Thursday 18 January 2024

خواتین کی صحت پر کم تحقیق سے دنیا کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان

خواتین کی صحت پر کم تحقیق سے دنیا کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان

برصغیر ہندپاک کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں صنف نازک کی ناقدری کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ دریں اثناء سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور مردوں کی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے طریقہ کار میں بہت زیادہ فرق ہے جس سے دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب کا نقصان ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین اپنی زندگی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ خراب صحت کے باعث تکلیف میں گزار دیتی ہیں۔ جس کی ایک وجہ مردوں کی صحت پر زیادہ ہونے والی تحقیق، بیماری کی تشخیص اور علاج کا ممکن ہونا ہے۔ ڈیووس میں پیش ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر مردوں اور خواتین کی صحت کے حوالے سے اس فرق کو ختم کر دیا جائے تو سنہ 2040 تک عالمی معیشت میں سالانہ ایک کھرب ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین مجموعی ملکی پیداوار میں 1.7 فیصد کی ترقی کا سبب بن سکیں گی۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کی صحت پر لگائے گئے ہر ایک ڈالر پر معاشی ترقی کی مد میں تین ڈالر واپس آئیں گے۔ اس معاشی ترقی کی ایک بڑی وجہ بیمار خواتین کا تندرست ہوکر ورک فورس میں واپس شامل ہونا ہے۔ خواتین میں یوٹرس سے جڑے مسائل پر مفصل تحقیق سے سال 2040 تک عالمی مجموعی پیداوار میں 130 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ اینڈومیٹریوسس کی بیماری کا شکار خواتین میں سے نصف سے بھی کم میں اس بیماری کی درست طریقے سے تشخیص کی گئی ہے۔ ڈیووس میں پیش ہونے والی رپورٹ میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ علاج اور تشخیص سے کس طرح سے مردوں کو خواتین کے مقابلے میں زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔ جیسے کہ سانس کی بیماری استھما کیلئے استعمال ہونے والا انحیلر مردوں کے مقابلے میں خواتین کے کیس میں کم موثر ثابت ہوا ہے۔ ماضی میں ہونے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ 700 ایسی مختلف بیماریاں ہیں جن کی خواتین میں تشخیص دیر سے ہوتی ہے جبکہ مردوں میں جلد ہوجاتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے ہیلتھ کیئر کے سربراہ شیام بشن کا کہنا ہے کہ تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کی صحت پر خرچ کرنا ہر ملک کی ترجیح ہونا چاہئے۔ اس موقع پر ورلڈ اکنامک فورم نے خواتین کی صحت کیلئے عالمی اتحاد بنانے کا اعلان کیا جس کے تحت پانچ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر خواتین کی صحت پر خرچ کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔




No comments:

Post a Comment