Tuesday 7 July 2020

تعریف قربانی، تاریخ، حیثیت، فضائل اور احکام ومسائل

تعریف قربانی، تاریخ، حیثیت، فضائل اور احکام ومسائل 
-------------------------------
--------------------------------
 قربانی کسے کہتے ہیں اور وہ کب سے ہے؟  
اللہ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ایام نحر (دس، گیارہ، بارہ ذی الحجہ) میں مخصوص اوصاف کے  حلال جانور ذبح کرنے کو "اضحیہ" یعنی' قربانی' کہتے ہیں۔
قربانی محبت خداوندی، عشق الہی اور جذبہ انقیاد، اطاعت و بندگی کا مظہر ہے۔ 
تقرب الہی کے لئے دی جانے والی جانوروں کی یہ قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی چلی آرہی ہے، سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل نے قربانی دی:
اِذْقَرَّ بَاقُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔ (المائدہ27)
ترجمہ:۔ ”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجئے جب ان میں سے ہر ایک نے اللہ کے لئے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ کی روایت کے بموجب ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔ (تفسیر ابن عباس سورہ المائدہ)
قرآن کریم کی اس تصریح سے واضح ہے کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم علیہ السلام کے زمانے سے ہی مشروع  ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہر ملت میں تسلیم شدہ رہی ہے؛ ہاں! اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی، اور اسی کی یادگار کے طور پراُمتِ محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔
 اسلام میں قربانی کی حیثیت کیا ہے؟ 
قربانی کے شعار اسلام ہونے پہ امت کے تمام ہی ائمہ متبوعین کا اتفاق واجماع ہے؛ البتہ اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں ائمہ مجتہدین کی آراء مختلف ہیں۔ 
حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ایک قول کے مطابق صاحب استطاعت کے لئے قربانی کو واجب کہتے ہیں، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر علماء اسے سنت مؤکدہ خیال کرتے ہیں۔
قربانی واجب کیوں ہے؟ 
1: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (سورۂ الکوثر ۲) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔ آیت میں نماز پڑھنے اور قربانی کرنے کا حکم صیغہ امر سے دیا گیا ہے، نماز سے مراد بقرعید کی نماز اور "وَانْحَر" راجح قول کے مطابق  قربانی کرنے پر محمول  ہے۔ لہذا نماز اور قربانی دونوں کا وجوب آیت سے ثابت ہوا۔ 
2: عن ابی ھریرہ۔ من وجدَ سعةً فلم يضحّ، فلا يقربنَّ مصلانا (أخرجه ابن ماجه (2123)، وأحمد (8273) واللفظ له.) 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ اس طرح کی سخت وعید ترک سنت پہ نہیں؛ بلکہ ترک واجب پر ہی ہوتی ہے۔
3: أقام النبي صلى عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي. (أحمد ٤٩٣٥. الترمذي ١٥٠٧) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا، یہ اہتمام وپابندی بھی وجوب کو بتاتا ہے۔
فضائل قربانی:
1: عن عائشة أم المؤمنين. ما عَمِلَ آدَمِيٌّ من عملٍ يومَ النَّحْرِ أَحَبَّ إلى اللهِ من إهراقِ الدَّمِ إنه لَيَأْتِي يومَ القيامةِ بقُرونِها وأشعارِها وأظلافِها وإنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ من اللهِ بمكانٍ قبلَ أن يقعَ من الأرضِ فطِيبُوا بها نَفْسًا-  أخرجه الترمذي (1493) واللفظ له، وابن ماجه (3126)
حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی وَجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو) 
2: عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ قال: قال أصحاب رسول اللّٰہ: یا رسول اللّٰہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم إبراہیم علیہ السلام، قالوا: فما لنا فیہا یا رسول اللّٰہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللّٰہ! قال: بکل شعرة من الصوف حسنة“۔ (مشکوٰة: ۱۲۹)
