Wednesday, 14 February 2024

دیوارِ چین کے بارے میں وہ 5 مفروضے جو بالکل غلط ہیں

 دیوارِچین کے بارے میں وہ 5 مفروضے جو بالکل غلط ہیں

ہندستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں دیوارِ چین کا وجود تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ قدیم چین میں تعمیر جانے والی ان دیواروں اور قلعوں میں سے ایک ہے جسے تقریباً 500 سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔اس کی لمبائی کے اندازے تقریباً 2400 کلومیٹر سے 8000 کلومیٹر کے درمیان لگائے جاتے رہے ہیں مگر سنہ 2012 میں چین کی وزارت برائے ثقافتی ورثہ نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا کہ دیوارِ چین کی کل لمبائی تقریباً 21 ہزار کلومیٹر ہے۔ یہ دیوار دنیا بھر میں اتنی مقبول ہے کہ ہر کوئی اس کے متعلق جانتا ہے مگر اس کے بارے میں بہت سے مفروضے اور غلط معلومات بھی موجود ہیں۔ ذیل میں ’دی گریٹ وال آف چائنا‘ کے مصنف جان مین کی مدد سے اس شاندار فن تعمیر کے متعلق پانچ مفروضوں کے متعلق وضاحت پیش کی گئی ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

1۔ یہ چاند سے دیکھی جاسکتی ہے:

امریکی خاکہ نویس رابرٹ رپلے نے سب سے پہلے اس مفروضے کو عام کیا تھا کہ دیوارِ چین چاند سے بھی نظر آتی ہے۔ اپنی ایک فلم ’بیلیو اٹ اور ناٹ!‘ میں انھوں نے دیوار چین کو ’انسان کا سب سے طاقتور کام‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اسے چاند سے بھی انسانی آنکھ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔یقیناً یہ دعویٰ ٹھوس شواہد پر مبنی نہیں تھا کیونکہ یہ کسی بھی انسان کے چاند پر جانے سے 30 برس قبل کیا گیا تھا۔یہاں تک کہ تاریخ و ثقافت پر نامور چینی ماہر اور ’سائنس اینڈ سولائزیشن اِن چائنا‘ کے مصنف جوزف نیدھم نے کہا کہ ’دیوار چین انسان کی وہ واحد تعمیر ہے جسے مریخ کے ماہرین فلکیات بھی دریافت کرسکتے ہیں۔‘ البتہ ان کے اس دعوے کو خلا بازوں نے مسترد کر دیا تھا مگر پھر بھی چاند سے دیوار چین نظر آنے والی بات کو ایک حقیقت ہی مانا گیا۔ مگرسال 2003 کے دوران چین کی پہلی خلائی پرواز کے دوران خلا باز یانگ لیوائی نے اس مفروضےکو ہمیشہ کیلئے دفن کرتے ہوئے کہا کہ انھیں خلا سے زمین پر کچھ دکھائی نہیں دیا تھا۔

2۔ یہ ایک ہی دیوار ہے:

ایک مفروضہ یہ ہے کہ یہ ایک ہی طویل دیوار ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اس کے بہت سے حصے ہیں۔ اور ان میں سے بہت کم اس شاندار تخلیق سے مشابہت رکھتے ہیں جس کا سیاح دورہ کرتے ہیں۔اس کے وہ حصے جن کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی گئی ہے ان حصوں سے جا ملتے ہیں جو جنگلوں اور بیابانوں سے گزرتا ہے اور جہاں پیدل چلنے والوں کو جانے کی ممانعت ہے۔ یہاں جھاڑیاں بھی ہیں اور کھنڈرات بھی، اور یہ حصے آبی ذخائر سے جا ملتے ہیں۔ بہت سے حصوں پر یہ دیوار دہری، تہری حتیٰ کہ چار تہوں میں بنی ہوئی ہے اور یہ حصے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔دیوار چین کا جو حصہ آپ بیجنگ کے اِرد گرد دیکھتے ہیں وہاں آثار قدیمہ کی نشانیاں ہیں جن میں سے کچھ اسی دیوار کے بالکل نیچے موجود ہیں۔اور یہ منقسم حصے دیگر مٹی سے بنی دیواروں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں، جو مغربی چین کی طرف متوازی اور بکھرے ہوئے حصوں میں بنی ہیں۔

3۔ یہ منگولوں کو چین سے دور رکھنے کیلئے تعمیر کی گئی:

دیوار چین کی تعمیر کا سب سے پہلے حکم چین کے اس بادشاہ نے دیا تھا جن کی وفات تقریباً 210 قبل از مسیح میں ہوئی تھی: یعنی منگولوں کے منظرعام پر آنے سے قبل، کیونکہ منگول قریباً 800 عیسوی کے قریب آئے تھے۔پھر چین کو خطرہ ڑینگووں سے ہو گا جو ممکنہ طور پر ہنووں کے آباواجداد تھے۔منگولوں کے ساتھ جنگ 14ویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی تھی جب بادشاہ مِنگ نے منگولوں کو چین سے نکال دیا تھا۔

4۔ دیوار چین میں مزدوروں کی لاشیں دفن ہیں:

دیوارچین کے متعلق کئی ایسی افواہیں گردش کرتی ہیں کہ دیوار چین میں اسے تعمیر کرنے والے مزدوروں کی لاشیں دفن ہیں۔ان کہانیوں نے غالباً ہان بادشاہت کے دور کے ایک اہم مورخ سیما کیان سے جنم لیا ہے جنھوں نے اپنے ہی شہنشاہ کو اپنے پیشرو سلطنت قن کی توہین کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔تاہم اس دیوار سے کبھی کوئی انسانی ڈھانچے یا ہڈیاں برآمد نہیں ہوئیں اور نہ ہی اس کے کوئی شواہد ملے ہیں۔ اور نo ہی ان افواہوں کا آثار قدیمہ یا پرانی یادداشتوں میں کوئی ذکر ملتا ہے۔

5۔ مارکوپولو نے اسے دیکھا تھا:

یہ سچ ہے کہ مارکو پولو نے کبھی دیوار چین کا ذکر نہیں کیا، اور دیوار چین کا تذکرہ صرف ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا کہ وہ کبھی چین نہیں گیا تھا۔اس وقت (13 ویں صدی کے آخر میں) تمام چین پر منگولوں کی حکومت تھی، اس لیے دیوار بے کار ہو چکی ہو گی کیونکہ حملہ آوروں نے 50 سال پہلے چنگیز خان کے دور میں شمالی چین کو تباہ کر دیا تھا۔منگول جنھوں نے جنگ کے دوران دیوار چین کو نظر انداز کیا تھا، انھیں امن کے دور میں اس کا ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔مارکوپولو نے یقیناً اسے بیجنگ سے شانگڈو میں قبلائی خان کے محل جانے کے دوران متعدد مرتبہ عبور کیا ہو گا لیکن ان کے پاس اس کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔
https://saagartimes.blogspot.com/2024/02/5.html


No comments:

Post a Comment