Tuesday 7 April 2020

پانچ: اللہ کی قدرت

پانچ: اللہ کی قدرت
انسان کے پانچ ظاہری حس ہیں اور پانچ باطنی حس:
حس مادہ۔ الحاسۃ اس قوت کو کہتے ہیں جس سے عوارض حسیہ کا ادراک ہوتا ہے اس کی جمع حواس ہے جس کا اطلاق
1. سمع (سننا)
2. بصر (دیکھنا)
3. شم (سونگھنا)
5. ذوق (چکھنا)
5. لمس (چھونا) پر ہوتا ہے
ان کو حواس خمسہ کہتے ہیں۔ مثلاً ھل تحس منہم من احد (20:98) کیا تم کسی کو بھی ان میں سے محسوس کرتے ہو۔ آیت ہذا میں الحسیس والحس بمعنی حرکت و آہٹ ہے۔
وہ علم جو انسان کو اس کے حواس خمسہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ یہ اکتسابی علم (Acquired knowledge) یا ظاہری علم ہے.
حواس باطنہ:
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں انسان کے قوائے مدرکہ پانچ ہیں:
1. قوۃِ حسیہ جو حواس خمسہ کو شامل ہے‘
2. قوت خیالیہ‘
3. قوۃِ عقلیہ جو حقائق کلیہ کا ادراک کرتی ہے‘
4. قوۃ فکریہ جو معارف عقلیہ میں ترکیب دے کر نامعلوم بات کو دریافت کرتی ہے
5. قوۃِ قدسیہ جو انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء کرام رحمہم اللہ کو حاصل ہے جس سے اسرار غیب ولوائحِ ملکوت ظاہر ہوتے ہیں جس کی نسبت اللہ فرماتا ہے۔ لکن جعلناہ نورانہدی بہ من نشاء من عبادنا۔ یہ پانچوں نور ہیں ہر ایک کو ان پانچوں میں سے ایک ایک کے ساتھ تشبیہ ہے روح حساس کو مشکوٰۃ سے۔
------------
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تک انسانی اموات کے حوالہ سے یہ پانچ ممالک سرفہرست تھے:
1. شام
2. عراق
3. یمن
4. افغانستان
5. لیبیا
آج کی ترتیب یہ ہے:
1. امریکہ
2. اٹلی
3.اسپین
4. فرانس
5. برطانیہ

وتلك الأيامُ نداولها بين الناس: القرآن
---------------------------------------------
صدقہ فطر ادا کرنے کے لئے پانچ چیزیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں سے صدقہ فطر ادا کرتے تھے: كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِن طَعَامٍ، أوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ، أوْ صَاعًا مِن تَمْرٍ، أوْ صَاعًا مِن أقِطٍ، أوْ صَاعًا مِن زَبِيبٍ.عن أبی سعيد الخدري. (صحيح البخاري:1506) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور کے زمانے میں صدقہ فطر گیہوں، جو، کھجور، پنیر اور کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، تو یہ پانچ چیزیں ہوئیں! جن سے صدقہ فطر نکالا جاسکتا ہے، فقہاء حنفیہ کا خیال ہے کہ گیہوں یا اس کے آٹا سے نکالنا ہو تو نصف صاع اور دوسری چیزوں سے نکالنا ہو تو ایک صاع دینا چاہیے. نصف صاع کی مقدار ایک کلو پانچ سو چھہتر گرام چھ سو چالیس ملی گرام. جبکہ ایک صاع کی مقدار تین کلو ڈیڑھ سو گرام ہوتی ہے. صاحب حیثیت ووسعت اور مالداروں کی لئے بہتر یہ ہے کہ نصف صاع پہ تکیہ نہ کریں! آگے بڑھ کے ہر صنف میں ایک صاع یا اس کی قیمت صدقہ فطر میں ادا کریں تاکہ غریبوں کا بھلا ہوسکے۔ بذل المجہود میں ہے: قوله صاعًا من كل شيئ أي من الحنطة وغيرها لكان أحسن (454/6. ط بيروت)
--------------------------------------------------
ہر عاقل بالغ مسلمان پر پانچ نمازیں فرض ہیں