ترجمہ: ”حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ راوِی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہ کرام رَضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لئے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اُون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی“۔
3: عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی یوم اضحیٰ: ما عمل آدمی فی ہذا الیوم افضل من دم یہراق إلا أن یکون رحماً توصل“۔ (الترغیب والترہیب: ۲/۷۷۲)
ترجمہ: ”حضرت اِبن عباس سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے عیدالاضحی کے دِن اِرشاد فرمایا: آج کے دِن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادَہ افضل عمل نہیں کیا، ہاں! اگر کسی رِشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو“۔
4: ”عن أبی سعید رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا فاطمة! قومی إلی أضحیتک فاشہدیہا، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا أن یغفرلک ما سلف من ذنوبک․ قالت: یا رسول اللّٰہ! ألنا خاصة أہلَ البیت أو لنا وللمسلمین؟ قال: بل لنا وللمسلمین“۔
ترجمہ: ”حضرت ابوسعید رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو) کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، حضرت فاطمہ رَضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یا عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے لئے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی“۔
5: ”عن علی رضی اللہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا فاطمة! قومی فاشہدی ضحیتک، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا مغفرة لکل ذنب، ما انہ یجاء بلحمہا ودمہا توضع فی میزانک سبعین ضعفا۔ قال ابو سعید: یا رسول اللّٰہ! ہذا لآل محمد خاصة، فانہم اہل لما خصوا بہ من الخیر، و للمسلمین عامة؟ قال: لآل محمد خاصة، وللمسلمین عامة“۔ (۶) الترغیب والترہیب: ۲/۲۷۷۔ ۲۷۸)
ترجمہ: ”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت) موجود رہو؛ اِس لئے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دِن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا (زیادہ) کرکے رَکھا جائے گا، حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ فضیلت خاندانِ نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حق دار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لئے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد کے لئے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لئے بھی ہے“۔
6: ”عن علی رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا أیہا الناس! ضحوا واحتسبوا بدمائہا، فان الدم وإن وقع فی الأرض، فإنہ یقع فی حرز اللّٰہ عز وجل۔“ (حوالہ سابق)
ترجمہ: ”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی اُمید رَکھو؛ اِس لئے کہ (اُن کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے؛ لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلا جاتا ہے“۔
7: ”عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما انفقت الورق فی شییٴٍ حب إلی اللّٰہ من نحر ینحر فی یوم عید“۔ (حوالہ سابق)
ترجمہ: ”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: چاندی (یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا جو اللہ کے نزدِیک اُس اُونٹ سے پسندیدہ ہو جو عید کے دِن ذبح کیا گیا“۔
8: ”عن ابی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجد سعة لان یضحی فلم یضح، فلایحضر مصلانا“۔ (حوالہ سابق)
