Wednesday 24 January 2024

خود اعتمادی کیسے انسانی جسم کو بیماری سے لڑنے میں مدد کرسکتی ہے؟

 خود اعتمادی کیسے انسانی جسم کو بیماری  سے لڑنے میں مدد کرسکتی ہے؟

بہت سے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اگر آپ اپنے آپ پر یقین رکھتے ہیں تو آپ جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط بن سکتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ آپ ہر قسم کی مشکل اور مصیبت پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔’جب مجھے پتہ چلا کہ مجھے کینسر ہے تو میں چند سیکنڈ کیلئے بے حس ہو گئی تھی۔ لیکن اگلے ہی لمحے، میں نے فیصلہ کیا کہ میں جلد از جلد اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔یہ الفاظ ہیں دہلی کی سرحد سے متصل غازی آباد کی رہائشی انیتا شرما کے۔ انیتا کہتی ہیں کہ جب انھیں پتہ چلا کہ انھیں چھاتی کا کینسر ہے تو انھیں شدید صدمہ پہنچا مگر ان کے خاندان کی حالت ان سے بھی زیادہ خراب تھی۔وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنے ارد گرد اپنے پیاروں کی حالت دیکھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہار نہیں مانوں گی۔ صرف ایک ہفتہ بعد ہی میرا آپریشن ہوا۔ میں نے کبھی بھی اپنے ذہن میں یہ خیال نہیں آنے دیا کہ مجھے کوئی بہت ہی خطرناک بیماری ہے۔‘انیتا کی 2013 میں سرجری ہوئی تھی لیکن اب وہ معمول کی زندگی گزار رہی ہیں اور بس یہی نہیں بلکہ وہ لوگوں کو مثبت سوچنے کی بھی ترغیب دے رہی ہیں۔

ارتکاز اورمراقبہ کی اہمیت:

انیتا شرما کی قوت ارادی نے انھیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیماری چیلنجنگ ضرور ہے، لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ آسانی سے اس کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔مسیسپی ا سٹیٹ یونیورسٹی میں اسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر زکری ایم گیلن کا کہنا ہے کہ خود اعتمادی خود کو متحرک کرنے میں مدد دیتی ہے اور اس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بی بی سی ریلز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زکریا کا کہنا تھا کہ ’اس سے ایپینیفرین، ایڈرینالین اور ہارمون نوراڈرین کی سطح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ہارمونز طاقت کے احساس کو بڑھاتے ہیں اور آپ مشکل سے مشکل وقت میں بھی مثبت سوچنے لگتے ہیں۔ڈاکٹر گیلن کے مطابق ’پورے اعتماد کے ساتھ ورزش کرنے سے پٹھوں کی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہی ایک کھلاڑی کی طاقت کا اصل راز ہے۔‘ا±ن کا مزید کہنا ہے کہ ’جتنے بڑے پٹھے ہوتے ہیں، جسم اتنا ہی مضبوط اور طاقتور ہوتا جاتا ہے۔‘

مثبت سوچ اور اعتماد کیوں ضروری ہے؟

ڈاکٹر زکری ایم گیلن کے مطابق ’اعضا جسم کی ضروریات کے مطابق کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایک عام شخص کا جسم ایک ایتھلیٹ کی طرح کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا ہے تو یہ طاقتور بن سکتا ہے اور مسلسل کارکردگی کو بہتر بناسکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی مثبت خیالات آپ کو اپنے مقصد کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔‘انیتا شرما کے معاملے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علاج کے دوران ان کے دائیں ہاتھ کو نقصان پہنچا تھا۔انیتا نے بی بی سی کے آر دویدی کو بتایا کہ کیمو کے دوران نامناسب ادویات کی وجہ سے ان کا ہاتھ اچانک سوج گیا اور پھر تین انگلیوں نے کام کرنا بند کر دیا۔انیتا نے بتایا کہ شروع میں انھوں نے سوچا تھا کہ وہ اس ہاتھ سے کچھ نہیں کر سکتیں، لیکن انھوں نے امید نہیں چھوڑی۔ آہستہ آہستہ انھوں نے اپنی انگلیوں کو حرکت دینا شروع کر دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب چاہے آٹا گوندھنے کا معاملہ ہو یا کوئی بھاری چیز اٹھانا ہو، ان کی انگلیاں انھیں زیادہ پریشان نہیں کرتیں۔

