Wednesday, 17 January 2024

وفات یافتہ اشخاص کی فکری انحرافات کو بیان کرنا مصلحتِ شرعیہ کے تحت جائز ہے

وفات یافتہ اشخاص کی فکری انحرافات کو بیان کرنا مصلحتِ شرعیہ کے تحت جائز ہے
-------------------------------
--------------------------------
سوال 
————
مرنے والے شخص کے صرف محاسن بیان کرنے کا مطلب
مفتیانِ کرام سے ایک سوال  ہے کہ حدیث “اذكروا محاسن موتاكم" کا درست مصداق اور صحیح مفہوم کیا ہے؟
اگر کسی شخص نے ملکی پیمانے پر کوئی فتنہ بپا کیا ہو اپنے بیانات کے ذریعے، گرچہ اس کے اچھے کام بھی ہوں دوسری جانب، لیکن کسی خاص مسئلے میں کسی خاص تحریک یا تنظیم کے خلاف ایسا بول گیا ہو جو انتہائی فرقہ پرستی پر مشتمل ہو یا اسی جیسا ہو، تو کیا اس کی موت کے بعد اس کی اس غلطی کو بیان کرنا ، ذکر کرنا اس حدیث کے خلاف ہے جو اوپر مذکور ہوئی ہے؟
(سائل :- یکے از واٹس ایپ گروپ دعوت الحق بنگلور)

الجواب وباللہ التوفیق:- 
اسلام ہر چیز میں اعتدال وتوازن کی تعلیم دیتا ہے، مدح وستائش میں جہاں افراط وغلو کی ممانعت آئی ہے وہیں ناحق  ذم ونقد میں بھی حد اعتدال سے تجاوز کرتے ہوئے اندر کی آہ نکالتے ہوئے تنقیص وتحقیر کرنے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے، پھر وفات یافتہ اشخاص وافراد کے ساتھ اگر یہ سلوک روا رکھا جائے تو اس سے ان کے زندہ احباب واقارب کی لازمی دل شکنی ہوگی اور وہ قلبی اذیتوں سے دوچار ہونگے، پھر اس کدورت کے اثراتِ بد باہمی معاشرت پر بھی  پڑے گی اور نتیجۃً بغض وعناد اور عداوت ودشمنی پر مبنی رد عمل کا زنجیری سلسلہ قائم ہوگا اور  معاشرہ لامتناہی اظطرابات وبے چینیوں کا بری طرح شکار ہوجائے گا؛ اس لئے زبان رسالت مآب سے مُردوں کے ذکر شر سے ممانعت وارد ہوئی اور انہیں ذکر خیر سے یاد کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ 
سوال میں درج حدیث اسنادی طور پہ ضعیف ہے، اس کے ہم معنی صحیح حدیث بخاری وغیرہ میں موجود ہے. وفات یافتہ اشخاص (مومن ہو یا کافر) کو گالم گلوچ اور سب وشتم کرنا بالکل حرام ہے، آیات واحادیث میں اس کی حرمت مصرح ہے؛  لیکن جہاں شرعی مصلحت متقاضی ہو، یعنی مردے کی فکری انحرافات، غلط نظریات، بے اصل گمراہ کن عقائد، اسلام اور علماء اسلام کے خلاف کی گئی اہانت آمیز ریمارکس اور مبتذل کومنٹس کو عیاں کرکے  لوگوں کو اس کی بولعجبیوں، خبطِ نرگیسیت، علماء دین، دینی اداروں اور جامعات کے خلاف  لگائے گئے بے بنیاد اتہامات ، منفی پرا پیگنڈوں اور ذہنی ارتداد سے سادہ لوح عوام کو ہوشیار ومتنبہ کرنے اور اس کی اتّباع وپیروی کرنے سے بچانے کے لئے مہذب وشائستہ انداز واسلوب میں اس کی نقاب کشائی کرنے اور حقیقت واضح کرنے کی گنجائش ہے۔ رواۃ حدیث کے باب میں محدثین کرام کی جرح اسی مصلحت شرعیہ پہ مبنی ہوتی ہے ۔ سب وشتم اور ہے، اور کسی کی فکری انحرافات اور بد عقیدگی کی حقیقت واضح کرنا امر آخر ہے، اسے سب وشتم نہیں کہا جاسکتا، باجماع علماء امت مصلحت شرعیہ کے باعث فکری زیغ وضلال اور  عیوب ونقائص کی نشاندہی کی گنجائش ہے. اس پہ ممنوع سب وشتم کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض صحابۂ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين ايک جنازہ کے پاس سے گذرے تو انہوں نےاس کے حق میں نيکی اور اللہ کی شريعت پر عمل پیرا ہونے کی گواہی دی۔ چناں چہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ کے بارے ميں ان کی تعريف سنی تو فرمايا: ”واجب ہوگئي“، پھر وہ لوگ ايک دوسرے جنازہ کے پاس سے گذرے تو اس کے برے ہونے کي گواہی دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:”واجب ہوگئی“، اس پرعمر بن خطاب رضي اللہ عنہ نے پوچھا کہ ان دونوں جگہوں پر ”واجب ہوگئی“ کے کيا معنیٰ ہيں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: جس شخص کے لیے تم لوگوں نے نيکی، راستی اور ثابت قدمی کی گواہی دی، اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور جس کے لئے تم نےبرائی کی گواہی دی، اس کے لیے جہنم واجب ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلايا کہ جس شخص کے جنتی يا جہنمی ہونے کے تعلق سے صاحبِ فضل، سچے اور نيکوکار لوگ گواہی دے ديں وہ اسی طرح (جنتی يا جہنمی) ہوتا ہے۔ (أخرجه البخاری (1367) واللفظ له، ومسلم (949).
غور کیجئے! اس حدیث  میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد عقیدگی اور بے عملی میں مشہور شخص کی برائی کرنے سے صحابہ کرام کو نہیں روکا ! کیونکہ وہاں اس برے شخص کے نقش قدم پر چلنے سے اوروں کو روکنے جیسی مصلحت شرعیہ اس کی متقاضی تھی. یہ دلیل ہے کہ کسی کی فکری انحرافات کو علمی اور شائستہ لب ولہجے میں شرعی دواعی ومصالح کے  تحت بیان کرنے کی اجازت ہے، ہاں! بلا  مصلحت شرعیہ تسکین انا جیسے مذموم مقاصد کے تحت وفات یافتہ اشخاص کے عیوب ونقائص بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے.
واللہ اعلم بالصواب 
مركز البحوث الإسلامية العالمی ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_17.html?m=1

No comments:

Post a Comment