ترجمہ: ”حضرت ابوہریرہ رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رَکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہمارِی عیدگاہ میں نہ آئے“۔
9: ”عن حسین بن علی رضی اللہ عنہما قال:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ضحی طیبة نفسہ محتسباً لاضحیتہ کانت لہ حجاباً من النار۔“ (حوالہ سابق)
ترجمہ: ”حضرت حسین بن علی رَضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی“۔ (مفتی رفیق احمد بالاکوٹی کے مضمون سے ماخوذ)
قربانی کن لوگوں پہ واجب ہے؟ 
جس کی ملکیت میں سونا، چاندی، مالِ تجارت،نقدی اور ضرورت سے زائد اشیاء میں سے کوئی ایک چیز یا ان میں سے بعض اشیاء کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ 612 گرام چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔ اگر اتنی مالیت ایک سال پاس میں رہے تو پھر اب زکات بھی فرض ہوجائے گی۔
ِ قربانی  کے وجوب کے لئے چھ شرائط ہیں: 
(١) مسلمان ہونا، غیرمسلم پر واجب نہیں۔
(٢) مقیم ہونا، مسافر پر واجب نہیں۔
(٣) آزاد ہونا، غلام پر واجب نہیں۔
(٤) بالغ ہونا، نابالغ پر واجب نہیں۔ (اگر باپ یا ولی  نابالغ بچوں کی طرف سے اپنے مال میں سے قربانی کردے تو جائز بلکہ افضل وبہتر ہے) 
(٥) عاقل ہونا، مجنون پر واجب نہیں۔
(٦) مالدار ہونا، مسکین نادار پر واجب نہیں۔ (البدائع ٥/٦٣،٦٤، ط: رشیدیہ قدیم، الہندیہ ٥/٢٩٢، ط: رشیدیہ)
مسئلہ: اگر کسی کے پاس ضرورت سے زائد آباد یا غیرآباد اور بنجر زمین ہو تو اگر اس کی قیمت اور ضرورت سے زائد پیداوار کا مجموعہ یا کوئی ایک ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زیادہ ہو تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے ورنہ نہیں۔ (الہندیہ، ٥/٢٩٢، ط: رشیدیہ)
مسئلہ: جو شخص مقروض ہو لیکن قرض کی رقم جدا کرنے کے بعد اس کے پاس بقدرِ نصاب مال بچتا ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ (الہندیہ، ٥/٢٩٢، ط: رشیدیہ)
مسئلہ: اگر کچھ رقم قرض دے رکھی ہے یا فروخت شدہ مال کی قیمت باقی ہے تو یہ رقم اگر قابلِ وصول ہے تو قربانی واجب ہے البتہ اگر فی الحال قربانی کے لئے نہ نقد رقم ہے اور نہ ضرورت سے زائد اتنا سامان ہے جسے فروخت کرکے قربانی کرسکے تو قربانی واجب نہ ہوگی البتہ اگر بآسانی قرض مل سکے تو قربانی کی جاسکتی ہے۔ (الہندیہ، ٥/٢٩٢، ط: رشیدیہ، احسن الفتاوی، ٧/٥١٢، ط: سعید)
قربانی نہ کرنے والوں پہ وعید: 
 وسعت کے باوجود اگر کوئی قربانی نہیں کرتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا۔ حدیث میں ہے:
مَنْ کَانَ لَہٗ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَیَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا (ابن ماجہ ص ۳۳۶)
جس شخص کے پاس وسعت وطاقت ہو اور پھر قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ اسے کوئی حق نہیں کہ وہ ہماری عید گاہ میں آئے! 
قربان کئے جانے والے جانوروں کی عمر:
(١) اونٹ: عمر کم از کم پانچ سال (مسلم ٢/١٥٥، ط: قدیمی)
(٢) گائے، بیل بھینس: عمر کم از کم دو سال (مسلم ٢/١٥٥، ط: قدیمی)
(٣) بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ: عمرکم از کم ایک سال (مسلم ٢/١٥٥، ط: قدیمی، اعلاء السنن ١٧/٢٤١، ط: ادارة القرآن)
البتہ دنبہ اگر اتنا فربہ اور موٹا ہوکہ دیکھنے میں پورے سال کا معلوم ہو تو سال سے کم ہونے کے باوجود بھی اس کی قربانی جائز ہے، بشرطیکہ چھ ماہ سے کم نہ ہو۔ (مسلم ٢/١٥٥، ط: قدیمی)
مسئلہ: عمر کے پورا ہونے کا اطمینان ضروری ہے دانتوں کا ہونا ضروری نہیں۔
(احسن الفتاوی،٧/٥٢٠،ط:سعید)
ترمذی شریف میں ہے: 
