Tuesday, 13 February 2024

اتراکھنڈ والے یوسی سی پر ایک سرسری نظر

اتراکھنڈ والے یوسی سی پر ایک سرسری نظر
(بقلم: محمود احمد خاں دریابادی)
اتراکھنڈ میں اینٹی مسلم کوڈ بل جس کو یونیفارم سول کوڈ (یوسی سی) بل کہتے ہیں پاس ہوگیا، کہنے کو تو اسے یکساں کہا جارہا ہے، مگر کچھ لوگ خاص کر قبائلیوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، ( بھاجپا کے عقلمندوں کی یکسانیت ایسی ہی ہوتی ہے). حالانکہ ایک ملک ایک قانون کی دہائی ہمیشہ دی جاتی رہی ہے، اس کے باوجود شادی میں الگ الگ طبقات کے رسوم و رواج (پرسنل لا) کا لحاظ رکھا گیا ہے، مثلا شمالی ہند میں ماما بھانجی کی شادی نہیں ہوسکتی، مگر جنوب میں ایسی شادیوں کو بہت مبارک سمجھا جاتا ہے، اسی طرح کہیں سات پھیرے، کہیں ورمالا وغیرہ کے ذریعے شادی کا بندھن قائم ہوتا ہے.  اتراکھنڈ والے یکساں سول کوڈ میں ایسے رسوم رواج کو یکساں نہیں کیا گیا، یعنی جہاں جس طرح شادیاں ہوتی ہیں اُسی طرح ہوتی رہیں گیاـ (پھر بھی اس بل کو یکساں سول کوڈ ہی کہا جارہا ہے، ہے نا تعجب کی بات؟) وہ تو خیر ہوئی کہ ہندوؤں میں الگ الگ علاقوں کی یہ الگ الگ رسمیں ہیں اگر یہ نہ ہوتیں تو شاید طلاق کی طرح مسلم نکاح کی رسم کو بھی ختًم کردیا جاتا، اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ ہندو ہو یا مسلمان سب کے لئے شادی کا رجسٹریشن ضروری ہے ورنہ بھاری جرمانہ لگے گا، زبانی طلاق سسٹم ختم کردیا گیا ہے، ایک طلاق ہو یا تین عدالت کے ذریعئے ہی نافذ ہوگی ـ یاد کیجئے جن دنوں تین طلاق ختم کرنے کا قانون زیربحث تھا اس وقت کچھ لوگ فقہی مباحث کا سہارا لے کر تین طلاق ختم کرنے پر خوشی کا اظہار کررہے تھے، تب بھی ہم نے کہا تھا کہ زیادہ خوشی کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں حکومت کا ارادہ صرف تین طلاق ختم کرنے کا نہیں بلکہ یہ ہم سے طلاق کا حق ہی چھیننا چاہتی ہے چنانچہ اتراکھنڈ میں یہ حق چھین لیا گیا، جلد ہی دوسری ریاستوں میں بھی چھیننے کی تیاری کی جارہی ہے ـ جب کہ یہ اور اس بل میں درج دیگر دفعات بھی قران وحدیث کے صریح خلاف ہیں ـ قران حدیث ہمارے مذہب کی بنیاد ہیں، دستور ہند کی دفعہ ۲۵ ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی گارنٹی دیتی ہے ـ (مگر بھاجپا حکومت میں دستور وستور کی کوئی حیثیت نہیں رہی مودی جی جو فرمادیں بس وہی دستور ہے)
اس قانون کے نفاذ کے بعد شاید شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 جس کے تحت مسلمانوں کو اپنے پرسنل لا پر عمل کی اجازت ملی ہے کالعدم ہوجائے، مگر کیا ہندو کوڈ بل اور ہندو غیرمنقسم خاندان کو ملنی والی رعایتیں بھی ختم ہوں گی؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیا یکسانیت اسی کا نام ہے کہ ایک طبقے کے غیر منقسم خاندان کورعایتیں دی جائیں اور دوسرا طبقہ (مسلم) اس سے محروم رہے؟
اس قانون میں حلالہ اور عدت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، اب بھاجپا کے مسلم دشمنی میں اندھے عقلمندوں کو کون سمجھائے کہ جب آپ نے تین طلاق پر پابندی عائد کردی تو اب کاہے کا حلالہ؟ ایک طرف تو اس قانون میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر (مسلم غیرمسلم) عورت کو طلاق یا شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کی اجازت ہوگی ـ اب پتہ نہیں بھاجپائیوں کے پاس کون سا پیمانہ ہوگا جس سے یہ پتہ چلے گا کہ طلاق کے بعد عورت نے شادی کی ہے یا حلالہ! (ہمیں لگتا ہے کہ یہ بھی مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا ایک حربہ ہوسکتا ہے کہ ہر مطلقہ کے دوسرے نکاح کے بعد پولیس اُس کے گھر پہونچ جائے کہ بتاو تم نے نکاح کیا ہے یا حلالہ؟ تھانے لے جاکر لاک اپ میں بند کرکے میاں بیوی دونوں کی "پولیسیا" تواضع کی جائےـ) اب رہا عدت کا معاملہ! ہماری سمجھ شریف میں یہ نہیں آتا کہ عدت ختم کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا حکومت ہر مطلقہ عورت کو اس بات کا پابند کرے گی کہ طلاق کے دوسرے دن ہی نکاح ثانی کرلے تاکہ عدت کے نام پر ایک دن کاوقفہ بھی نہ ہوپائے ـ ان عقل مندوں کا شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ عدت دو قسم کی ہوتی ہے، عدتِ طلاق اور عدتِ وفات!  چونکہ یہ قانون مسلم غیرمسلم دونوں کے لئے بنا ہے تو کیا حکومت کسی ہندو ودھوا کو اس پر مجبور کرسکتی ہے کہ وہ شوہر کے مرنے کے بعد دوسرے ہی ہفتے میں کسی دوسرے شخص کے گلے میں ورمالا ڈال کراس کی بیوی بن جائے؟ 
