کھانے کی پسند کا راز کہاں چھپا ہے؟
زبان کے بارے میں بات ہونے جا رہی ہے، اب یہاں دو تین چیزیں واضح کرنی بہت ضروری۔ وضاحتوں کا آغاز اس بات سے کرتے ہیں کہ یہاں نا تو بولی جانے والی زبان کا ذکر ہونے والا ہے اور نا ہی ا±س زبان کا کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں بہت زبان دراز ہے۔تو جناب پھر ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس زبان کا ذکر ہونے والا ہے؟ تو ہم ذکر کرنے لگے ہے اس زبان کا جو انسان کے منھ میں ہوتی ہے جس کی مدد سے ہم یہ پتہ چلا سکتے ہیں کہ کس کھانے کا ذائقے کیسا ہے۔ابتدائی طور پر اگر کسی بھی فرد کی زبان دیکھی جائے تو زبانوں میں کوئی قابل ذکر فرق نظر نہیں آتا ہے۔تاہم اس پیچیدہ اور نفیس عضو کے تھری ڈی تجزیے سے اب یہ پتہ چلا ہے کہ یہ ایک ایسی ساخت ہے جس کی خصوصیات ہمارے فنگر پرنٹس کی طرح انفرادی ہوتی ہیں۔
ماہرین کی مانیں توفرق نہ صرف پیپیلے (کھانے کو دانتوں سے چبانے کے دوران اس پر گرفت جمائے رکھنے وہ چھوٹے چھوٹے ’ٹیسٹ بڈز‘ جو اس کے بارے میں دماغ کو یہ بتاتے ہیں کہ جو کھانا آپ کھا رہے ہیں اس کا ذائقہ کیسا ہے) کی تعداد میں ہے، بلکہ وہ گوشت دار پروٹین جو ان کی سطح کو ڈھانپتے ہیں، بلکہ ان کی شکل میں بھی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ اور اس تحقیق کی سربراہ رینا اینڈریوا نے بتلایا کہ ’ایک پیپیلا سے ہم 48 فیصد درستگی کے ساتھ 15 شرکاءپر مشتمل ایک گروپ میں سے ایک شخص کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے۔
ایک پیپیلا کے تجزیے نے کسی شخص کی جنس اور عمر کی پیش گوئی کو معتدل درستگی کے ساتھ 67 سے 75 فیصد تک ممکن بنایا۔اگرچہ ابھی یہ تحقیق جاری ہے، اینڈریوا نے یہ بھی بتایا کہ مطالعے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ’ہمارا مطالعہ یہ ابتدائی ثبوت فراہم کرتا ہے کہ (زبانیں) بہت منفرد ہیں۔‘ انگلینڈ کی لیڈز یونیورسٹی کے محققین کے تعاون سے کی جانے والی یہ تحقیق سائنسی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئی ہے۔
زبان کی ساخت میں فرق:
محققین کے مطابق، ہر زبان کے نقوش میں فرق یہ سمجھنے میں بھی کلیدی ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ کھانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں اور کچھ کو مسترد یا نا پسند کیوں کرتے ہیں۔مثال کے طور پر جن لوگوں کے پاس ’فنگیفارم فارم‘ پیپیلے کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، یعنی جو شکل میں مشروم یا کھمبیوں سے ملتے جلتے ہیں اور زیادہ تر زبان کے کناروں اور نوک پر پائے جاتے ہیں، یہ لوگ وہ ہیں جنھیں ڈارک چاکلیٹ یا لیموں پسند نہیں آتے، کیونکہ ان لوگوں کو ان کے ذائقے عام لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن جو چیز کھانے کے بارے میں ہمارے تصور کو بھی متاثر کرتی ہے وہ پیپیلے ہیں جو ایک مکینیکل فنکشن کو پورا کرتے ہیں، اور جو زبان کو اس کی ساخت اور رگڑ کو محسوس کرنے کی اجازت دیتا ہے جو ہم کھاتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم کچھ کھانوں کو دوسروں پر کیوں ترجیح دیتے ہیں، یہ بات صحت مند کھانے کی ترکیب بنانے والوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اینڈریوا کہتی ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ذائقہ بہت اہم ہے، اور یہ سچ بھی ہے، لیکن کھانے کی ساخت بھی ہمیں ایک خوشگوار احساس دلاتی ہے۔‘اور ہر زبان کی انفرادیت اور بیماریوں کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیا پی پیلے کی شکل اور تقسیم کا مطالعہ کر کے تشخیص کرنا ممکن ہے؟اینڈریوا بتاتی ہیں کہ ’یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم اگلے مرحلے میں تحقیقات کرنے جا رہے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جب ایک فرد مثال کے طور پر آٹومیون نامی بیماری (کہ جس میں انسانی جسم اس بات کا تعین نہیں کر سکتا کہ ان کے جسم میں کون سے خلیے اس کے اپنے جسم کے ہیں اور کون سے جسم کے باہر سے اندر داخل ہوئے ہیں) کا شکار ہوتا ہے کہ جسے ’سجوگرین سنڈروم‘ کہا جاتا ہے (اس بیماری میں انسانی جسم کے اہم حصوں جن میں زبان سرِ فہرست ہے پر سے نمی ختم ہو جاتی ہے)، جہاں ایک قسم کے پیپیلے (فلیفارم پیپیلے) کی شکل زیادہ چپٹی ہوتی ہے۔اس تحقیق میں جہاں بہت سے باتیں واضح ہوئیں وہیں ماہرین اور محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ انسانی زبان کی بناوٹ اور اس کی مدد سے جسم میں موجود طبی مسائل کے بارے میں مزید جاننے کیلئے ابھی مزید مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے کہ جس کی مدد سے ایسے اعدادو شمار جمع کیے جا سکیں کہ جو آنے والے دنوں میں ہونے والی تحقیقیات میں مدد گار ثابت ہوں۔
No comments:
Post a Comment