Sunday 12 July 2020

کورونا وبائی مرض کی آفت میں قربانی کا حکم

کورونا 
وبائی مرض کی 
آفت میں قربانی کا حکم

قربانی کے دنوں میں کوئی نیک عمل اللہ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں
 🌙 
عیدالفطر کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر بعض حضرات کی طرف سے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روح کے برخلاف کہا جارہا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے تاریخی واقعہ کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کی جانے والی قربانی کے بجائے کورونا وبائی مرض سے متاثر غرباء کو نقد رقم دے دی جائے۔ اس طرح کی باتیں عموماً اُن حضرات کی طرف سے سامنے آتی ہیں جو قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کے مقابلہ میں دنیاوی وقتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس موقع پر چند باتیں عرض ہیں:
1) کسی عالمی ادارہ یا کسی حکومت کی طرف سے قربانی پر پابندی کا نہ کوئی فرمان جاری ہوا ہے اور نہ ہی کورونا وبائی مرض کا دور دور تک قربانی کے جانور سے کوئی تعلق ہے۔ نیز جب دنیا میں کورونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کے باوجود احتیاطی تدابیر کے ساتھ دیگر کام ہورہے ہیں، حتی کہ چین کے ووہان شہر کی گوشت مارکیٹ (جہاں سے کورونا وبائی مرض پھیلا تھا) اور دنیا کے ہزاروں سلاؤٹر ہاؤس میں روزانہ لاکھوں جانور ذبح ہورہے ہیں، تو اسلامی شعار (قربانی) کو کیوں انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ اگر کبھی کسی حکومت کی طرف سے عیدالاضحی کی قربانی پر پابندی کی بات شروع ہو تو ہمیں اتحاد واتفاق کا بہترین نمونہ پیش کرکے اس کی مخالفت کرنی چاہئے تاکہ سنت ابراہیمی پر عمل کیا جاسکے۔ ہاں اگر کوئی شخص کسی وجہ سے پوری کوشش اور فکر کے باوجود تین دن تک قربانی نہ کرسکا اور نہ کسی دوسرے مقام پر کرواسکا تو پھر وہ قربانی کے ایام گزرنے کے بعد قربانی کی قیمت غریبوں کو ادا کردے۔
2) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قربانی کرنے کا حکم دیا ہے اور حکم عمومی طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حالات تنگ ہونے کے باوجود کسی ایک سال بھی قربانی نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ عید گاہ کے قریب بھی نہ جائیں۔ اس نوعیت کی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ صاحب استطاعت ہیں تو ہر صاحب استطاعت کو قربانی کرنی چاہئے۔ 
3) قرآن وحدیث کی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ قربانی کے دنوں میں بڑھ چڑھ کر قربانی میں حصہ لیا جائے کیونکہ تمام مکاتب فکر کے فقہاء وعلماء کرام قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہیں اور قربانی کے ایام میں کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے جیسا کہ پوری کائنات میں سب سے افضل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے۔ باوجود یکہ آپ کے گھر میں کبھی کبھی پکانے کی اشیاء موجود نہ ہونے کی وجہ سے دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک دن میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر بھی باندھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری زندگی میں ایک بار بھی صاحب استطاعت نہیں بنے یعنی پوری زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال قربانی کیا کرتے تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر انہی قربانی کے ایام میں ایک دو نہیں، دس بیس نہیں سو اونٹوں کی قربانی کی۔ غرضیکہ قربانی کے دنوں میں خون بہانا یعنی جانوروں کو ذبح کرنا ایک اہم عبادت ہے۔
4) جانوروں کی قربانی سے اللہ کا تقرب حاصل ہونا صرف مذہب اسلام میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات میں بھی قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عظیم واقعہ مشہور ہے۔ جب قربانی سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے تو عیدالاضحی کے موقع پر قربانی میں حصہ نہ لینے کی دوسروں کو ترغیب دینا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ 
 5) حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عمومی طور پر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاشی حالات بہتر نہیں تھے، کتابوں میں درج سینکڑوں واقعات اس کے شاہد ہیں۔ نیز صحابہ کرام کو اپنے مال کا اچھا خاصہ حصہ جہاد وغیرہ میں بھی لگانا ہوتا تھا، اس کے باوجود حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تعلیم دیتے تھے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر شفقت کا معاملہ کیا کرتے تھے۔
آخری بات عرض ہے کہ شریعت اسلامیہ میں غریبوں کی مدد کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ بلکہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس نے یتیموں، بیواؤں، محتاجوں اور مسکینوں کا سب سے زیادہ خیال رکھا ہے۔ اسی لئے ہمیں یقینا غریبوں کی مدد کرنے میں سبقت کرنی چاہئے، جیساکہ مسلم بھائیوں نے گزشتہ رمضان کے مبارک مہینہ میں محتاجوں اور مزدوروں کی مدد کرکے مثال قائم کی۔ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق جہاں مالدار لوگ اپنے مال کی مکمل زکوٰۃ ادا کریں وہیں ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کمزور لوگوں کی مدد کرے، مگر قرآن وحدیث سے ثابت شدہ واضح حکم میں اپنی خواہش کی اتباع کی بجائے شریعت اسلامیہ کے حکم کو بجالانا ہی ضروری ہے۔ یقینا غریبوں کی مدد کی جائے لیکن واجب قربانی چھوڑکر قربانی پر خرچ ہونے والی رقم غریبوں میں تقسیم کرنا کسی شخص کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر یہ بات قرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہے۔ قربانی کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرنے یا پکاکر کھلانے میں حکم الٰہی پر عمل کے ساتھ غریبوں کی مدد نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کوئی شخص واجب قربانی ادا کرنے کے بعد موجودہ حالات میں نفلی قربانی زیادہ نہ کرکے غریبوں کی مدد کرے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے لیکن واجب قربانی چھوڑکر غریبوں کی مدد کرنا ہرگز دین نہیں ہے۔ حضوراکرم  اور صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں موجودہ دور کے مقابلہ میں زیادہ تعداد میں لوگ غریب تھے اور وہ آج کے غریبوں سے زیادہ محتاج اور ضرورت مند تھے مگر ایک مرتبہ بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ انہوں نے عیدالاضحی کے دنوں میں قربانی کی بجائے غریبوں کی مدد کی بات کہی ہو۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اللہ کے حکم اور نبی کی اتباع میں قربانی کے دنوں میں قربانی کریں اور تین دن کے علاوہ پورے سال شادی وغیرہ کے اخراجات اور اپنے داتی مصاریف میں کمی کرکے یتیموں، بیواؤں، محتاجوں اور مسکینوں کی خوب مدد کریں۔  
Whatsapp Number: 00966-508237446
Contact Number: 0091-7017905326



No comments:

Post a Comment