ہندو احیا پرستی کی موجودہ یورش: اور اس کا سدّباب
خود سری، لاقانونیت، جبر وعدوان، سرکشی اور سفاکیت وبہیمیت جیسے رذائل کی روک تھام کے لئے "خالق کائنات" نے خود ہی انسانوں کے لئے زندگی گزارنے کا دستور عطاء کیا، جسے "دین ومذہب" کہتے ہیں، اس قانون فطرت کی پیروی کئے بغیر انسانوں میں "انسانیت" پیدا ہوسکتی، نہ انسانی حقوق وآداب کا تحقق متصور ہے.
ہر زمانے اور ہر قوم وملت میں اسی خدائی نظام حیات کی تعبیر وتشریح اور ترجمانی کے لئے نبیوں اور رسولوں کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا گیا، از آدم تا ایں دم ، مخلف زمانوں، مکانوں اور قوموں میں لاکھ سے متجاوز برگزیدہ بندوں اور پیغامبروں کی آمد ہوئی، ہرایک نے خدائی تعلیمات وہدایات کے مطابق صالح معاشرے کی تشکیل کی کوششیں فرمائیں، پَر تاریخی حقیقت ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ انبیاء ورسل علہیم الصلوۃ والسلام کی ہدایات وتعلیمات بشری خرد برد اور تصرفات سے محفوظ نہ رہ سکیں، تاریخ مذاہب وادیان میں بطور خاص صرف قرآن یعنی اسلامی شریعت کو یہ امتیاز واعزاز حاصل ہے کہ وہ سدا بہار اور حد درجہ عصری اور "اپ ٹو ڈیٹ" ہے ، امتداد زمانہ دین اسلام کے صاف وشفاف چہرے اور رخِ زیبا پہ کہنگی اور بوسیدگی کی چادر نہیں ڈال سکتا ، چودہ سو سال پیشتر اس کے چہرے مہرے پر جو نکھار وبہار تھا تاقیامت وہی چمک دمک باقی رہے گی ، ہر دور ، ہر زمانہ، ہر ملک، ہر علاقہ اور ہر عمر کے لئے "شریعت اسلامیہ" جوان ہے۔ تغیر پذیر دنیا کا کوئی اثر دین اسلام پہ نہیں پڑسکتا، ہزار تغیرات زمانہ اور لاکھ انقلابات دہر کے باوجود بے کم وکاست وہ اصلی شکل میں محفوظ ہے اور رہے گا. وقت کی کوئی رفتار ، یا زمانے کا کوئی نشیب وفراز اسے بوسیدہ یا ناقابل عمل نہیں بناسکتی، چونکہ اس نظام الٰہی کا واضع خود خالق کائنات ہے، اس میں انسانی طبائع، بشری رجحانات اور بدلتے ہوئے حالات وادوار کی پوری رعایت موجود ہے؛ اس لئے یہ دین، آفاقی ہے، عالمگیر ہے، دائمی ہے اور سابقہ تمام ادیان سماوی کو اپنے جلو میں سموئے ہوئے بھی ہے، حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کو شامل، جامع ، مانع ، مہذب ومنقح شکل میں موجود ہے، ہر زمانے، ہر قوم اور تمام انسانیت کے لئے قیامت تک کے لئے آخری سرچشمہ ہدایت ہے ، یہاں من وتو کا فرق، کالے، گورے کا تفاوت وتفاضل ، سماجی یا طبقاتی امتیاز وتقسیم نہیں ہے، اسلام سب کے لئے اور سدا کے لئے ہے. قرآن ساری انسانیت کا مشترکہ میراث ہے، خالق کائنات نے ہر نوع کی تحریف وتصرف سے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے ۔اس دین وشریعت کی شان ہمہ گیری اور اس کے اساس وقواعد کی جامعیت دیکھئے کہ صرف ۲۳ سال کی محدود محنت سے دنیا کی سب سے گرے ہوئے معاشرے کو وحشیت کے انتہائی نیچے مقام سے اٹھاکر تہذیب وتمدن کے بلند ترین مرتبہ تک، اورآسمانی طاقت سے یکسر باغی قوم کو ایک معبود برحق کے سامنے سجدہ ریز کرکے پوری تاریخ انسانی کا سب سے کاپاکیزہ ومثالی معاشرہ قائم کرکے دکھادیا.
اسلام کی بڑھتی مقبولیت اور شبانہ روز کی ترقیات گم گشتہ راہ باغیان خدا کو ایک نظر نہیں بھاتی ، ویسے تو ہر دور میں شمع ایمان گل کردینے کی منصوبہ بند کوششیں ہوتی رہی ہیں ؛ لیکن اس وقت مادر وطن بھارت میں بت پرست حلقوں کی طرف سے کوشش اب یہ ہے کہ اپنے وثنی افکار ونظام کو عالم گیر اور انسانیت کا ترجمان بناکر پیش کریں. ۲۲ جنوری ۲۰۲۴ کو صرف رام مندر کا افتتاح ہی نہیں تھا بلکہ عین اسی وقت دنیا میں موجود تمام ہندو احیاء پرست تنظیموں کو مامور کیا گیا تھا کہ اپنے اپنے ملکوں میں رام مندر کا تمثیلی ماڈل پیش کریں اور پوری دنیا میں ایک نئے نظریاتی سماج کی بالادستی قائم کرنے کا اجتماعی حلف لیں۔ چنانچہ اسی تاریخ میں دنیا میں پھیلے برہمنی تنظیموں نے پوری مستعدی کے ساتھ بامقصد طریقے سے ایسی نشستیں منعقد کیں اور دنیا میں نئے نظام کی بالادستی کے لئے کوششیں تیز کرنے کا عہد کیا.
تاریخ ہند پر نظر رکھنے والے اہل نظر سے یقیناً مخفی نہ ہوگا کہ ہندو احیاء پرستی کی کوششوں کی تاریخ ہندستان میں نئی نہیں ہے؛ بلکہ بہت پرانی ہے اور بحمدللہ مسلمانوں نے ہر بار کامیابی کے ساتھ ان تمام لہروں اور یورشوں کا مقابلہ کیا ہے۔
غازی سلطان غیاث الدین تغلق کی بادشاہت سے پیشتر مذہب بیزار شخص خسرو خاں کے عہداقتدار میں ہندوانہ نظام کی بالا دستی کے لئے اہانت اسلام اور مسلمانوں پر ظلم وستم کے دل خراش واقعات ہوں یا اکبر کے زمانے میں دین الٰہی کی ایجاد وقیام اور اسلامی تشخصات کی توہین وتمسخر! غرضیکہ ماضی میں بھی اسلام مخالف لہریں اور ہندو احیائیت کی تحریکیں شد ومد سے چلی ہیں. سلطان غیاث الدین تغلق نے خسرو خاں کے فتنے کی کامیاب سرکوبی کی تھی، جبکہ دین الٰہی کے فتنوں کا قلع قمع کرنے میں خواجہ باقی باللہ اور ان کے شاگرد حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمہا اللہ کی محنتیں رنگ لائیں۔
سلطنت مغلیہ کے زوال اور انگریزوں کے ملک عزیز پہ تسلط کے بعد ان کی خفیہ سرپرستی اور آشرواد سے آریہ سماج ، بعدہ شدھی وسنگھٹن، پھر مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے نبوت کے ذریعے جو ارتدادی فتنے پورے زور وطاقت سے بپا کئے گئے تھے، خدا کے فضل سے علمائے دیوبند نے ان تمام طوفانوں اور فتنوں کا کامیاب مقابلہ کیا، دفاع اسلام کا مقدس اور بروقت فریضہ انجام دیتے ہوئے مسلمانوں کو ارتدادی سیلاب سے بچالیا.