نماز، جس کے بارے میں سب سے زیادہ تاکید آئی ہے بلکہ شہادتین کے بعد یہ دوسرا بڑا اہم رکن ہے۔ اعضا کے ساتھ انجام دیے جانے والے اعمال میں سے اس کی سب سے زیادہ تاکید ہے۔ یہ اسلام کا ستون ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
«عَمُودُهُ الصَّلَاةُ» مسند احمد: ۵/۲۳۱ وجامع الترمذی، الايمان، باب ماجاء فی حرمة الصلاة، ح: ۲۶۱۶ وقال: حديث حسن صحيح۔
’’اس سے (مراد اسلام) کا ستون نماز ہے۔‘‘
یعنی نماز اسلام کا ستون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے نبی پر اس سب سے بلند جگہ پر فرض قرار دیا جہاں تک بشر پہنچ سکا ہے اور پھر اسے ایک اشرف (عظیم) رات میں بغیر کسی کے واسطہ کے فرض قرار دیا ہے۔ اللہ عزوجل نے پہلے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر دن رات میں پچاس بار نماز پڑھنا فرض قرار دیا تھا لیکن پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس میں تخفیف کر دی حتیٰ کہ بالفعل پانچ ہیں مگر میزان میں (اجر و ثواب کے اعتبار سے) پچاس شمار ہوتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کس قدر اہمیت ہے اور اسے نماز سے کس قدر محبت ہے۔ یہ عبادت اس لائق ہے کہ انسان اس میں اپنا بہت سا وقت صرف کرے، اس کی فرضیت کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِذَا اطمَأنَنتُم فَأَقيمُوا الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة النساء
’’پھر جب اطمینان نصیب ہوجائے تو (اس طرح سے) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو) بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘
’کتابًا، سے مراد مکتوبًا‘ ہے. یعنی یہ کلمہ فرض کے معنی میں ہے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  کو یمن بھیجتے ہوئے ان سے فرمایا تھا:
«أَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ» صحيح البخاری، الزکاة، باب وجوب الزکاة، ح: ۱۳۹۵ وصحيح مسلم، الايمان، باب الدعاء الی الشهادتين وشرائع الاسلام، ح:۱۹۔
’’لہٰذا انہیں آگاہ کر دیناکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔‘‘
تمام مسلمانوں کا بھی نماز کی فرضیت پر اجماع ہے، اس لیے علماء رحمہم اللہ نے فرمایا ہے کہ جب انسان پانچ فرض نمازوں یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کردے تو وہ کافر، مرتد اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اس کا خون اور مال مباح ہے الا یہ کہ وہ اللہ عزوجل کے آگے توبہ کر لے۔ ہاں! اگر وہ ایسا نیا نیا مسلمان ہو جسے ابھی تک شعائر اسلام کے بارے میں کچھ بھی علم نہ ہو تو اس حالت میں جہالت کی وجہ سے وہ معذور ہوگا، پھر اسے بتایا جائے گا۔ اگر اس کے وجوب کے بارے میں علم ہوجانے کے بعد بھی وہ اس کی فرضیت کا انکار کرے تو وہ کافر ہوگا۔
نماز ہر مسلمان بالغ، عاقل، مرد اور عورت پر فرض ہے۔ مسلمان کی ضد کافر ہے، اور کافر پر نماز واجب نہیں، یعنی حالت کفر میں وہ نماز اداکرنے کا مکلف نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اس شخص پر اس کی قضا ادا کرنا لازم نہیں ۔ البتہ قیامت کے دن اسے (کافر کو) اس کی سزا ملے گی، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِلّا أَصحـبَ اليَمينِ ﴿٣٩﴾ فى جَنّـتٍ يَتَساءَلونَ ﴿٤٠﴾ عَنِ المُجرِمينَ ﴿٤١﴾ ما سَلَكَكُم فى سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قالوا لَم نَكُ مِنَ المُصَلّينَ ﴿٤٣﴾ وَلَم نَكُ نُطعِمُ المِسكينَ ﴿٤٤﴾ وَكُنّا نَخوضُ مَعَ الخائِضينَ ﴿٤٥﴾ وَكُنّا نُكَذِّبُ بِيَومِ الدّينِ ﴿٤٦﴾... سورة المدثر
’’مگر داہنی طرف والے (نیک لوگ کہ) وہ بہشت کے باغوں میں (ہوں گے اور) پوچھتے ہوں گے (آگ میں جلنے والے)گنہگاروں سے کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم اہل باطل کے ساتھ مل کر (حق سے) انکار کرتے تھے اور ہم روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔‘‘
ان کا یہ کہنا ہے کہ: ﴿لَم نَكُ مِنَ المُصَلّينَ﴾ ’’ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں کفر اور قیامت کے دن کی تکذیب کے ساتھ ساتھ ترک نماز کی وجہ سے بھی سزا دی جائے گی۔
اور بالغ وہ ہے جس میں علامات بلوغ میں سے کوئی علامت پائی جائے۔ علامات بلوغ مرد کی نسبت سے تین اور عورت کی نسبت سے چار ہیں: 
(۱) عمر پوری پندرہ سال ہو جائے 
(۲) بیداری یا نیند میں لذت کے ساتھ منی کا انزال 
(۳) زیرناف بالوں کا اگنا یعنی قبل کے اردگرد کھردرے بالوں کا اگنا۔ 
یہ تینوں علامتیں مردوں اور عورتوں میں مشترک ہیں جب کہ عورتوں میں ایک چوتھی علامت حیض بھی علامات بلوغ میں شمار ہوتی ہیں۔
عاقل کی ضد مجنون ہے یعنی جس میں عقل نہ ہو، اسی طرح بہت بڑی عمر کا مرد اور عورت جس کا بڑھاپا اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے ہوش نہ رہے اس کا بھی اسی قبیل میں شمار ہوگا۔ اس قسم کے آدمی کو ہمارے ہاں مہذری (سٹھیانا) کہا جاتا ہے۔ عقل باقی نہ رہنے کی وجہ سے ایسے شخص پر بھی نماز واجب نہ رہے گی۔ حیض ونفاس بھی وجوب نماز سے مانع ہیں۔ جب حیض یا نفاس ہو تو نماز واجب نہ ہوگی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:
«اَلَيْسَ اِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ» صحيح البخاری، الحيض، باب ترک الحائض الصوم، ح: ۳۰۴۔
’’کیا یہ بات نہیں کہ حالت حیض میں وہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے؟‘‘
-------------------