بے بس محسوس نہ کریں:

انیتا کے مطابق کسی کو کبھی بھی بے بس محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے آپ پر یقین رکھنا سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپریشن کے بعد بھی وہ بستر پر لیٹنا پسند نہیں کرتی تھیں۔انیتا کو جولائی 2013 میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور ایک ہفتے کے اندر ان کا آپریشن ہوا تھا۔آپریشن کے دوسرے دن سے ہی وہ اکیلی ہی کسی کی بھی مدد کے بغیر واش روم جانا شروع ہو گئیں تھیں۔وہ مثبت سوچ پر زور دیتی ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ورزش جسم کو مضبوط بناتی ہے اور مثبت سوچ ذہنی مضبوطی کا باعث بنتی ہے جس کے بعد مشکل ترین چیلنجز بھی خود کو چھوٹا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ورزش دماغی بیماری میں بھی مفید ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ذہنی بیماری کا مسئلہ زیادہ سنگین نہ ہو تو ارتکاز اور ورزش کی مدد سے اس پر بڑے پیمانے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دہرادون کے گورنمنٹ دون میڈیکل کالج کے سینیئر ماہر نفسیات ڈاکٹر جے ایس بشت نے بی بی سی کے اسوسی ایٹ آر دویدی کو بتایا کہ ’جسمانی فٹنس آپ کے پٹھوں کو مضبوط کرتی ہے اور آپ کی جسمانی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ دماغی صحت کے لئے بھی بہت اہم ہے۔‘ڈاکٹر بشت کے مطابق ’خوف، ڈپریشن، اضطراب جیسی ذہنی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے باقاعدگی سے ورزش سے زیادہ فائدہ مند کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔‘

کون سی ورزش زیادہ بہترین ہے؟

ڈاکٹر جے ایس بشٹ کے مطابق ذہنی اور جسمانی صحت کو الگ الگ نہیں دیکھا جا سکتا اور اس میں اعتماد بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے کی جانے والی تعریف اور تشریح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ان کے مطابق تمام نفسیاتی ماہرین اپنے مریضوں کو ادویات کے ساتھ باقاعدگی سے ورزش کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، کیونکہ جسمانی طور پر فعال افراد کیلئے ذہنی مسائل سے نمٹنا اور ان پر قابو پانا آسان ہے۔ڈاکٹر جے ایس بشٹ کے مطابق انسان کی عمر چاہے جو بھی ہو اسے ورزش کرنی چاہیے کیونکہ اس کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ورزش پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے اور ان کی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہے۔ باقاعدگی سے جاگنگ، ایروبک، رسی پھلانگنا فائدہ مند ہے۔بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس جیسے کھیل بھی جسمانی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔اگر زیادہ ممکن نہ ہو تو تیز چہل قدمی کی جاسکتی ہے۔ہلکی پھلکی ورزش بڑھاپے میں اچھی یادداشت کو برقرار رکھنے کیلئے فائدہ مند ہے۔زکری ایم گیلن کے مطابق اگر آپ میں اعتماد ہے تو آپ ورزش سے اپنے پٹھوں کو مضبوط بنا کر ایک ایتھلیٹ کی طرح طاقت حاصل کر سکتے ہیں لیکن حد سے زیادہ اعتماد سے دور رہنا بھی ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مشق کے دوران پٹھوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ ورزش کریں۔ وزن اٹھانے میں جلدی نہ کریں۔ کوشش کریں کہ کم اور کبھی کبھی زیادہ وزن اٹھائیں تاکہ عضلات جسم کی ضروریات کے مطابق آسانی سے تیار ہوجائیں اور وہ ورزش کے فوراً بعد پروٹین لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔




No comments:

Post a Comment