Tuesday, 20 February 2024

ہم اپنے دماغ کو صحت مند اور تیز کیسے بناسکتے ہیں؟

ہم اپنے دماغ کو صحت مند اور تیز کیسے بناسکتے ہیں؟

مرکزی دارالحکومت دہلی سمیت دنیا بھر میں تیزی سے بدلتی دنیا، مسلسل ترقی کرتی ٹیکنالوجی اور اس کے باعث ہماری روزمرہ کی زندگی میں تبدیلیاں۔ ہمارا دماغ ان تمام چیزوں کیلئے نہیں بنایا گیا تھا جو آج ہم کرتے ہیں۔ پھر بھی، ہم اس جدید دنیا کیساتھ اچھی طرح ڈھل چکے ہیں اور تبدیلیوں کے مطابق خود کو مسلسل بدل رہے ہیں۔یہ سب ہمارے دماغ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ دماغ ہمارے جسم کا ایسا عضو جو خود کو ڈھالنے، سکھانے اور تیار کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے اس حیرت انگیز عضو کو صحت مند کیسے رکھ سکتے ہیں؟ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم دماغ کی صلاحی ت کو بڑھا سکتے ہیں اور اسے تیز کر سکتے ہیں؟ بی بی سی کی ملیسا ہوگن بام نے ایک نئی تحقیق کا مطالعہ کیا اور ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کیلئے کچھ ماہرین سے بات کی۔

انگلینڈ کی یونیورسٹی آف سرے میں کلینیکل سائیکالوجی کے پروفیسر تھورسٹین بارن ہوفر نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم اپنے دماغ کی صلاحیتوں کو کئی طریقوں سے بڑھا سکتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’کچھ ایسے عمل ہیں جو تناو کو کم کرتے ہیں اور صرف چند ہفتوں میں ’نیوروپلاسٹیسٹی‘ کو فروغ دیتے ہیں۔ نیوروپلاسٹیسٹی کو بڑھا کر، ڈیمنشیا جیسی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے اور یہاں تک کہ نفسیاتی صدمے کی وجہ سے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔‘



مگر یہ نیوروپلاسٹیسیٹی کیا ہے؟

نیوروپلاسٹیسیٹی موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر ہمارے دماغ کی خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہے یا سادہ الفاظ میں ہمارے اعصابی نظام کی لچک۔لکھنو¿ میں ماہر نفسیات راجیش پانڈے نے بی بی سی کو بتایا کہ نیورو پلاسٹیسیٹی دراصل ہمارے دماغ میں موجود نیورونز، جنھیں عصبی خلیے بھی کہا جاتا ہے، میں بننے اور تبدیل ہونے والے رابطے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا دماغ ایک وائرنگ سسٹم جیسا ہے۔ دماغ میں اربوں نیوران ہوتے ہیں۔ ہمارے حسی اعضا جیسا کہ آنکھ، کان، ناک، منہ اور جلد بیرونی معلومات کو دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ ’یہ معلومات نیوران کے درمیان روابط بنا کر دماغ میں محفوظ کی جاتی ہیں۔‘

راجیش کہتے ہیں کہ ’جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو یہ نیوران بہت کم رابطوں میں ہوتے ہیں۔ اضطراری رابطے پہلے سے موجود ہیں، جیسا کہ بچے کا ہاتھ کسی گرم چیز کیساتھ لگنے سے اس کا اپنے ہاتھ کو فوراً سے اپنی جانب واپس کھینچنا وغیرہ۔ لیکن وہ زمین سے پکڑ کر کیڑا یا کوئی مضر رینگنے والا جانور اٹھا کر منہ میں ڈال سکتا ہے کیونکہ اس کے دماغ میں ایسے کنکشن نہیں ہوتے جو اسے یہ بتا سکیں کہ ایسا کرنا خطرناک ہے۔ مگر وقت کیساتھ بچہ سیکھتا رہتا ہے اور اس کے دماغ میں اعصابی رابطے بنتے رہتے ہیں۔‘راجیش پانڈے بتاتے ہیں کہ ’نئے تجربات کیساتھ یہ رابطے بھی بدل جاتے ہیں۔ اس پورے عمل کو نیوروپلاسٹیسٹی کہتے ہیں۔ یہ سیکھنے، تجربات تخلیق کرنے اور یادوں کو ذخیرہ کرنے کا پس پردہ عمل ہے۔‘