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيِّ وَهُوَ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا شَرْقَاءَ وَلَا خَرْقَاءَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَزَادَ قَالَ الْمُقَابَلَةُ مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا وَالْمُدَابَرَةُ مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الْأُذُنِ وَالشَّرْقَاءُ الْمَشْقُوقَةُ وَالْخَرْقَاءُ الْمَثْقُوبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَى وَشُرَيْحُ بْنُ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيُّ هُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ وَشُرَيْحُ بْنُ هَانِيءٍ كُوفِيٌّ وَلِوَالِدِهِ صُحْبَةٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ وَشُرَيْحُ بْنُ الْحَارِثِ الْكِنْدِيُّ أَبُو أُمَيَّةَ الْقَاضِي قَدْ رَوَى عَنْ عَلِيٍّ وَكُلُّهُمْ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ قَوْلُهُ أَنْ نَسْتَشْرِفَ أَيْ أَنْ نَنْظُرَ صَحِيحًا- سنن الترمذي: 1498۔ کتاب الاضاحی۔
ترجمہ: "اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم (قربانی کے جانور کے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں." یہ رویات جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے لیکن ابن ماجہ کی روایت لفظ "والاذن'' ختم ہوگئی ہے۔" 
یہ حدیث اور اس باب کی دیگر احادیث کے پیش نظر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں درج ذیل جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے: 
جن جانوروں کی قربانی درست نہیں: 
(١) لنگڑا جانو، جس کا لنگڑا پن اتنا ظاہر ہوکہ ذبح کی جگہ تک نہ پہنچ سکے۔
(ترمذی ٢/٢٧٥، ط: سعید، ابوداود ١/٣٨٧، ط: میرمحمد)
(٢) اندھا یا ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(٣) ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(٤) ایسا دبلا، مریل، بوڑھا جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔ (الہندیہ، ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٥) جس کی پیدائشی دم نہ ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(٦) جس کا پیدائشی ایک کان نہ ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(٧) جس کی چکتی یا دم یا کان کا ایک تہائی یا تہائی سے زیادہ حصہ کٹا ہوا ہو۔ البتہ چکتی والے دنبے کی دم کا اعتبار نہیں لہٰذا پوری دم کٹی ہوئی تو بھی قربانی جائز ہے۔
(الشامیہ، ٦/٣٢٥، ط: سعید، الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ، احسن الفتاوی ٧/٥١٧، ط: سعید)
(٨) جس کے پیدائشی طور پر تھن نہ ہوں۔ (الشامیہ ٩/٥٣٨، ط: رشیدیہ)
(٩) دنبی، بھیڑ، بکری کا ایک تھن نہ ہو یا مرض کی وجہ سے خشک ہوگیا ہو یا کسی وجہ سے ضائع ہوگیا ہو۔ (الشامیہ ٩/٥٣٨، ط: رشیدیہ)
(١٠) گائے، بھینس، اونٹنی کے دو تھن نہ ہوں یا خشک ہوگئے ہوں یا کسی وجہ سے ضائع ہوگئے ہوں، البتہ اگر ایک تھن نہ ہو یا خشک یا ضائع ہوگیا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ (الشامیہ ٩/٥٣٨، ط: رشیدیہ)
(١١) آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٢) جس کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر گرگئے ہوں یا ایسے گھس گئے ہوں کہ چارہ بھی نہ کھاسکے۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ، احسن الفتاوی ٧/٥١٣، ط: سعید)
(١٣) جس کا ایک یا دونوں سینگ جڑ سے اکھڑ جائیں۔ (الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(١٤) جسے مرضِ جنون اس حد تک ہوکہ چارہ بھی نہ کھاسکے۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٥) خارشی جانور جو بہت دبلا اور کمزور ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٦) جس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٧) جس کے تھن کاٹ دیئے گئے ہوں یا ایسے خشک ہوگئے ہوں کہ ان میں دودھ نہ اترے۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٨) جس کے تھن کا تہائی یا اس سے زیادہ حصہ کاٹ دیا گیا ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٩) بھیڑ، بکری کے ایک