Monday 5 February 2024

جھپکیوں کا صحت پر کیا پڑتا ہے اثر؟

 جھپکیوں کا صحت پر کیا پڑتا ہے اثر؟

مرکزی داراحکومت سمیت دنیا بھر میں آج ایسے اداروں کی کمی نہیں جو چوبیس گھنٹے خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ایسے میں رات کی شفٹ میں کام کرنے والا عملہ عام طور پر نیند کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ اس سلسلے میں مزید ستم اسمارٹ فونوں نے ڈھایا ہے۔ رات کے اوقات میں سستے ڈاٹا پلان کے سحر میں گرفتار ہوکر بلاضرورت آن لائن رہنے والوں کا ایک مستقل طبقہ وجود میں آگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ دن کے اوقات میں عام طور سکون مفقود ہونے کے سبب محنت کش لوگ سونے کیلئے ترستے ہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ ایک جھپکی، نیپ یا کم دورانیے کی نیند سے بھی کم بس کچھ ہی سیکنڈز کیلئے آنے والی نیند کا جھونکا۔ جس کے بارے میں اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ یہ گہری اور اچھی نیند میں کمی کے مسائل میں اضافہ کررہی ہے۔ ہم یہاں آج اس نیند کے بارے میں بات نہیں کرنے جارہے کہ جو آپ کو چند منٹ کیلئے ٹی وی پر کوئی اچھی فلم یا ڈرامہ دیکھنے کے دوران آتی ہے۔ ہم تو بات کرنے جارہے ہیں اس ’مائیکرو سلیپینگ‘ کے بارے میں جس کا دورانیہ بس چند ہی سیکنڈ ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کی جانب سے اس ’مائیکرو سلیپنگ‘ کیلئے کوئی مستند یا اس کی وضاحت کردینے والی تعریف تو سامنے نہیں آئی ہے، تاہم ایک سیکنڈ سے 15 سیکنڈ تک لگنے والے اس نیند کے جھٹکے یا ’شٹ آئی‘ کے بارے میں اب یہ ضرور کہا جانے لگا ہے کہ اس کے انسانی صحت پر گہرے اور دور رس نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اس بات کی وضاحت یوں کی جارہی ہے کہ نیند کی ان جھپکیوں سے ہمیں اپنے روز مرّہ کے معمولات کو سر انجام دینے میں متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جیسے کہ دورانِ ڈرائیونگ آنے والی یہ نیند کی جھپکی ہماری جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب اس آئی شٹ یا نیند کی جھپکی کے محرکات کا پتہ لگانے کے بہت قریب ہیں۔

حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی نیند کی جھپکیوں کے اصل ماہرین چنسٹریپ پینگوئن ہیں۔ ان پینگوئنز کے ساتھی جب خوراک کی تلاش میں سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں، تو انھیں برف کی سطح پر بنے اپنے گھونسلوں کی رکھوالی کیلئے چھوڑ جاتے ہیں تاکہ ان میں موجود انڈوں کو براون اسکوا جیسے شکاریوں کے ساتھ ساتھ دوسرے پینگوئن کے غصے سے بھا بچاسکیں۔

فرانس کے شہر لیون کے نیورو سائنس ریسرچ سینٹر میں نیند کے ایکوفزیولوجسٹ پال انٹونی لیبورل نے انٹارکٹیکا کے کنگ جارج جزیرے پر 14 پینگوئنز کے دماغ کی سرگرمی اور نیند کے نمونوں کی پیمائش کی۔ 10 دن کے دوران، پینگوئن کبھی بھی ایک وقت میں 34 سیکنڈ سے زیادہ نہیں سوتے تھے۔ اس کے بجائے ان کے پاس 10,000 سے زیادہ مائکرو سلیپ تھے جو چار سیکنڈ سے بھی کم عرصے تک چلتے تھے یعنی دس ہزار نیند کی جھپکیاں۔

چار سیکنڈ کی یہ جھپکی ان پینگوئنز کیلئے یوں تو کم لگ رہی تھی کہ جس میں ان کی تھکان اتر جائے مگر ہر پینگوئن کو ہر 24 گھنٹے میں 11 گھنٹے کی متاثر کن نیند نصیب ہورہی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ جھپکیاں ان کیلئے تو کام کرتی ہیں، لیکن اس جدید دور کے انسان کیلئے، مائکرو سلیپ کو اتنا اچھا نہیں مانا جارہا۔ زندگی یا موت کی صورتحال میں جہاں ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسا کہ انسانوں کیلئے سڑک پر تیز رفتار میں گاڑی چلاتے ہوئے محتاط رہنا پڑتا ہے، تو ایسے میں انسانوں کیلئے یہ کام مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔

یہ صرف اس قسم کی صورتحال ہے لیکن خطرات کے بغیر جسے تجربہ کاروں نے مائیکرو سلیپ کی نوعیت کی تحقیقات کیلئے لیبارٹری میں نقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ سنہ 2014 میں دماغی سکینرز، لوگوں کی آنکھوں کی ویڈیو ریکارڈنگ اور دماغی لہروں کی پیمائش کیلئے الیکٹرو اینسفیلوگرام (ای ای جی) آلات کا بیک وقت استعمال کرتے ہوئے مائیکرو سلیپس کی کھوج لگانے والی پہلی تحقیق شائع ہوئی تھی۔ ٹیم نے اپنے شرکا کیلئے ایک بہت ہی مضحکہ خیز ٹاسک تیار کیا۔ اسکینر میں لیٹے ہوئے ان کے سامنے ایک اسکرین تھی اور ایک ہاتھ میں جوائے اسٹک تھمادی گئی۔ ان کا کام جوائے اسٹک کا استعمال کرنا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اسکرین پر موجود ڈسک مسلسل چلتے ہوئے ہدف کے ساتھ برقرار رہے۔

یہ اتنا بورنگ تھا کہ لوگوں کو جاگنے کیلئے جدوجہد کرنا پڑی. 50 منٹ کے سیشن کے دوران 70 فیصد کے پاس کم از کم 36 مائیکرو سلیپ تھے۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کو توقع تھی کہ وہ تھوڑا سی نیند لیں گے، لیکن اتنا زیادہ نہیں۔ جی ہاں، لوگوں نے ابھی دوپہر کا کھانا کھایا تھا اور لیٹے ہوئے تھے، لیکن پھر بھی، وہ نیند سے محروم نہیں تھے اور جو کوئی بھی میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (ایم آر آئی) اسکینر کے اندر تھا اسے معلوم ہوگا کہ کیا ہورہا تھا۔ تعجب کی بات نہیں ہے، نارکولیپسی والے لوگوں میں مائکرو سلیپس اور بھی زیادہ عام ہیں، لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر ان کے قریب ہیں۔

کرائسٹ چرچ کی کینٹربری یونیورسٹی کے دیگر محققین نے لوگوں کو ایک فرضی اسٹیئرنگ وہیل اور ٹریک دے کر انھیں بوریت سے غنودگی کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا اور یہ ظاہر کیا کہ گرم کمرے میں لیکچر کے دوران جاگنے کی کوشش کرنے سے آپ کو یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کی پلکیں ایک لمحے کیلئے بند ہوجاتی ہیں۔ آپ کا سر تھوڑا سا ہلاتا ہے اور پھر جب آپ دوبارہ اٹھتے ہیں تو اچانک جھٹکے لگتے ہیں۔ ہم جتنے زیادہ تھکے ہوئے ہیں، اتنا ہی زیادہ خدشہ ہے کہ ہم مائیکرو سلیپ کریں۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف لافبورو میں نیند کے محقق یوون ہیریسن نے دریافت کیا کہ یہ جھپکیاں دوپہر اور شام کے وقت زیادہ عام ہوتی ہیں اور اکثر نیند کی طویل مدت سے پہلے ہوتی ہیں۔

یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں نفسیات کے پروفیسر ڈیوڈ ڈنگز لوگوں کو رات بھر جگائے رکھتے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ وہ اگلے دن کتنی بار کام کرتے ہیں۔ پوری رات گزرنے کے بعد، جیسا کہ آپ توقع کرسکتے ہیں، ان کی توجہ میں کوتاہیاں (بہت سے سائنسدان مائکرو سلیپ سمجھے جاتے ہیں) زیادہ کثرت سے ہوتی ہیں۔ لیکن روڈ سیفٹی کے حوالے سے خطرناک حد تک. انھوں نے پایا کہ جب لوگوں کو لگاتار 14 دن رات میں چھ گھنٹے کی نیند آتی ہے تو ان کے پاس اتنی ہی مائیکرو سلیپ ہوتی ہے جتنی کہ پوری رات کی نیند سے محروم رہنے والے لوگ۔



No comments:

Post a Comment