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم میں لڑکی اور لڑکے کا حق برابر ہوگا، اس پر تو ہندو بھائیوں کو بھی اعتراض ہوسکتا ہے اُن کے یہاں آبائی جائیداد خاص طور پر کاشت کی زمین میں لڑکیوں کا حق نہیں ہوتا، سب جانتے ہیں کہ اسلام میں لڑکیوں کا حق لڑکے کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے، (اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں)  مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں لڑکی کو  یا کسی دوسرے وارث کو وصیت وغیرہ کے ذریعئے وراثت سے محروم نہیں کیا جاسکتا، مگر اس قانون میں مورث کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو وصیت کے ذریعئے کسی لڑکی یا لڑکے کو اپنی وراثت سے جزوی یا کلی طور محروم کردے، بلکہ مرنے والا اگر چاہے تو اپنی ساری اولادوں کو اپنی وراثت سے محروم کرکے کسی غیر آدمی کو بھی دے سکتا ہے ـ ایسے میں کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ لڑکے اپنے بوڑھے باپ پر  دباو بناکر لڑکیوں کو باپ کی وراثت سے محروم کرادیں، یا کوئی ایک دبنگ لڑکا یا لڑکی باپ پر پریشر بناکر ساری جائداد اپنے نام کرلے ـ (واضح رہے کہ مجوزہ قانون کی اس کمزوری کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں ہوں گے بلکہ ہندو ودیگر لوگ بھی ہوسکتے ہیں)
اس قانون کی ایک دفعہ ایسی بھی ہے جس میں عورت مرد کا بغیر شادی کے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا یعنی لیوان ریلیشن شپ والوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ تیس دن کے اندر رجسٹرار کے یہاں اپنا رجسٹریشن کروائیں ـ  مطلب یہ کہ ایک عورت مرد انتیس دن تک بلا کسی روک ٹوک کے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں،اس دوران اگر پولیس وغیرہ پوچھے تو بتاسکتے ہیں کہ ابھی ہمارے تیس دن پورے نہیں ہوئے ـ تیس دن پورے ہونے سے پہلے اگر لڑکا لڑکی چاہیں تو تعلق ختم کرکے کسی دوسرے کے ساتھ جوڑی بناسکتے ہیں ـ گویا ایک دو دن، ہفتے دو ہفتے سے لے کر انتیس دن تک جتنی چاہے جوڑیاں بدلئے قانون اس کی اجازت دیتا ہے ـ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح حکومت شادیوں کو مشکل بناکر بغیر شادی کے جنسی تعلقات قائم رکھنے کی ترغیب نہیں دے رہی ہے؟  کیا اس سے فحاشی اور جسم فروشی کی لعنت میں اضافہ نہیں ہوگا ـ (یہ مسئلہ بھی صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندستانی کلچر جس میں ستی ساوتری کی بڑی اہمیت ہے پر یقین رکھنے والوں کو بھی غور کرنا چاہئےـ ) 
اسی قانون میں لیوان ریلیشن شپ میں پیدا ہونے والی اولاد کو بھی حقیقی اولاد کی طرح کے حقوق دئے گئے ہیں، یعنی اس کو بھی وراثت میں برابر کا حق دیا گیا ہے ـ (ہندؤں کو اس پر بھی سرکار سے احتجاج کرنا چاہئے، اُن کے یہاں بھی ناجائز اولاد کو کچھ نہیں ملتا)
ہمارے قانون دانوں کو بنظر غائراس بل کا مکمل جائزہ لینا چاہئے، ہم قانون کے جانکار نہیں ہیں تاہم اس بل کا سرسری مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس بل کا اصل مقصد تو مسلمانوں اور مسلم پرسنل لا کو نشانہ بنانا تھا مگر شاید جلدبازی میں یہ دو دھاری تلوار ہندؤں اور دیگر طبقات پر بھی چل گئی ہے ـ
محمود احمد خاں دریابادی 
11 فروری 2024 شب ایک بجے ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/02/blog-post_24.html

No comments:

Post a Comment