تھن کی گھنڈی جاتی رہی ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٢٠) جس اونٹنی یا گائے، بھینس کی دو گھنڈیاں جاتی رہی ہوں۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٢١) جس گائے یا بھینس کی پوری زبان یا تہائی یا اس سے زیادہ کاٹ دی گئی ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٢٢) جلالہ یعنی جس کی غذا نجاست و گندگی ہو اس کے علاوہ کچھ نہ کھائے۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٢٣) جس کا ایک پائوں کٹ گیا ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٩، ط: رشیدیہ)
(٢٤) خنثیٰ جانور جس میں نر اور مادہ دونوں کی علامتیں جمع ہوں۔ (الہندیہ ٥/٢٩٩، ط: رشیدیہ)
مسئلہ: کسی جانور کے اعضاء زائد ہوں مثلاً چار کی بجائے پانچ ٹانگیں یا چار کی بجائے آٹھ تھن تو چونکہ یہ عیب ہے لہٰذا ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ 
(المحیط البرہانی ٨/١٧، ط: ادارة القرآن)
مسئلہ: جس جانور کا پیدائشی طور پر ایک خصیہ نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ ١٧/٣٥٣) قربانی کے فضائل ومسائل، از مفتی احمد ممتاز، پاکستان)
جن جانوروں کی قربانی جائز تو ہے لیکن بہتر نہیں: 
(١) جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔
(٢) جس کے سینگ ٹوٹ گئے ہوں مگر ٹوٹنے کا اثر جڑ تک نہیں پہنچا۔
(٣) وہ جانور جو جفتی پر قادر نہ ہو۔
(٤) جو بڑھاپے کے سبب بچے جننے سے عاجز ہو۔
(٥) بچے والی ہو۔
(٦) جس کے تھنوں میں بغیر کسی عیب اور بیماری کے دودھ نہ اترتا ہو۔
(٧) جس کو کھانسنے کی بیماری لاحق ہو۔
(٨) جسے داغا گیا ہو۔
(٩) وہ بھیڑ، بکری جس کی دم پیدائشی طور پر بہت چھوٹی ہو۔
(١٠) ایسا کانا جس کا کانا پن پوری طرح واضح نہ ہو۔
(١١) ایسا لنگڑا جو چلنے پر قادر ہو یعنی چوتھا پاؤں چلنے میں زمین پر رکھ کر چلنے میں اس سے مدد لیتا ہو۔
(١٢) جس کی بیماری زیادہ ظاہر نہ ہو۔
(١٣) جس کا کان یا چکتی یا دم یا آنکھ کی روشنی کا تہائی سے کم حصہ جاتا رہا ہو۔
(١٤) جس کے کچھ دانت نہ ہوں مگر وہ چارہ کھاسکتا ہو۔
(١٥) مجنون جس کا جنون اس حد تک نہ پہنچا ہو کہ چارہ نہ کھاسکے۔
(١٦) ایسا خارشی جانور جو فربہ اور موٹا تازہ ہو۔
(١٧) جس کا کان چیر دیا گیا ہو یا تہائی سے کم کاٹ دیا گیا ہو۔
نوٹ: اگر دونوں کانوں کا کچھ حصہ کاٹ لیا گیا ہو تو دونوں کو جمع کرکے دیکھا جائے اگر مجموعہ تہائی کان تک پہنچ جائے یا اس سے بڑھ جائے تو قربانی جائز نہیں، ورنہ جائز ہے۔
(١٨) بھینگا جانور۔
(١٩) وہ بھیڑ، دنبہ جس کی اون کاٹ دی گئی ہو۔
(٢٠) وہ بھیڑ، بکری جس کی زبان کٹ گئی ہو بشرطیکہ چارہ بآسانی کھاسکے۔
(٢١) جلالہ اونٹ جسے چالیس دن باندھ کر چارہ کھلایا جائے۔
(٢٢) وہ دبلا اور کمزور جانور جو بہت کمزور اور لاغر نہ ہو۔
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ: قال القسھتانی واعلم ان الکل لا یخلو عن عیب والمستحب ان یکون سلیما عن العیوب الظاہرة فما جوزھھنا جوز مع الکراہة کما فی المضمرات۔ (الشامیہ ٦/٣٢٣، ط: سعید)
مسئلہ: گابھن گائے وغیرہ کی قربانی بلاکراہت جائز ہے۔
مسئلہ: خصی (بدھیا) بکرے کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے۔
(ابن ماجہ، مسند احمد، اعلاء السنن ١٧/٢٥١، ط: ادارة القرآن)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا؟ 
جس صاحب استطاعت بندہ کے پاس گنجائش ہو وہ اپنے مرحوم بزرگوں کی طرف سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے  قربانی کرے، یہ عمل بہت ہی مبارک ہے، ان سب کو اس کا ثواب اِن شآءاللہ پہنچے گا ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دو بھیڑ ذبح فرمائے ہیں: ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی ان تمام امتیوں کی طرف سے جہنوں نے توحید کا اقرار کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دین پہنچادینے کی گواہی دی۔
