیت کا درجہ رکھتے تھے جن کو ہمارے بزرگوں نے اپنے خون وجگر سے سینچا تھا وہ مکاتب ختم ہوکر چھوٹے چھوٹے بے مقصد اور بغیر ضرورت مدرسوں میں تبدیل ہوگئے اور یہ عمل اس قدر پروان چڑھا کہ جہلا بشکل علماء اور بڑے بڑے زکواۃ مافیا بغیر ضرورت مدارس کے قیام کے مہم میں لگ گئے اور بتدریج فکر نانوتوی اور مدارس کے قیام کا مقصد فوت ہوکر صرف ایک منافع بخش کاروبار اور تجارت تک محدود ہوکر رہ گیا ہے؟
بغیر ضروت مدرسوں کی کثرت کیلئے قوم کا ذہن بنادیا گیا ہے اسے چلانے کیلئے مالی فراہمی بھی کرلی جاتی ہے مگر قوم کے بچوں کا ذہن مدرسوں میں پڑھنے کیلئے بنانے میں ابھی تک اہل مدارس ناکام ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب ان مدرسوں سے ایسے حضرات فارغ التحصیل نہیں ہورہے ہیں جو دینی یا دنیاوی لحاظ سے کامیاب ہوں جن کو دیکھ کر قوم میں رغبت پیدا ہو کہ وہ اپنے بچوں کو بھی مدارس میں داخل کروائیں؟
یہی وجہ ہے کہ اہل مدارس کو رمضان المبارک میں جس طرح فراہمی مالی کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے اسی طرح شوال المکرم میں بھی فراہمی طلبہ کیلئے بھی محنت کرنی پڑتی ہے. اس مہینے میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃالعلما لکھنؤ جیسے ملک میں پھیلے ہوئے مرکزی اداروں کے گیٹوں پر بہت پرکشش اعلانات چسپاں نظر آتے ہیں کہ آپ مایوس نہ ہوں، خدا نہ کرے کہ آپ اس مرکزی ادارہ میں داخلہ سے محروم ہوں تو ہمارا مدرسہ آپ کیلئے سراپا خدمت بنا ہوا ہے ہمارے مدرسے میں قیام وطعام اور ناشتہ کا معقول انتظام کے ساتھ ماہانہ معقول وظیفہ، بہترین علاج و معالجہ کے ساتھ سالانہ وظیفہ پارچہ وپاپوش بھی دیا جاتا ہے. اس طرح کے اعلانات سے آج کل ہمارے مدارس آباد ہورہے ہیں؟
آج ہمارے مدرسوں کے مدرسین کا معیار بھی اس قدر گرگیا ہے کہ قابلیت اور استعداد سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس مدرس کے معرفت کتنا چندہ اور کس قدر طلبہ دستیاب ہیں!
ہمارے مدرسوں میں اس قدر علاقائیت، تنگ نظری، اور عصبیت ہے کہ بہار کے علماء اگر دہلی یا کسی شہر میں  مدرسہ چلارہے ہیں تو علاقائی مدرسین کا تقرر نہیں کریں گے بلکہ اپنے علاقے (بہار) کا ہی مدرس رکھیں گے. اسی طرح دیگر علاقے والے بھی بہار کے علماء کو اپنے یہاں درس وتدریس پر مامور کرنے سے کتراتے ہیں. ہاں اگر وہ مدرس اپنے علاقے سے بیرونی طلبہ کو لاتا ہے تو اس کا نہ صرف اپنے یہاں تقرر کریں گے بلکہ اس کی نازبرداری بھی کریں گے ذمہ داران مدارس کو ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ یہ مدرس اور اس کی معرفت آئے ہوئے بچے نہ جانے کب ہمارے ادارے کو ویران کرکے کسی دوسرے مدرسے کا رخ نہ کرلیں!