لیکن قابل غور اور حیران کن بات یہ ہے کہ ماضی کی ہندو احیائیت کی تحریکیں وقتی رد عمل ، غلبہ حال ، مذہبی تعصب ونفرت، اقتدار کی تبدیلی کا شاخسانہ اور ردعمل کے بطور تھیں، ان کے پیچھے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی اور مضبوط حکمت عملی کارفرما نہیں تھی ؛ جبکہ 2014 میں سنگھ کے پرچارک رہے نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان میں ہندو احیاء پرستی، رام راج کے نفاذ، اور پورے ملک میں مسلم مخالفت اور اسلام دشمنی کی جو عمومی لہر چل پڑی ہے ، اسے باضابطہ نظریاتی شکل دے کرانتہائی منصوبہ بند طریقے سے ذرائع ابلاغ ، نصاب تعلیم ، فلمز اور دیگر منفی پڑاپیگنڈوں کے ذریعے سماج کے ہر طبقے کے رگ وپا میں رچا بسا دی گئی ہے ، اس مسموم فضا کی ہمواری اور ہندو انتہا پسندانہ سوچ کے پیچھے سینکڑوں متشدد تنظیموں کی قریب ایک صدی سے زیادہ کی بامقصد تنظیم، جدو جہد، بے دریغ تمام وسائل کا استعمال اور محنت کار فرما ہے۔ملک کی مسلم اقلیت کو اپنی تہذیبی شناخت مکمل طور پر ختم کر اکثریتی فرقے اور ہندوانہ کلچر میں ضم کردینے کے سارے جتن کئے جارہے ہیں ، ملک کا ایک جمہوری آئین ودستور ہونے کے باوجود منو سمرتی کی بنیاد پر ملک کو چلایا جارہا ہے ۔ جرمنی کے ہٹلر کی سفاکیت اور قتل عام کو یہاں کے نسل پرست ہندو آئیڈیل مانتے ہوئے اسے مسلمانوں پہ آزمانے کی کوششیں کررہے ہیں، آئین وقانون کے رکھوالے "سیاہ پوشوں" کے عدل کے ہتھوڑوں کے ذریعے جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے ، مسلمانوں کا پورا وجود وتشخص مٹادینے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی اعتبارسے منتشر ، ٹکڑوں اور ٹولیوں میں منقسم کمزور وجاں بلب قوم مسلم اس منظم وہمہ گیر ہندو احیاپرست سازشوں کا مقابلہ کیسے کرے ؟
کیا جوشیلی، جذباتی ، ہیجان انگیز تقریریں اور غیر ضروری مسائل میں آستین چڑھا کر میدانوں میں کود پڑنےاور طوفانِ "ہاؤ ہو" بپا کرنے سے مسائل حل ہونگے ؟ دبی، کچلی، پِسی، حالات سے دگر گوں، سسکتی اور کراہتی مسلم اقلیت کے مسائل کے لئے ایوان پارلیمنٹ میں مشترکہ ومتفقہ آواز اٹھانے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں، جو ہیں بھی وہ مسائل، مصلحتوں، اندیشہ ہائے دور دراز، خوف اور محبوب کے "زلف گرہ گیر" کے اسیر ہیں. حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ بند لائحہ عمل اور پلان بالکل نہیں ہے، جلسے جلوس میں گلے پھاڑ پھاڑ کے لچھے دار بیانات سے نکل کر زمینی سطح پہ محنت کرنے اور جامع وہمہ گیر منصوبہ سازی اور ملک گیر انقلابی تحریک کا فقدان ہے.
زمینی محنت، منظم پلاننگ اور باہم مربوط کوششیں فتح یابی میں مؤثر رول ادا کرتی ہیں ، خوش نما ودل فریب جذباتی نعروں ، محض دعائوں اور اوراد ووظائف سے سیاسی میدان نہیں مارے جاتے۔
مسلمانوں کو مایوسی کا شکار ہوکر حوصلہ شکستہ ہونے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن ماضی کی وثنی اور الحادی تحریکات کے برعکس موجودہ تحریک وثنیت کافی منصوبہ بند اور منظم ہے، بادل کافی گہرے ہیں، دفاعی طور پہ ہم خستہ اور زبوں حال ہیں، دشمنوں اور رہزنوں کی کمین گاہوں پر نظر رکھنے والے اولوالعزم "منزل آشنا" چوکنا، بابصیرت وباحوصلہ وباکردار ، عزم وہمت کے پیکر قائدین کی ضرورت ہے. جو پوری جواں مردی وپامردی کے ساتھ موجودہ ہندو احیائیت کا وہی حشر نشر کریں جو کبھی حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے آریہ سماج کا کیا تھا:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
مذہبی منافرت کم کرنے اور اور آپسی محبت پروان چڑھانے کی کوششیں اور مذہبی رواداری کا فروغ یقیناً خوش آئند اور احسن اقدام ہے لیکن یہ سب کچھ اس طرح نہ ہو کہ "وحدت ادیان" یا "دین الٰہی" کی یاد پھر سے تازہ ہوجائے۔ تاریخ ایسی حماقتوں کو رد کرچکی ہے ، مذہبی شناخت اور اس کی امتیازی حیثیت باقی رکھتے ہوئے حکیمانہ اور مفاہمانہ کوششیں بروئے کار لائی جاسکتی ہیں ۔
(14 رجب المرجب 1445ھ 26 جنوری 2024ء)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_26.html
No comments:
Post a Comment