ذکر مال اور قضاء قاضی کے بغیر خلع؟
-------------------------------
--------------------------------
سوال: ایک عورت شوہر سے خلع کا مطالبہ کر رہی تھی پھر یہ معاملہ پولیس اسٹیشن تک جاپہنچا پولیس اسٹیشن میں بھی عورت نے مطالبہ کیا تو شوہر نے کہہ دیا کہ میں نے خلع دے دیا دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ خلع جبکہ درمیان میں عوض کا تذکرہ نہیں ... آیا برائے کرم باحوالہ جواب عنایت ابھی یہ معاملہ چل رہا ہے
2. ایک مولانا صاحب کا کہنا ہے کہ عوض کا تذکرہ ہونا ضروری ہے بغیر اسکے خلع نہیں ہوتا اور ایک صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ خلع میں ایک جماعت یا قاضی کا ہونا ضروری ہے اسلیے مذکورہ بالا مسئلہ میں خلع نہیں ہوا برائے کرم آپ اپنے الفاظ میں ان دونوں شقوں کی وضاحت فرمائیں اور اگر یہ دونوں شقیں غلط ہیں تو تردید فرمادیں.
.................................................
الجواب وباللہ التوفیق:
لغت کے اعتبار سے خلع کے معنی ہیں اتارنا، نزع کرنا، میاں بیوی کو قرآن نے ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے (ھن لباس لکم وانتم لباس لھن۔ البقرہ 187) خلع کے ذریعہ اس لباس ازدواجی کو اتار دیا جاتا ہے اس لئے اس کو خلع کہتے ہیں۔ ارشاد الساری للقسطلانی 40/12۔
خلع کی اصطلاحی اور شرعی تعریف مختلف الفاظ میں علماء نے کی ہے۔علامہ عینی نے "هو فراق الرجل امرأته على عوض يحصله" سے، اور بعض علماء نے "إزالة الزوجية بماتعطيه من المال." سے، علامہ حصکفی نے "ازالة ملك النكاح الموقوفة على قبولها بلفظ الخلع او ما في معناه" سے، اور بعض نے "مفارقة الرجل امرأته" سے کی ہے۔
یعنی شوہر کا عورت سے کچھ لے کر اس کو آزاد کردینے کو شریعت میں خلع کہتے ہیں۔ عمدة القارئ 260 /20...الدر المختار على هامش ردالمحتار 57/2.۔قواعد الفقہ 281۔
علامہ ابن القیم جوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ باری تعالی نے خلع کے لئے فدیہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے
"فلاجناح علیہما فیما افتدت بہ" جو اس بات کو بتاتا ہے کہ خلع میں معاوضہ کے معنی موجود ہیں۔ زاد المعاد 196/5 ۔۔۔ خلع کے مفہوم کے لئے 4 الفاظ قریب المعنی استعمال ہوئے ہیں:
1 ۔۔ خلع ۔
2 ۔۔ طلاق علی مال۔
3 ۔۔ فدیہ۔
4 ۔۔ مبارات ۔
حافظ نے فتح الباری 403/9 میں، قرطبی نے اپنی تفسیر 145/3 میں، اور علامہ ابن رشد مالکی نے بدایة المجتہد 50/5 میں ان چاروں الفاظ کے بیچ فرق واضح فرمایا ہے کہ، "کل مہر کو بدل مقرر کرنا خلع ہے۔ جزء مہر کو بدل مقرر کرنا فدیہ ہے۔ اور عورت کا شوہر کے ذمہ سے ہر ایسے حق کو ساقط کردینا جو نکاح کے ساتھ تعلق رکھتا ہو مبارات ہے۔ اور مہر سے قطع نظر کرکے مقدار مقرر کرکے طلاق دینا 'طلاق علی المال ہے۔
لہذا لفظ خلع کے ذریعہ اگر خلع کیا جائے تو امام اعظم حضرت ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک زن و شوہر ایک دوسرے کے ذمہ نکاح کے سلسلہ میں واجب الاداء جملہ حقوق سے بری ہوجائیں گے۔چاہے تمام حقوق یا صراحت کے ساتھ مخصوص حقوق سے برات کا ذکر نہ ہوا ہو!
مگر دوسرے فقہاء کے نزدیک تعیین وتحدید کے ساتھ فریقین جن حقوق سے دستبرداری کی صراحت کی ہے صرف ان ہی سے بری الذمہ ہوسکیں گے۔ ہدایہ جلد 2۔ باب الخلع۔الفقہ الاسلامی وادلتہ 506/7۔
اسی بنا پر اگر مرد صرف اتنا کہدے کی میں نے تجھ سے خلع کیا 'جیساکہ سوال میں مذکور ہے اور عورت نے قبول کرلیا۔ روپے پیسے کا کوئی ذکر نہیں آیا تو بھی خلع صحیح ہوجائے گا اور زوجین کے ایک دوسرے پر سے سارے حقوق معاف ہوجائیں گے۔ البتہ انقضاء عدت تک نفقہ کسوہ اور سکنی شوہر کے ذمہ واجب ہے۔ ہاں اگر عورت اس سے بھی بصراحت دستبردار ہوجائے تو گنجے کے ذمہ سے یہ بھی معاف! ۔
خلع کے لئے قاضی سے رجوع کرنا ضروری نہیں۔ خلع بھی طلاق یے۔ طلاق کا اختیار مرد کو ہے تو خلع کا اختیار بھی مکمل اورمستقلا اسی کو ہوگا۔ اس میں قاضی کے اختیارات کا کوئی دخل نہیں۔ مالکیہ کے یہاں قاضی یا اس کےمقرر کردہ حکم کو ایک گونہ خلع کا اختیار دیا گیا ہے۔ المغنی 246/7۔ احکام القرآن للجصاص 192/2۔احکام القرآن للقرطبی 176/5
واللہ اعلم بالصواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلع کی گنجائش کب ہے؟ غرامت مالیہ کا شرعی حکم کیا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اگر زوجین میں نباہ کی صورت نہ ہو، بیوی خلع لینے پر مصر ہو تو زوج حامد کی رضا کی شرط کے ساتھ طلاق بالمال (خلع) کی شرعی گنجائش ہے. شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع نہیں ہوسکتا. غرامت مالیہ یا تعزیر بالمال شرعا جائز نہیں ہے. اگر زجر وتوبیخ کے لئے مالی جرمانہ پنچایت نے وصول کیا ہو تو اسے پہر بعد میں لوٹانا ضروری ہے. مالی جرمانہ وصولنا اور اسے خرچ کرلینا شرعا ناجائز ہے:
"التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال'' شرح الآثار (4/61)
واللہ اعلم بالصواب
۹ شوال ١٤٤١ ہجری
No comments:
Post a Comment