اسی طرح بہار کے مدرسین بھی بہت خود غرض ہوتے ہیں. مدرسوں میں ان کے علاقے کے طلبہ کے ساتھ استحصال ہو، ان کی تعلیم کے ساتھ کھلواڑ ہو، ان کا مستقبل تاریک ہو، انتظامیہ کے ذریعہ ان طلبہ سے دن بھر قرآن خوانی کروائی جائے، یا سبزی منڈی سے سبزی منگوائی جائے، یا ان کے ہاتھوں میں کوپن تھماکر چندہ کروایا جائے، اس سے ان مدرسین کا کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے. جب ان کی زمین سرکتی نظر آتی ہے یا ان کا مفاد خطرے میں پڑتا ہے تب یہ حرکت میں آتے ہیں پھر ان کو طلبہ کے مستقبل کا فکر بھی ستانے لگتا ہے؟
ایسے خودغرض مدرسین اپنے مفاد اور اپنی معقول تنخواہوں کے لئے اپنی اس قابلیت اور صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں جس کی بنیاد پر ان کا تقرر ہوا تھا. وہ اپنے صوبہ بہار سے کثیر تعداد میں طلباء کو لاکر اپنے مدرسے کو آباد کردیتے ہیں! 
 معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بہار خاص کر سیمانچل کے اضلاع میں مستقل کئی گروہ سرگرم ہیں. وہ دوردراز کے مدرسوں کے لئے طلبہ کی فراہمی کا کام انجام دیتے ہیں. اس کے لئے ان مدارس کے ذمہ داروں سے اخراجات سفر کے علاوہ فی طالب علم مناسب معاوضہ بھی طے ہوتا ہے اور یہ لوگ بچوں کے والدین سے بھی کرایہ اور اخراجات کے نام پر ایک خطیر رقم جھٹک لیتے ہیں. یہ گروہ بھولے بھالے مسلمانوں کے بچوں کا شاندار مستقبل کا خاکہ کچھ اس انداز سے پیش کرتے ہیں ان کی تعلیمی فلاح و بہبود کو ایک حسین خواب کی طرح سجاکر طلبہ کے سرپرستوں کے سامنے رکھتے ہیں جس سے وہ لوگ اپنے جگر کے ٹکڑوں کا مستقبل ان لٹیروں کے حوالہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں؟ 
 شوال اور ذیقعدہ کے موقع پر ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں کہ آج فلاں ریلوے اسٹیشن پر جی آر پی والوں نے سیکڑوں بچوں سمیت دو آدمیوں کو بچہ چور سمجھتے ہوئے گرفتار کرلیا ہے، بعد میں جمیعۃ علمائے ہند یا علاقائی کسی تنظیم کی مداخلت سے ان طلباء کو رہا کروالیا جاتا ہے کچھ والدین اور سرپرست حضرات کو دوردراز کے دیگر صوبوں کے مدارس میں اپنے بچوں کا مستقبل تابناک نظر آتا ہے اور بعض لوگ اپنے بچوں کو دوردراز کے دیگر صوبوں کے شہروں میں تعلیم کے لئے بھیجنے میں فخر محسوس کرتے اور اپنی عزت سمجھتے ہیں. ظاہر سی بات ہے کہ ان کی سوچ کو ایسا بنانے میں ان مدرسین کا ہاتھ ہے جو اپنی معقول تنخواہوں اور مناسب مدرسوں میں جگہ پانے کیلئے اپنے علاقے کے مدرسوں کو ویران کرتے ہیں. میری اس تحریر کا محور ہندوستان کے سب مدارس اور بہار کے تمام مدرسین نہیں ہیں یقینا ہندوستان میں بیشمار معیاری مدارس اور بہار کے قابل نیک اور صالح مدرسین بھی ہیں. میری تحریر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا مقصد مدارس کے آڑ میں اپنا کاروبار چلا نا ہے؟
یہی وہ اسباب وعوامل ہیں کہ جس کی وجہ سےصوبہ بہار کے طلبہ ہندوستان کے تمام مدرسوں کیلئے صرف خوراک بن کر رہ گئے ہیں!
ابھی حالیہ ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے بہار کے کروڑوں مزدور اور لاکھوں مدارس کے طلبا لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنس گئے تھے ٹرینیں بند، بسیں بند، تمام سواریاں بند، سفر کرنےکا کوئی انتظام نہیں تھا. لاکھوں مزدوروں کو اپنے سر پر گھٹر لاد کر پیدل بہار جاتے ہوئےبھی دیکھا گیا ہے!
ایسے نازک گھڑی اور لاک ڈاؤن کے شروعاتی دور میں جمیعۃ علماء ہند کی مدد سے ٹریویلس کے مشہور تاجر مولانا ذہین مدنی نے فی طالب علم تین ہزار سے پینتیس سو روپے لیکر ڈی لکس بسوں کو کرایہ پر لیکر دیوبند میں پھنسے ہوئے ان ہزاروں طلبہ کو ان کے وطن بہار اور سیمانچل کے اضلاع میں پہنچایا!
جمیعۃ علماء ہند کی مدد سے ملک کے طول وعرض کے مدارس میں پھنسے ہوئے بہار کے دیگر طلبہ کو بھی شاید وہ اسی طرح قبل از وقت انکے گھر پہنچانے کا نظم کرتے لیکن ان کو بدنام کرنے کی کوشش گئی ان کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ان کے خلاف تحریر لکھ کر ان کی ایک اچھی کوشش کو سبوتاژ کیا گیا. میں مولانا ذہین مدنی سے واقف نہیں ہوں اور نہ ہی میں ان کا کسی طرح کا سپورٹر ہوں بلکہ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ انصاف کی بات کی جائے! عام دنوں میں بس والے سیمانچل سے دہلی کے لئے لگ بھگ ڈھائی ہزار کرایہ لیتے ہیں! 
ابھی دہلی ممبئی وغیرہ سے ٹرک کے ذریعہ بہار اور سیمانچل کے مزدوروں نے فی کس پانچ ہزار روپے دیکر ٹرکوں میں بھیڑ اور بکریوں کی طرح ٹھوس کر اور دائیں بائیں لٹک جھٹک کر بہار گئے تھے. ایک ٹرک والے سے جب اس سلسلے میں  بات کی گئی کہ آپ لوگوں نے مزدوروں سے اتنی موٹی رقم لیکر سالہاسال کی کمائی کرلی ہوگی تو اس نے جواب دیاکہ ہماری گاڑی کا پرمیشن (پاس) اور تمام کاغذات درست تھے. اس کے باوجود بھی ہرجگہ چیک پوشٹ پر کچھ نہ کچھ چڑھاوا چڑھانا پڑا تھا. اس لئے کچھ خاص بچت نہیں ہوئی ہے جب پانچ ہزار روپے لیکر سواریوں کو بھیڑ بکری کی طرح لاد کر لیجانے والوں کو کچھ نہیں بچا تو بھلا تین ہزار یا پینتیس سو روپے لیکر سب کو آرام سے سیٹ پر بٹھاکر لیجانے میں کیا بچا ہوگا؟
12 مئی کو جب ٹرینیں (اے سی) چلیں تو کچھ طلباء اور مدرسین نے پینتیس سو روپے کا ٹکٹ بک کرکے اپنے گھروں کو گئے تھے ابھی بنگلور سے خصوصی ٹرین کے ذریعے سیمانچل کے سینکڑوں طلبہ جن کو ارریہ جانا تھا مگران کو مدھوبنی ریلوے اسٹیشن پر اترنا پڑا اور 15 کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد ان کو ارریہ کی بس ملی، سہارنپور سے اسپیشل ٹرین چلنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے. مختلف مدارس کے سیکڑوں طلباء روزانہ بہار کے لئے روانہ ہورہے ہیں. ملک کے مختلف بڑے شہروں سے روزانہ ریل گاڑیاں روانہ ہورہی ہیں اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں بہار کے طلبہ اپنے گھر جارہے ہیں. ابھی چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کے مدرسوں میں بہار کے طلبہ کی ایک کثیر تعداد پھنسی پڑی ہے. ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے!
