دھوپ سینکئے اور بانجھ پن سے بچئے
ایک طرف مرکزی دارلحکومت دہلی سمیت ملک بھر کے شہروں میں فلیٹ کلچر فروغ پارہا ہے تو دوسری جانب ایک طویل اور منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ درمیانی عمر کی خواتین کی جانب سے دھوپ سینکنا انہیں بانجھ پن سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ اکثر فلیٹوں کی حیثیت کسی ڈربے سے کم نہیں ہوتی اور ان میںنہ صرف دھوپ بلکہ قدرتی روشنی اور تازہ ہوا کا بھی فقدان ہوتاہے۔تاہم طبی جریدے اسٹیرائڈز میں شائع تحقیق کیلئے مطاہرین نے 20 سے 40 سال کی خواتین میں بانجھ پن اور زرخیزی جاننے کیلئے منفرد تحقیق کی اور ماہرین نے خواتین کو مختلف گروپوں میں تقسیم کرکے انہیں چار سال تک دھوپ سینکنے کا کہا۔ماہرین نے 20 سے 29 سال تک کی خواتین کو ایک گروپ جب کہ 30 سے 40 سال کی عمر کی خواتین کو دوسرے گروپ میں رکھا اور تحقیق شروع کرنے سے قبل خواتین کی زرخیزی جاننے کیلئے ان میں اینٹی ملیرین ہارمون (anti-Müllerian hormone) کی سطح بھی جانچی، مذکورہ ہارمون سے خواتین میں زرخیزی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ماہرین نے خواتین کو موسم خزاں اور بہار سمیت سردیوں اور گرمیوں میں بھی دھوپ سینکنے کی ہدایت کی اور پھر چار سال بعد ان میں زرخیزی کے ہارمون کی سطح کو دیکھا۔ماہرین نے پایا کہ موسم سرما کے مقابلے موسم خزاں اور بہار میں دھوپ سینکنے والی خواتین میں اینٹی ملیرین ہارمون (anti-Müllerian hormone) کی سطح زیادہ ہوگئی، جس کا مطلب ہے کہ ان کی زرخیزی میں اضافہ ہوا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ 30 سال سے کم عمر لڑکیوں کو دھوپ سینکنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، کیوں کہ 30 سال قبل خواتین میں اینٹی ملیرین ہارمون (anti-Müllerian hormone) کی سطح بہتر اور اچھی ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق موسم گرما میں دھوپ سینکنے سے خواتین میں اینٹی ملیرین ہارمون کی سطح مزید بڑھی، تاہم موسم خزاں اور بہار میں بھی دھوپ سینکنے سے خواتین میں زرخیزی بڑھی اور درمیانی عمر کی خواتین کو دھوپ لینا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ماہرین نے تحقیق کے دوران خواتین کے بانجھ پن کی وجوہات نہیں بتائیں، تاہم کہا کہ ادھیڑ عمر خواتین کے ہاں حمل نہ ٹھہرنے کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں، جس میں سے خواتین میں تھائراڈ کے مسائل، اینڈومیٹرایوسس (endometriosis) کی بیماری، پولی سسٹک اوورین سینڈروم (polycystic ovary syndrome) سمیت آٹو امیون ڈیزیز سرفہرست ہیں، تاہم بانجھ پن کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment