Tuesday, 23 January 2024

مشرکانہ شعائر ورسومات میں شرکت؟

مشرکانہ شعائر ورسومات میں شرکت؟
-------------------------------
--------------------------------
اسلام مستقل دین، کامل واکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے، ہر مسلمان کو اپنے مذہب کے عقائد واعمال اور احکام و تعلیمات کی صداقت وحقانیت پر دل ودماغ سے مطمئن ہونا اور اعضاء وجوارح سے اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ضروری ہے. کسی دوسری قوم کی عادات و اطوار اور تہذیب و تمدن سے استفادہ وخوشہ چینی (شرکیہ و کفریہ طور طریق کو پسند کرنے) کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے. کفرپسندی یا اس پہ رضا واقرار یا اس کی حمایت ونصرت بندہ مومن کو دین سے خارج کردیتی ہے. اپنے مذہبی حدود وشعار پہ انشراح واستقامت کے ساتھ دیگر اہل مذاہب ہم وطنوں و ہم پیشہ افراد و اشخاص کے ساتھ معاشرتی حسن سلوک و احسان کے تحت اپنی خوشی کے مواقع پہ انہیں بلانا یا شریک طعام کرنا یا خود ان کی خوشی میں ان کی دعوت قبول کرنا امرآخر ہے، وسیع تر دعوتی اور سماجی ومعاشرتی مقاصد کے تحت اس کی تو گنجائش موجود ہے:
ولا بأس بضيافة الذمي، وإن لم يكن بينهما إلا معرفة، كذا في "الملتقط" … ولا بأس بأن يصل الرجل المسلم والمشرك قريبًا كان أو بعيدًا محاربًا كان أو ذميًّا] الفتاوى الهندية" (5/ 347، ط. دارالفكر)
لیکن کفار ومشرکین کے مذہبی اعمال وشعائر کی تعظیم وتائید اور ان میں عملی شرکت اسلامی شعائر وحدود سے تجاوز ہے جو کہ قطعی ناجائز ہے. مشترک سماجی، اجتماعی وملکی مسائل ومعاملات میں دعوتی نقطہ نظر سے اشتراک وتعاون کی گنجائش ہے ؛ لیکن حدود شرعیہ کو پھلاند کر کفریہ وشرکیہ رسومات کی تائید وتحسین (عملی شرکت) ازروئے شرعِ اسلامی ناجائز ہے 
اگر اس پہ قلبی رضا واقرار کا کوئی پہلو متحقق ہو تو اس سے بندہ اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا، مذہبی رواداری مادر پدر آزاد نہیں ہے؛ بلکہ وہ مذہبی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ محدود ومقید ہے، ایک صاحب ایمان کو اپنے ہر عمل کو سنت اور شریعت کی کسوٹی پر جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے، دیگر مذاہب کے عبادت خانوں کی افتتاحی تقریبات کا انعقاد ان کا "اندرون خانہ" خالص مذہبی معاملہ ہے، جس میں تاک جھانک کی ہمیں ضرورت نہیں، کسی کے عمل، طریقے اور رسم ورواج کی تحقیر وتضحیک کئے بغیر ہمیں اسلامی ہدایات پر عمل کی کوشش کرنی چاہئے. اسلامی طریقے سے ہٹ کر شرکیہ وکفریہ تقریبات میں شریک ہونا افسوسناک بھی ہے اور خطرناک وباعثِ ننگ وعار بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: 
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ- 
جو شخص کسی دوسری قوم کے اخلاق وعادات اور طور طریقے کی پیروی کرنے لگے وہ اسی میں سے ہوجاتا ہے. 
(أخرجه أبوداؤد في «اللباس» بابٌ في لُبْسِ الشهرة (٤٠٣١) 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکران کی) تعداد بڑھائے وہ اُن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے.‘‘
وعن ابن مسعود قال قال رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم "مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ وَمِنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ بِهِ (الحافظ الزيلعي في نصب الراية4/ 346 - 347.ط: دار إحياء التراث العربي) 
ایک سچے اور حقیقی مسلمان کے کردار اور دین ومذہب کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ خدا وحدہ لاشریک کی مقدسات اور اسکی عبادات کی تعظیم کرے، رب تعالیٰ کے گناہوں، اس کی ممانعتوں اور ہر اس چیز سے بچتا رہے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتی ہے، وہ ایسی محفلوں اور مقامات پر حاضری وجبہ سائی سے گریز کرے جن میں توحید کے منافی اور مشرکانہ اعمال شامل ہوں:
﴿وَمَن يُعَظِّمۡ حُرُمَٰتِ ٱللَّهِ فَهُوَ خَيۡرٞ لَّهُۥ عِندَ رَبِّهِ﴾
اور جو شخص اللّٰہ تعالٰی کے محترم احکام کی تعظیم کرےگا سو یہ (عمل اُس کے حق میں) اس کے پروردگار کےنزدیک بہت بہتر ہے: الحج ٣٠
﴿وَمَن يُعَظِّمۡ شَعَٰٓئِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقۡوَى ٱلۡقُلُوبِ﴾ 
[اور جو شخص اللہ کےشعائر(دینِ خداوندی) کی تعظیم کرےگا تو یہ (تعظیم کرنا) دلوں کےتقویٰ سے (حاصل) ہوتا ہے: الحج ٣٢]
﴿وَٱلَّذِينَ لَا يَشۡهَدُونَ ٱلزُّورَ﴾ 
[اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے: الفرقان: ٧٢] 
{فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ}
(تو تم لوگ گندگی یعنی بتوں اور جھوٹی بات سے (اس طرح) کنارہ کش رہو کہ اللہ ہی طرف جھکے رہو، اس کے ساتھ (کسی کو) شریک مت ٹھہراؤ: الحج: 31)
ہندوستان کے موجودہ حالات میں مذہبی جنون پرستی اور مسلم اقلیت کے خلاف مذہبی منافرت، فرقہ وارانہ کشیدگی، اشتعال انگیزی، فتنہ پروری، غنڈہ گردی سے ملک کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے. ایسے میں اقلیتی طبقے کے سماجی ومذہبی شخصیات پر خصوصاً اور ہر مبتلی بہ فرد مسلم پر عموماً ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے عقائدی حدود کی حفاظت اور تہذیبی شناخت کو بہر طور لازمی باقی رکھے، اکثریتی طبقہ سے میل جول، انسانی ہمدردی، اور رواداری کے سلسلے کو مضبوط ومستحکم کرے، ان کے دکھ درد اور غمی وخوشی کے مواقع پہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے شریک ہو، لیکن شعائراسلامی پہ سمجھوتہ، کفرپسندی یا مشرکانہ شعائر کی تعظیم، توثیق وتائید کسی حال میں نہ کرے، بظاہر خود کو مسلمان کہلائے جانے والے جو لوگ ایسی تقریبات میں شریکِ کار رہے ہیں بلاریب انہوں نے ایک گھناؤنے اور حرام امر کا ارتکاب کیا ہے، پوری قوم مسلم کی جگ ہنسائی کی اور انتہائی بے ضمیری وبے غیرتی کا ثبوت دیا ہے:
تَرَى كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِالله والنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاء وَلَـكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ 
[آپ ان میں سے بہت سوں کو دیکھیں گےکہ وہ کافروں (بُت پرستوں) سےدوستی کرتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنےحق میں آگےکے لئے بھیج رکھا ہے یقیناً وہ بہت بُرا ہے، کیوں کہ (ان کی وجہ سے) اللّٰہ ان سے ناراض ہوگیا ہے اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے، اور اگر یہ لوگ اللہ پر اور نبی پر اور جو کلام ان پر نازل ہوا ہےاس پر ایمان رکھتےتو ان(بُت پرستوں) کو (کبھی) دوست نہ بناتے لیکن (بات یہ ہے کہ) ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو نافرمان ہیں: المائدة: 80، 81]
بَشِّرِالْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا 
[منافقوں کوخوشخبری سنادو اس امر کی کہ ان کے لئے بڑا دردناک عذاب (تیار) ہے، وہ (منافق جن کی حالت یہ ہے کہ) مسلمانوں کے بجائے کافروں (بُت پرستوں) کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کےپاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ حالانکہ عزت توساری کی ساری اللّٰہ ہی کے (قبضہ) میں ہے: النساء: 138-139]
ایسی بے غیرتی کا مستقل عادت بنالینے والوں کو فقہ اسلامی میں تعزیری سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے:
وَقَدْ أَفْتَيْت بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ اهـ (حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي 380/1) 
 ”دفع مضرت“ جیسی مصلحت ومقصد شرعی کے پیش نظر برادرانِ وطن سے مشترک سماجی ارتباط رکھنا اور معاشرتی حسن سلوک اور اعلی انسانی اخلاق واقدار کا نمونہ پیش کرنا جائز ہے؛ لیکن ان سے مودت وموالات کا تعلق قائم کرنا "ان کے مذہبی  ودینی امور میں اشتراک وتعاون "تعلیمات اسلام کے صریح خلاف ہے.“ اسے ہمارا مذہب ناجائز وحرام کہتا ہے:
يَا أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ". 
(اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ یقیناً انھوں نے اس حق سے انکار کیا جو تمھارے پاس آیا ہے، وہ رسول کو اور خود تمھیں اس لیے نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان لائے ہو، جو تمھارا رب ہے: الممتحنة: 1).
{يا أيها الذين آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الذين أُوتُواْ الكتاب مِن قَبْلِكُمْ والكفار أَوْلِيَاءَ واتقوا الله إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ} 
[اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سےپہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سےایسےلوگوں کو اور (دوسرے) کفار کو (اپنا) یار و مددگار نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے، اور اگر تم (واقعی) صاحب ایمان ہو تو اللّٰہ سےڈرتے رہو: المائدة: 57].
{يا أيها الذين آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لاَ يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا} 
[اے ایمان والو! اپنے سےباہر کے کسی (شخص) کو رازدار نہ بناؤ: آل عمران: 118].
{لاَّ تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بالله واليوم الآخر يُوَآدُّونَ مَنْ حَآدَّ الله وَرَسُولَهُ} 
[جو لوگ اللہ اورآخرت کےدن پر ایمان رکھتےہیں، ان کو تم ایسانہیں پاؤگے کہ وہ ان سےدوستی رکھتے ہوں جنہوں نےاللّٰہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے: المجادلة: 22].
مركز البحوث الإسلامية العالمی 
( پیر 10 رجب المرجب 1445ھ 22 جنوری 2024ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_74.html

No comments:

Post a Comment