نیوروپلاسٹیسٹی کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟

پروفیسر تھورسٹن بارن ہوفر کا کہنا ہے کہ ’دماغ کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے دماغ میں تناؤ بڑھتا ہے۔‘وہ بتاتے ہیں کہ بار بار ایک ہی چیز کی فکر کرنا نقصان دہ ہے کیونکہ اس سے دماغ میں کورٹیسول ہارمون کی سطح بڑھ جاتی ہے۔یہ ہارمون دماغ کیلئے نقصان دہ ہے اور نیوروپلاسٹیسٹی کیلئے رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ اس سے بچنے کا طریقہ ذہن سازی ہے۔ذہن سازی کا سیدھا مطلب ہے اپنے ارد گرد کے ماحول، اپنے خیالات اور اپنے حسی اعضا (آنکھیں، کان، ناک، منہ، جلد) سے آگاہ ہونا۔ اس کا مطلب ہے کہ زیادہ سوچے بغیر اس پر توجہ دیں کہ آپ اس وقت کیا محسوس کر رہے ہیں۔ماہر نفسیات راجیش پانڈے بتاتے ہیں کہ ’اگر سادہ زبان میں سمجھا جائے، تو ذہن سازی کا مطلب یہ جاننا ہے کہ دماغ میں باہر سے ہمارے حسی اعضا کے ذریعے کیا معلومات آرہی ہیں اور دماغ کے اندر پہلے سے موجود معلومات کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔‘مراقبے کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’سادہ زبان میں، یہ آپ کے حسی اعضا پر توجہ مرکوز کرنے کا عمل ہے۔ آپ کی سانس لینے پر توجہ دینا یا محسوس کرنا کہ موسم گرم ہے یا ٹھنڈا۔اس سے اعصابی رابطے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی شخص دن میں صرف 15 منٹ تک ان حسی اعضا پر توجہ دے تو اس کا چلنا، بولنا، ہنسنا، مسکرانا، سب کچھ بدل جائے گا۔‘

حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیوروپلاسٹیسٹی کے عمل کے دوران دماغ کی ساخت بھی بدل جاتی ہے۔اس کو جانچنے کیلئے، بی بی سی کی میلیسا ہوگن بوم نے ایک بار اپنے دماغ کا سکین کروایا، چھ ہفتوں تک مراقبہ کیا اور پھر دوبارہ سکین کروایا۔پچھلے اور نئے سکین کا موازنہ کرنے کے بعد، پروفیسر بارن ہوفر نے کہا کہ چھ ہفتوں میں میلیسا کے دماغ میں نیوروپلاسٹیسٹی میں اضافہ ہوا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’دماغ کے دائیں حصے کا سائز کم ہو گیا ہے۔ یہ تناو میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں میں بڑھتا ہے جن کو پریشانی اور تناو ہوتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے کہ ذہن سازی کی تربیت نے اس کا سائز کم کیا۔ دماغ کے پچھلے حصے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ’اس کا مطلب ہے کہ ذہن میں خلفشار میں کمی آئی ہے۔‘ماہرین کا کہنا ہے کہ ورزش دماغ میں نیوروپلاسٹیسٹی بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔اٹلی کے ’سینٹرو نیورولیسی‘ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر اینجلو کواٹرون کے مطابق اگر روزانہ 30 منٹ اور ہفتے میں چار سے پانچ دن ورزش کی جائے تو اس کے دماغ پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یونیورسٹی آف سیکسکس میں تقابلی ادراک کے پروفیسر گیلین فورسٹر نے کہا کہ دماغ میں ہونے والی سرگرمیاں اور تبدیلیاں جسمانی حرکات سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ اگر کسی کو بولنے میں دقت ہوتی ہے تو بولتے وقت ہاتھ کے اشارے سے مدد لے سکتا ہے۔ دراصل ہمارے دماغ کا وہ حصہ جو بولنے میں مدد کرتا ہے اس حصے سے جڑا ہوا ہے، جیسا کہ ہاتھ، ٹانگوں یا بازووں کی مدد سے کام کرنے میں مدد کرتا ہے۔ شاید یہ اس لیے ہوا کیونکہ زبان کی ابتدا اشاروں سے ہوتی ہے۔‘

یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف سائیکالوجی میں ڈاکٹر اوری اوسمی کا کہنا ہے کہ مراقبہ کے علاوہ جسمانی ورزش بھی تناؤ کو کم کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا دماغ ہر وقت خود کو بدلتا رہتا ہے۔ لیکن یہ عمل بچوں میں تیزی سے ہوتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جو بچے اپنے بازووں اور ٹانگوں کو نارمل سطح پر حرکت دیتے ہیں وہ بعد میں اچھی طرح بول سکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ایسا نہیں کرتے، ان میں سے کچھ کو بعد میں بولنے یا سماجی رویوں میں دشواری ہوسکتی ہے۔‘ ماہر نفسیات راجیش پانڈے بتلاتے ہیں کہ صرف ورزش ہی نہیں بلکہ کوئی بھی نیا کام کرنا جیسے موسیقی یا زبان سیکھنا نیورو پلاسٹیسٹی کو بڑھا سکتا ہے کیونکہ جب ہم کچھ نیا دیکھتے، سیکھتے یا سوچتے ہیں تو دماغ میں نئے اعصابی رابطے بنتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’انسانی دماغ زندگی بھر کے اعصابی رابطے بنا سکتا ہے۔ آپ 80 سال کی عمر میں بھی نئی زبان سیکھ سکتے ہیں۔ کسی نئی جگہ جانے، روٹین کو توڑ کر کچھ نیا کرنے کے بہت سے فائدے ہیں۔ ہمیں بس اسے نئے تجربات دیتے رہنا ہے۔‘

دماغی نقصان کا علاج:

اٹلی کے ’سینٹرو نیورولیسی‘ انسٹیٹیوٹ میں اعصابی مسائل میں مبتلا مریضوں کا جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے علاج کیا جاتا ہے۔اس ادارے کے ڈائریکٹر پروفیسر اینجل کواٹرون کا کہنا ہے کہ جو لوگ چل نہیں سکتے، ان کیلئے خصوصی گیمز بنائی گئی ہیں۔ یہ ان کے دماغ کو سگنل بھیجتی رہتی ہیں اور اس سے پلاسٹیسیٹی بڑھ جاتی ہے اور دماغ ان رابطوں کو دوبارہ بنانے کے قابل ہوتا ہے جو کسی حادثے یا فالج کی وجہ سے ٹوٹ گئے ہیں۔ اسے ’ری وائرنگ‘ کہتے ہیں۔

مستقبل میں سیکھنے کا عمل آسان ہوجائے گا:

اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ بچوں میں نیوروپلاسٹیسٹی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اب پوری دنیا میں اس کا استعمال دماغ کو فعال رکھنے اور اس سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کیلئے بالغوں میں کیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج میں تجرباتی نفسیات کے پروفیسر زوئے کورٹیزی کا کہنا ہے کہ ہر انسان کے دماغ میں سیکھنے کی اپنی تال بھی ہوتی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کی سائنس صحافی میلیسا ہوگن بوم کو بتلایا کہ ’ہر انسان کا دماغ اپنی تال میں کام کرتا ہے۔ اگر اس شخص کو اس کے دماغ کی تال کے مطابق معلومات دی جائیں تو وہ تیزی سے سیکھ سکتا ہے۔‘کیمبرج یونیورسٹی میں کیے گئے ایک تجربے میں لوگوں کو حل کرنے کیلئے کچھ سوالات دیے گئے۔ پھر اس کے دماغ کی برقی سرگرمی کی پیمائش کی گئی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اس کا دماغ کس تال میں کام کررہا ہے۔ پھر جب اس تال کے مطابق سوالات دیے گئے تو وہ انھیں بہتر طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں لوگوں کو ان کے دماغ کی تال کے مطابق بہتر طریقے سے سکھایا جاسکتا ہے، ان کی نیوروپلاسٹیٹی کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ( #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2024/02/blog-post_20.html




No comments:

Post a Comment