25315 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ (مسند أحمد: 25315) ابن ماجہ: 3122)
حضرت علی کا حضور کی طرف سے ہمیشہ  قربانی کرنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی اتنی پسند تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے کی باضابطہ وصیت فرمائی یعنی تاکیدی حکم فرمایا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بلاناغہ دو بھیڑ ذبح فرماتے تھے ایک اپنی طرف سے اور ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔ وہ فرماتے کہ پھر میں نے کبھی ناغہ نہ کیا: 
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ حَنَشٍ قَالَ رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ مَا هَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ (سنن ابي داؤد۔ 2790، بَاب الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّت)
  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنْ الْمَيِّتِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ وَلَا يُضَحَّى عَنْهُ وَإِنْ ضَحَّى فَلَا يَأْكُلُ [ص: 72] مِنْهَا شَيْئًا وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ قُلْتُ لَهُ أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُهُ الْحَسَنُ۔ (سنن الترمذي 1495۔ بَاب مَا جَاءَ فِي الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّتِ)
حنش سے روایت  ہے کہ مَیں  نے حضرت على رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ دو دُنبے قربانى کئے اور فرمایا ان میں ایک میری طرف سے ہے اور دوسرا رسول اللہ کى طرف سے ہے۔ مَیں نے ان سے (اس کے متعلق) گفتگو کى انہوں نے فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس کا حکم دیا ہے کہ میں اس کو کبھى نہ چھوڑوں گا. (ابوداؤد وترمذى)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیا ہے، جسے میں بلاناغہ ہمیشہ ان کی طرف سے ادا کرتا ہوں: أمرَني رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أَن أُضحِّيَ عنهُ، فأَنا أضحِّي عنهُ أبدًا (مسند أحمد- الرقم: 2/152 إسناده صحيح) أمرَني رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أن أضحِّيَ عنهُ بِكَبشينِ، فأَنا أُحبُّ أن أفعلَهُ وقالَ مُحمَّدُ بنُ عُبَيْدٍ المحاربيُّ في حديثِهِ: ضحَّى عنهُ بِكَبشينِ واحدٌ، عنِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، والآخرُ عنهُ. فقيلَ لَهُ: فقالَ: إنَّهُ أمرَني فلا أدعُهُ أبدًا.مسند أحمد. الرقم: 2/31  إسناده صحيح) 
یہ تمام احادیث اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور ان کے نام سے قربانی کرنے سے انہیں ثواب پہنچے گا۔ امام ابودائود وغیرہ نے باضابطہ میت کی طرف سے قربانی کئے جانے کا باب قائم فرمایا یے اور اس کے تحت انہیں احادیث سے استدلال فرمایا یے ۔۔۔ ائمہ متبوعین میں  حنفیہ مالکیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے۔ شافعیہ کے یہاں کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
صاحب استطاعت احباب ہرسال اپنی طرف سے بھی ، حضور کی طرف سے بھی، اہل بیت رسول  کی طرف سے بھی مستقل جانور یا کم ازکم ساتویں حصہ میں شریک ہوکے ضرور قربانی کریں. بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے۔
یہاں مسئلہ ضرور ملحوظ رہے کہ اگر میت نے اپنی طرف سے  قربانی کی وصیت کررکھی ہو اور اس کے لئے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تو میت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کا مکمل گوشت واجب التصدق یے۔ اگر وصیت تو کی ہو لیکن مال نہ چھوڑا ہو یا رشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہنچانا چاہے تو آخر کی ان دونوں صورتوں میں گوشت خود بھی کھاسکتا ہے۔ عام گوشتوں کی طرح اس کا حکم ہوگا۔
