Sunday 5 July 2020

اللہ ‏تعالیٰ ‏کی ‏رحمت ‏امت ‏محمدیہ ‏کے ‏ساتھ ‏مخصوص ‏

اللہ تعالیٰ 
کی رحمت امت 
محمدیہ کے ساتھ مخصوص 

قال ابن عباس
لما نزلت: {ورحمتي وسعت كل شيء}
قال إبليس: أنا من {كل الشيء} 
فأنزل الله: {فسأكتبها للذين يتقون ويؤتون الزكاة ... الآية} 
فقالت اليهود والنصارى: ونحن نتقي ونؤتي الزكاة
فأنزل الله: {الذين يتَّبعون الرسول النبي الأمّي}
 فنزعها الله عنهم وجعلها لأمة محمد ﷺ
تفسير البغوي
_________                        
 حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: جب آیت: (ورحمتی وسعت کل شیئ) نازل ہوئی (میری رحمت کو ہر شیئ پر وسعت ہے)
  تو شیطان ابلیس نے کہا: (اس رحمت  کا امیدوار میں بھی ہوں کیونکہ) "کل شیئ" کے اندر میں بھی داخل ہوں-                               
  اس پر اللہ تعالی نے "فساكتبها للذين ..." کو نازل فرمایا کہ: میری یہ رحمت  ان کے ساتھ مختص ہے جو تقوی، زکوۃ، اور ایمان با لآیات سے متصف ہیں -                                 
اس پر یہود و نصاری نے کہا تب تو اس رحمت خداوندی سے ہم بھی محروم نہ ہوں گے، کیوں کہ ہم بھی تقوی وزکوۃ والے ہیں -                            
 اس پر اللہ تعالی نے "الذين يتبعون الرسول النبي الامي.."  کو نازل فرمایا-                                   
 یعنی یہ رحمت الہی ان اہل تقوی ... کو حاصل ہوگی جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی اُمی ہے، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں-                                   
   غرض اس  رحمت الہی سے ان سب کو محروم کرکے امت محمدیہ کے لئے اس کو مختص کردیا گیا -
_____
 وَ اکۡتُبۡ لَنَا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃً  وَّ  فِی الۡاٰخِرَۃِ   اِنَّا ہُدۡنَاۤ   اِلَیۡکَ ؕ قَالَ عَذَابِیۡۤ  اُصِیۡبُ  بِہٖ  مَنۡ  اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکۡتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِنَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ۚ سورہ الاعراف آیت نمبر 156
ترجمہ: اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دیجئے اور آخرت میں بھی۔ ہم (اس غرض کے لئے) آپ ہی سے رجوع کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: اپنا عذاب تو میں اسی پر نازل کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں۔ اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ہے وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ (٧٣) چنانچہ میں یہ رحمت (مکمل طور پر) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو تقوی اختیار کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھیں۔ (٧٤)
تفسیر: 73: مطلب یہ ہے کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے، دنیا کا عذاب میں ہر نافرمان کو نہیں دیتا؛ بلکہ اپنی حکمت اور علم سے جس کو چاہتا ہوں اسے دیتا ہوں، آخرت میں بھی ہر گناہ پر میرا عذاب دینا ضروری نہیں ؛ بلکہ جو لوگ ایمان لے آتے ہیں ان کے بہت سے گناہ میں معاف کرتا رہتا ہوں ؛ البتہ جن لوگوں کی سرکشی کفر وشرک کی صورت میں حد سے بڑھ جاتی ہے ان کو اپنی مشیت اور حکمت کے تحت عذاب دیتا ہوں، اس کے برخلاف دنیا میں میری رحمت ہر مومن اور کافر، نیک اور بد سب پر چھائی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں انہیں رزق اور صحت و عافیت کی نعمتیں ملتی رہتی ہیں اور آخرت میں بھی کفر وشرک کے علاوہ دوسرے گناہوں کو اسی رحمت سے معاف کیا جائے گا۔ 74: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کے لئے جو دعا مانگی تھی کہ دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو بھلائی نصیب ہو، یہ اس کا جواب ہے اور مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو میری رحمت سے سب کو رزق وغیرہ مل رہا ہے، لیکن جن لوگوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں میری رحمت حاصل ہوگی وہ صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقوی کی صفات کے حامل ہوں اور جنہیں مال کی محبت زکوٰۃ جیسے فریضے کی ادائیگی سے نہ روکے، چنانچہ اے موسیٰ (علیہ السلام)! آپ کی امت کے جو لوگ ان صفات کے حامل ہوں گے ان کو ضرور میری یہ رحمت پہنچے گی کہ دنیا اور آخرت دونوں میں انہیں بھلائی نصیب ہوگی۔ 
اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ  وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ  وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ  ہُمُ  الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾ سورہ الاعراف آیت نمبر 157 
ترجمہ: جو اس رسول یعنی نبی امی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے (٧٥) جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دے گا، برائیوں سے روکے گا، اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا، اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے۔ (٧٦) چنانچہ جو لوگ اس (نبی) پر ایمان لائیں گے اس کی تعظیم کریں گے اس کی مدد کریں گے، اور اس کے ساتھ جو نور اتارا گیا ہے اس کے پیچھے چلیں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔
تفسیر: 75:: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کو ان کی وفات کے بعد بھی صدیوں تک باقی رہنا تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دنیا اور آخرت کی بھلائی کی جو دعا کی تھی وہ بنی اسرائیل کی اگلی نسلوں کے لئے بھی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرتے وقت یہ بھی واضح فرمادیا کہ بنی اسرائیل کے جو لوگ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں موجود ہوں گے، ان کو دنیا اور آخرت کی بھلائی اسی صورت میں مل سکے گی جب وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاکر ان کی پیروی کریں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی کچھ صفات بھی بیان فرمائیں، جن میں سے پہلی صفت یہ ہے کہ آپ نبی ہونے کے ساتھ رسول بھی ہوں گے، عام طور سے رسول کا لفظ ایسے پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے جو نئی شریعت لے کر آئے، لہذا اس لفظ سے اشارہ کردیا گیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نئی شریعت لے کر آئیں گے، جس میں کچھ فروعی احکام تورات کے احکام سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور بنی اسرائیل کو اس وقت یہ نہ کہنا چاہئے کہ یہ تو ہماری شریعت سے مختلف احکام بیان کررہے ہیں، اس لئے ان پر کیسے ایمان لائیں؟ چنانچہ پہلے سے بتایا جارہا ہے کہ ہر دور کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اور جو رسول نئی شریعت لے کر آتے ہیں ان کے فروعی احکام پہلے احکام سے مختلف ہوسکتے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ امی ہوں گے، یعنی لکھتے پڑھتے نہیں ہوں گے، عام طور سے بنی اسرائیل امی نہیں تھے؛ بلکہ نسلی عربوں کو امی کہا جاتا تھا (٢: ٧٨۔ ٣: ٢٠۔ ٢: ٦٣) اور خود یہودی عرب نسل کے لوگوں کے لئے کسی قدر حقارت کے پیرائے میں استعمال کرتے تھے (دیکھئے سورة آل عمران ٣: ٧٥) اس لئے اس لفظ سے یہ اشارہ بھی دے دیا گیا کہ وہ بنی اسرائیل کی بجائے عربوں کی نسل سے مبعوث ہوں گے، آپ کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ کا ذکر مبارک تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہوگا، اس سے ان بشارتوں کی طرف اشارہ ہے جو آپ کی تشریف آوری سے متعلق ان مقدس کتابوں میں دی گئی تھیں، آج بھی بہت سی تحریفات کے باوجود بائبل میں متعدد بشارتیں موجود ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کی کتاب اظہار الحق کا اردو ترجمہ بائبل سے قرآن تک مرتبہ راقم الحروف۔ 76: اس سے ان سخت احکام کی طرف اشارہ ہے جو یہودیوں پر عائد کیے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ احکام تو خود تورات میں تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس وقت یہودیوں کو ان کا پابند کیا تھا۔ بعض سخت احکام ان کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر نافذ کیے گئے تھے جس کا ذکر سورة نساء (160:4) میں گذرا ہے اور بہت سے احکام یہودی علماء نے اپنی طرف سے گھڑ لئے تھے۔ شاید 'بوجھ' سے پہلی اور دوسری قسم کی طرف اور گلے کے طوق سے تیسری قسم کے احکام کی طرف اشارہ ہو۔ بتایا جارہا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان احکام کو منسوخ کر کے ایک آسان اور معتد شریعت لائیں گے۔ آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی (ایس اے ساگر)

http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_32.html?m=1

No comments:

Post a Comment