Tuesday, 13 February 2024

چہرہ دیکھ کر مرض کا پتہ لگا لینے والے حکیم اجمل خان

  چہرہ دیکھ کر مرض کا پتہ لگا لینے والے حکیم اجمل خان

آج جب کوئی شخص ہندستان کے دارالحکومت نئی دہلی کے قلب ’کناٹ پلیس‘ سے پنچکویاں روڈ کی طرف بڑھتا ہے تو ’آر کے آشرم میٹرو‘ سے تھوڑے فاصلے پر ایک خستہ حال سفید دروازہ ہے جس کے باہر ہمہ وقت بہت گہما گہمی نظر آتی ہے۔آپ پھاٹک عبور کر کے بستی حسن رسول میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے گھروں کیساتھ بہت سی قبریں نظر آتی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ قبرستان ہے یا بستی۔ لوگ قبروں کے گرد خوش گپیاں کرتے پائے جاتے ہیں۔ گاہے گاہے گھروں سے ڈھول باجے اور موسیقی کی مشق کرنے والے کچھ لوگوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔اسی عالم میں آپ ایک معمر شخص سے حکیم اجمل خان کی قبر کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں تو رمضان نامی وہ شریف آدمی آپ کو اشارے سے وہاں جانے کی راہ بتا دیتا ہے۔اب آپ اس قد آور شخصیت کی انتہائی معمولی نظر آنے والی قبر کے پاس کھڑے ہیں جو کبھی ہندوستان کی اہم سیاسی جماعتوں کانگریس، مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے صدر ہوا کرتے تھے۔وہ یونانی حکمت کے ایک اعلیٰ طبیب تھے جو روزانہ سینکڑوں مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے اور اسی نسبت سے کچھ لوگوں نے انھیں ’مسیح الہند‘ بھی کہا ہے۔حکیم اجمل خان کی قبر کے سامنے ایک ادھیڑ عمر کی عورت بیٹھی ہیں جن کا نام فوزیہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ حکیم صاحب کی قبر کی دیکھ بھال کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں ہم قرآن خوانی کرتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔‘حکیم صاحب کی قبر پر چند سوکھے گلابوں کیا پتیاں اور پھول بکھرے پڑے ہیں۔فوزیہ کہتی ہیں کہ ’کوئی مشہور شخص یا حکیم صاحب کے خاندان کا کوئی فرد فاتحہ کیلئے قبر پر نہیں آتا۔‘تاہم اس الزام کو حکیم صاحب کے پڑپوتے اور سپریم کورٹ کے وکیل منیب احمد خان نے مسترد کر دیا ہے۔وہ کہتے ہیں: ’میں حکیم صاحب کے یوم پیدائش (11 فروری) پر اپنے بھائی اور خاندان کے افراد کیساتھ قبر پر ضرور آتا ہوں۔ یہ کمپاو¿نڈ ہمارے خاندان کا تھا۔ ہمارے بزرگ یہاں دفن ہیں لیکن اب اس پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔‘ان کا اشارہ اس عورت کی طرف تھا جو حکیم صاحب کی قبر کی حفاظت کا دعویٰ کر رہی تھی۔

جب گاندھی جی حکیم صاحب سے ملے:

منیب احمد خان دہلی کے مشہور لال کوان میں شریف منزل نام کی اسی حویلی میں رہتے ہیں جو حکیم صاحب کا گھر ہوا کرتا تھا۔ گاندھی جی اور کستوربا گاندھی 13 اپریل 1915 کو ا±ن کی اسی رہائش گاہ پر حکیم صاحب سے ملنے آئے تھے۔ گاندھی جی پہلی بار 12 اپریل 1915 کو دہلی آئے اور کشمیری گیٹ پر واقع سینٹ ا سٹیفن کالج میں ٹھہرے۔حکیم صاحب 14 اپریل کو گاندھی جی اور کستوربا گاندھی کو لال قلعہ اور قطب مینار کی سیر کیلئے دہلی لے گئے تھے۔ وہ سب اس وقت گھوڑا گاڑی پر سوار ہو کر ان تاریخی مقامات کو دیکھنے گئے ہوں گے۔ حکیم صاحب نے یہاں گاندھی جی کیلئے ویشنو (ہندو عقیدے کا خالص سبزی والا کھانا) کھانے کا انتظام کیا تھا۔دہلی کے مو¿رخ آر وی اسمتھ نے لکھا ہے کہ ’دین بندھو اور سی ایف اینڈریوز نے دہلی میں گاندھی جی کی حکیم اجمل خان سے ملاقات کروائی۔ حکم صاحب گاندھی جی سے عمر میں چھ سال بڑے تھے۔ ان کے کہنے پر گاندھی جی سینٹ سٹیفن کالج میں رہے۔ سی ایف اینڈریوز سینٹ ا سٹیفن کالج میں پڑھاتے تھے اور دہلی برادر ہڈ سوسائٹی سے وابستہ تھے۔‘

چہرے سے مرض کی تشخیص کر لیتے تھے:

حکیم عبدالحمید نے ہند پاک کا معروف ’ہمدرد دواخانہ‘ اور جامعہ ہمدرد یونیورسٹی قائم کی۔ انھوں نے راقم الحروف کو سنہ 1995 میں اپنے کوٹلیہ مارگ والے گھر میں بتایا کہ حکیم اجمل خان صاحب کے پاس عورتوں کے حیض اور مرگی وغیرہ کیلئے بے مثال دوائیں تھیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حکیم اجمل کی دوائیں کھا کر نواب رام پور کی بیگم بسترِ مرگ سے اٹھ گئیں جس کے بعد وہ نو سال تک نواب آف رام پور کے حکیم رہے۔‘حکیم صاحب کی موت بھی رام پور میں ہوئی۔ دہلی کے بہت سے بوڑھے لوگ دعویٰ کرتے تھے کہ انھیں طب کی دنیا میں ملکہ اور خاصہ حاصل تھا اور وہ اپنے کام میں اتنے ماہر تھے کہ مریض کی کسی بھی بیماری کو اس کا چہرے دیکھ کر ہی معلوم کر لیتے تھے۔

طبیہ کالج کس کی خواہش پر کھولا گیا؟

پہلی ملاقات کے بعد گاندھی جی اور حکیم اجمل خان کے درمیان گہرا تعلق پیدا ہو گیا۔ گاندھی جی نے خود حکیم اجمل خان کو مشورہ دیا کہ وہ دہلی میں ایک بڑا ہسپتال قائم کریں تاکہ یہاں کی آبادی کو فائدہ ہو۔ اس وقت تک حکیم صاحب صرف لال کنواں سے پریکٹس کرتے تھے۔انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ لال کنواں چھوڑ کر باہر مریضوں کو دیکھیں گے۔ انھیں گاندھی جی کا مشورہ پسند آیا۔ اس کے بعد قرول باغ میں ایک نئے ہسپتال اور کالج کیلئے زمین دیکھی گئی۔ جب زمین مل گئی تو حکیم صاحب نے گاندھی جی کو 13 فروری 1921 کو طبیہ کالج اور ہسپتال کا افتتاح کرنے کیلئے مدعو کیا۔

شریف منزل کتنی پرانی ہے؟

حکیم صاحب کی آبائی حویلی شریف منزل سنہ 2020 میں اپنا 300 سال کا سفر مکمل کر چکی ہے۔ اس کی تعمیر سنہ 1720 میں ہوئی تھی۔ شریف منزل کو دہلی کے قدیم ترین آباد مکانات میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔ اب حکیم اجمل خان کے پڑپوتے حکیم مسرور احمد خان اپنے خاندان کیساتھ وہاں رہتے ہیں۔حکیم اجمل خاں نے ہندوستان کی آزادی کی لڑائی اور عدم تعاون کی تحریک میں گاندھی کا ساتھ دیا تھا۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی منتخب ہوئے اور 1921 میں احمد آباد میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس کی صدارت کی۔ حکیم صاحب کانگریس کے صدر بننے والے پانچویں مسلمان تھے۔ اس سے پہلے وہ 1919 میں مسلم لیگ کے صدر بھی رہے تھے۔ انھوں نے 1906 میں ڈھاکہ میں منعقد ہونے والی مسلم لیگ کی پہلی کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی۔وہ سنہ 1920 میں آل ہندستان خلافت کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ واضح رہے کہ خلافت کمیٹی ترکی میں خلافت کی بحالی کیلئے قائم کی گئی تھی۔ دہلی حکومت کی ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ ہندو مہاسبھا کے صدر بھی تھے۔ ( #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2024/02/blog-post_13.html



No comments:

Post a Comment