اس ذیل میں یاد رکھے جانے کے قابل یہ بات بھی ہے کہ: 
 اپنے نام سے  قربانی کرکے متعدد اموات کو ثواب  میں شریک کیا جاسکتا ہے لیکن میت کی طرف سے ان کے نام سے قربانی کرنا چاہیں تو ایک میت کی طرف  سے ایک مکمل چھوٹا جانور ضروری ہے۔
چھوٹے جانور میں قربانی کی نیت سے ایک سے زائد ناموں کی گنجائش نہیں ہے۔ خواہ ایک کنبہ کے متعدد لوگ ہوں یا الگ الگ کنبہ کے۔ ادائی سنت کے لئے ایک سے زیادہ کی شرکت جائز نہیں ۔ہاں ثواب میں شرکت کے لئے تعدد کی گنجائش ہے 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی طرف سے کی جانے والی قربانی اسی قبیل سے تھی ۔۔۔۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ [ص: 1044] بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سنن إبن ماجة :  3122)
قربانی کے ایک بکرے میں چند لوگوں کی شرکت؟ 
 فقہاء احناف وشوافع کے یہاں بڑے جانوروں کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی، اور بھیڑبکری میں صرف ایک آدمی شریک ہوسکتا ہے۔ ادائیِ فریضہٴ قربانی کی حیثیت سے ایک بکرے میں کسی بھی قسم کے متعدد افراد کی شرکت ناجائز ہے، ہاں ایک بکرے کی قربانی میں حصول ثواب کے لئے بیشمار لوگوں کو شریک کرنا حنفیہ کے یہاں بھی جائز ہے، اس کے برخلاف حضرت امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق اور اصحابِ ظواہر رحمہم اللہ وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ ایک بکرا یا ایک بھیڑ ایک گھر کے سینکڑوں افراد کی طرف سے اسقاطِ فریضہ کے لئے کافی ہے۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم:
اَفضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں، ایک حصہ فقیروں میں تقسیم کردیا جائے، دوسرا حصہ دوست احباب اور رشتہ داروں کو پیش کردیں، تیسرا حصہ خود اپنے استعمال میں لائیں؛ اِس لئے کہ اپنی قربانی میں سے خود کھانا بھی مستحب ہے؛ تاہم اگر سارا گوشت دوسروں کو بانٹ دیں یا سب خود ہی استعمال کریں تو اِس کی بھی گنجائش ہے۔
والأفضل أن یتصدق بالثلث، ویتخذ الثلث ضیافۃ لأقربائہ، ویدخرالثلث، ویستحب لا یأکل منہا، ولو حبس الکل لنفسہ جاز۔ (شامي/ کتاب الصید والذبائح ۹؍۴۷۴ زکریا، کتاب النوازل ج 17 ص 419)
قربانی کا گوشت غیرمسلم کو دینا؟ 
 قربانی کا گوشت اپنے غیرمسلم پڑوسی کو  دینا بھی جائز ہے: ویہب منہا ما شاء للغني والفقیر والمسلم والذمي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ؍ ۳۰۵) لأن القربۃ في الإراقۃ والتصدق باللحم تطوع۔ (شامي/ کتاب الصید والذبائح ۹؍۴۷۴ زکریا) 
چرم قربانی کے مصارف: 
قربانی کی کھال کا حکم قربانی کے گوشت کی طرح ہے، جس طرح قربانی کا گوشت خود کھانا اور امیر و غریب سب کو دینا جائز ہے، اسی طرح قربانی کی کھال بھی امیر، غریب، اولاد، والدین، امام، مؤذن، معلم، سید وغیرہ سب کو دینا جائز ہے۔ اور خود اپنے استعمال: جائے نماز، مشکیزہ جوتا وغیرہ کے استعمال میں بھی لاسکتا ہے، اسی طرح قربانی کی کھال کو کسی ایسی چیز کے عوض فروخت کرنا بھی جائز ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہو، جیسے چرم قربانی کے عوض کتابیں، جوتے اور فرنیچر وغیرہ خرید کر اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔
ہاں قربانی کرنے والا چرم قربانی فروخت نہیں کرسکتا، جب فروخت کرے گا تو اب مستقحقین زکات پہ رقم صدقہ کرنا واجب ہوگا، رفاہی کاموں میں صرف کرنا اب بھی جائز نہیں۔  یعنی رقم صدقہ کرنے کی نیت سے تو فروخت کرنا جائز ہے، ویسے نہیں! جس مالدار یا غریب کو چرم قربانی ہدیہ یا صدقہ کے طور پہ دیا ہے وہ اسے فروخت کرکے رقم اپنے کام میں لاسکتا ہے: ويهب منها ماشاء للغني والفقير والمسلم. الهندية ٥/٣٠٠. كتاب الأضحية، الباب الخامس) فتاوی محمودیہ جلد 26 صفحہ 371،  مفتی فاروق رحمۃ اللہ علیہ)
واللہ اعلم بالصواب 
 بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment