اٹھو کہ اب وقت قیام آیا
خطرات کا احساس وشعور ہی افراد واقوام کو متحد ومجتمع کرتا ہے ، ماحول واطراف سے آنکھیں بند کرکے، جہالت، ظلمت، ذلت، عزلت، نفرت، عداوت، شقاوت، ندامت، خجالت، پائمالی، خستہ حالی، زبوں حالی اور احساس کمتری کی زندگی بسر کرنے پر راضی ہوجانا، گرد وپیش کی فضاء کو ہموار کرنے کی کوشش نہ کرنا “ جرم “ ہے اور مسائل کے حل کی راہ ڈھونڈنے کی کوششیں نہ کرنے والے قومی اور ملی مجرم ہیں ،ہندوستان کے حالات ماضی میں بھی خراب رہے ہیں؛ لیکن 2014 میں سنگھ کے پرچارک ورضا کار نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد پورے ملک میں مسلم مخالفت اور اسلام دشمنی کی جو عمومی لہر چل پڑی ہے ، اسے باضابطہ نظریاتی شکل دے کرانتہائی منصوبہ بند طریقے سے ذرائع ابلاغ ، نصاب تعلیم ، فلمز اور دیگر منفی پڑاپیگنڈوں کے ذریعے سماج کے ہر طبقے کے رگ وپا میں رچا بسا دی گئی ہے ، اس مسموم فضا کی ہمواری اور ہندو انتہا پسندانہ سوچ کے پیچھے سینکڑوں متشدد تنظیموں کی قریب ایک صدی سے زیادہ کی بامقصد تنظیم، جدو جہد، بے دریغ تمام وسائل کا استعمال اور محنت کار فرما ہے۔ملک کی مسلم اقلیت کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کر اکثریتی فرقے اور ہندوانہ کلچر میں ضم کردینے کے سارے جتن کئے جارہے ہیں ، ملک کا ایک جمہوری آئین ودستور ہونے کے باوجود منو سمرتی کی بنیاد پر ملک کو چلایا جارہا ہے ۔ جرمنی کے ہٹلر کی سفاکیت اور قتل عام کو یہاں کے نسل پرست ہندو آئیڈیل مانتے ہوئے اسے مسلمانوں پہ آزمانے کی کوششیں کررہے ہیں، آئین وقانون کے رکھوالے "سیاہ پوشوں" کے عدل کے ہتھوڑوں کے ذریعے رہ رہ کر جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے، مسلمانوں کا پورا وجود وتشخص مٹادینے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی اعتبارسے منتشر ، ٹکڑوں اور ٹولیوں میں منقسم کمزور وجاں بلب قوم مسلم اس منظم وہمہ گیر فاسشٹ سازشوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ کیا جوشیلی، جذباتی، ہیجان انگیز تقریریں اور غیر ضروری مسائل میں آستین چڑھا کر میدانوں میں کود پڑنےاور طوفانِ "ہاؤ ہو" بپا کرنے سے مسائل حل ہونگے ؟ دبی، کچلی، پِسی، حالات سے دگر گوں، سسکتی اور کراہتی مسلم اقلیت کے مسائل کے لئے ایوان پارلیمنٹ میں مشترکہ ومتفقہ آواز اٹھانے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں، جو ہیں بھی وہ مسائل، مصلحتوں، اندیشہ ہائے دور دراز، خوف اور محبوب کے "زلف گرہ گیر" کے اسیر ہیں. حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ بند لائحہ عمل اور پلان بالکل نہیں ہے، جلسے جلوس میں گلے پھاڑ پھاڑ کے لچھے دار بیانات سے نکل کر زمینی سطح پہ محنت کرنے اور جامع وہمہ گیر منصوبہ سازی اور ملک گیر انقلابی تحریک کا بالکل ہی فقدان ہے.
زمینی محنت، منظم پلاننگ اور باہم مربوط کوششیں فتح یابی میں مؤثر رول ادا کرتی ہیں ، خوش نما ودل فریب جذباتی نعروں ، محض دعائوں اور اوراد ووظائف سے سیاسی میدان نہیں مارے جاتے۔
مسلمانوں کو مایوسی کا شکار ہوکر حوصلہ شکستہ ہونے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن ماضی کی وثنی اور الحادی تحریکات کے برعکس موجودہ تحریک وثنیت کافی منصوبہ بند اور منظم ہے، خطرات کے بادل کافی گہرے ہیں، دفاعی طور پہ ہم خستہ اور زبوں حال ہیں، دشمنوں اور رہزنوں کی کمین گاہوں پر نظر رکھنے والے اولوالعزم "منزل آشنا" چوکنا، بابصیرت وباحوصلہ وباکردار ، عزم وہمت کے پیکر قائدین کی ضرورت ہے. جو پوری جواں مردی وپامردی کے ساتھ موجودہ سازشوں اور یورشوں کا رخ موڑ سکیں ۔
مذہبی منافرت کم کرنے اور اور آپسی محبت پروان چڑھانے کی کوششیں اور مذہبی رواداری کا فروغ یقیناً خوش آئند اور احسن اقدام ہے لیکن یہ سب کچھ اس طرح نہ ہو کہ "وحدت ادیان" یا "دین الٰہی" کی یاد پھر سے تازہ ہوجائے۔ تاریخ ایسی حماقتوں کو رد کرچکی ہے، مذہبی شناخت اور اس کی امتیازی حیثیت باقی رکھتے ہوئے حکیمانہ اور مفاہمانہ کوششیں بروئے کار لائی جاسکتی ہیں۔
سیاسی، مسلکی، ادارہ جاتی انتشار کا شکار منتشر قومیں اسی طرح قسطوں میں ماری جاتی ہیں، اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس قوم کے افراد متحد ہونے کو تیار نہیں ہیں، مذہبی رواداری کے دل رُبا وحسین عنوان پہ وحدتِ ادیان جیسی لایعنی اور تاریخ میں مسترد شدہ کوششوں کو پھر سے نئی جہت اور نئی شکل دی جارہی ہے، ایمان، عقیدہ، علم، عمل، شعور، ادراک، غیرت، حمیت اور خود داری میں ضعف (جرم ضعیفی) کا نتیجہ یہی ہونا ہے جو سامنے ہے :
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اے طائرِ لاہُوتی! اُس رزق سے موت اچھّی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
( 19؍رجب المرجب ، روز چہار شنبہ 1445ھ
31 جنوری 2024ء)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_83.html
No comments:
Post a Comment