اگر اس وقت دیکھا جائے تو بہار میں علماء کی کمی تو نہیں ہے مگر مدرسوں کی قلت اور اس میں بیرونی طلبہ کا شدید بحران ضرور ہے اور بعض ایسے پسماندہ علاقے ہیں جہاں مدرسوں کے قیام کی سخت ضرورت ہے مگر بہار کے علماء اپنے علاقے میں نہ جانے کیوں رہنا پسند نہیں کرتے. دوردراز کا رخ طے کرتے ہیں. اسی میں اپنی عزت اور برتری سمجھتے ہیں. اس وقت ملک کے طول وعرض میں مدارس کا بلاضرورت جو جال بچھا ہوا ہے اس میں علمائے بہار کا مرکزی کردار ہے جبکہ ان کی اپنے علاقے کی جانب بالکل توجہ نہیں ہے. ہم نے جب وہاں کے مدرسوں کے ذمہ داروں سے بات چیت کی تو انہوں نے درد بھرے لہجے میں یہی شکایت کی کہ ہمارے مدرسوں میں پڑھنے والے طلبہ زیادہ تر سہولیات کے پیش نظر دیگر صوبوں کے مدارس میں چلے جاتے ہیں اور ذی استعداد اور باصلاحیت علما بھی اچھی تنخواہوں کے چکر میں دیگر صوبوں کے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں. ان کی توجہ اپنے علاقہ پر بالکل نہیں ہوتی ہے اور اس طرح بہار کا یہ صوبہ دینی تعلیم کے معاملہ میں بہت پسماندہ ہے. اس لئے علماء بہار کو چاہئے کہ وہ اپنے علاقے پر بھی توجہ دیں. نئے فضلا اپنے علاقے کے لوگوں کو سیراب کریں. ان کی علمی تشنگی بجھائیں، جگہ جگہ علم کی قندیلیں روشن کریں. جہاں مدرسوں کی ضرورت ہو وہاں مدرسے قائم کریں اور اپنے علاقے کا حق نبھاتے ہوئے وہاں پر دینی خدمت انجام دیں اور ایسے عناصر پر سخت لگام کسیں جو بھولے بھالے مسلمانوں کے بچوں کو بہلاپھسلا کر ہندوستان کے تمام مدرسوں کی خوراک بنارہے ہیں علماء بہار اس سلسلے میں اپنے سر جوڑکر بیٹھیں. اپنے صوبہ میں علم کی روشنی پھیلانے کیلئے مناسب حکمت عملی اور ٹھوس منصوبہ تیار کریں!
اسی طرح اکابرین دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلما لکھنؤ، مظاہرالعلوم سہارنپور، امارت شریعہ بہار، دونوں جمیعتیں اور دیگر سرکردہ شخصیتیں اور ادارے کسی بھی مدرسے کو اپنی تصدیق دینے سے قبل علاقے کے متدین لوگوں سے معلومات اور تصدیق کریں! ایسے  قواعد وضوابط بنائیں جس سے، انہی مدارس کو بیرونی طلبہ رکھنے کا حق دیا جائے جن کے پاس باضابطہ ہاسٹل کی سہولت ہو، طلبہ کیلئے کشادگی کے ساتھ معقول رہائش کا نظم ہو، ان کے کھیلنے کودنے اور ہوا خوری کے لئے جگہ ہو، صفائی وستھرائی کا انتظام ہو مہمان خانہ اور لائبریری وغیرہ بھی ہو! 
تاکہ ایک دو کمروں پر مشتمل مکتب نما مدرسوں کے کھلنے پر قدغن لگے، شہروں اور قصبات میں کرایہ پر کمرہ لیکر مدارس کے قیام کا سلسلہ بند ہو، اس طرح کے مدرسوں کا قیام کا مقصد اخلاص پر کم کاروبار کیلئے زیادہ ہوتا ہے. بیرونی پندرہ سے بیس طلبہ کا داخلہ لیکر ان سے سبزی منڈیوں سے سبزیاں منگوائی جاتی ہے، ان کے ہاتھوں میں مدرسے کا کوپن تھماکران سے چندہ کروایا جاتا ہے، سر پرقران کے پاروں کا بکس لاد کر قرآن خوانی کیلئے دوڑادیا جاتا ہے. ایسے ادارے ملت کے لئے جگ ہنسائی اور بدنامی کا ذریعہ بن رہے ہیں. ان پر ہرممکن روک لگنی چاہئے؟
جو لوگ اخلاص سے اس طرح کا مدرسہ قائم کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے علاقے اور گاؤں میں جاکر اس طرح کا مدرسہ قائم کریں ورنہ ان کو قوم و ملت کو بدنام کرکے یوں کمانے کھانے نہیں دیا جائے گا ؟؟؟؟

بقلم: حضرت مولانا اعجاز احمد خان رزاقی القاسمی قومی صدر آل انڈیا علماء کونسل دہلی، رابطہ نمبر 9315147393 /9891292113

No comments:

Post a Comment