پانچ لاکھ احادیث کا نچوڑ پانچ احادیث
 

امام اعظم ابوحنیفہ رحمت اللہ علیہ کو پانچ لاکھ احادیث یاد تھیں، ایک دن انہوں نے اپنے بیٹے حماد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹے میں آپکو پانچ لاکھ 
احادیث کا نچوڑ صرف پانچ احادیث میں بیان کررہا ہوں:
1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو۔
2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ لایعنی فضول چیزوں کو ترک کر دے۔
3۔ نبی کریم صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرو جو اپنے لئے کرتے ہو۔
4. نبی کریم صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی اور دونوں کے درمیان شبہ کی چیز ہے جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سو جو شخص شبہات سے بچا اس نے دین محفوظ کرلیا اور جو شخص شبہات میں پڑگیا وہ حرام میں پڑجائے گا جیسا کہ چرواہا اپنا ریوڑ کسی کھیت کی باڑ کے پاس لے جائے گا تو عنقریب ایسا ہوگا کہ اس کا ریوڑ کھیت میں بھی چرنے لگے گا۔ بلاشبہ ہر بادشاہ نے باڑ لگا دی ہے اور اللہ کی باڑ حرام کردہ اشیا ہیں
5۔ نبی کریم صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے
یہ پانچ احادیث سنانے کے بعد فرماتے ہیں: بیٹا! ان پانچ احادیث کو آئینے کی طرح رکھنا اور اپنے اعمال کا ان پانچ احادیث پر محاسبہ کرتے رہنا۔ یہ پانچ احادیث ان پانچ لاکھ احادیث کا نچوڑ ہیں جو مجھے یاد ہیں ۔
از: مجموعہ امام وصایا امام اعظم رحمۃ اللہ ص: 64
------------
عورتوں کے بارے میں وہ پانچ باتیں جو اکثر مردوں کو یاد ہوتی ہیں:
1- "إن كيدهمن عظيم" عورتوں کی چال بہت خطرناک ہوتی ہے
2- "مثنی و ثلاث ورباع" دو، تین، چار عورتوں سے نکاح کرو.
3- "النساء ناقصات عقل و دين" عورتیں عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ہوتی ہیں
4- "الرجال قوامون على النساء" مرد عورتوں پر سربراہ ہیں.
5- "للذكر مثل حظ الأنثييين" (وراثت میں)  مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے.
عورتوں کے بارے میں وہ  پانچ باتیں جو اکثر مردوں کو یاد نہیں رہتیں
1- "وعاشروهن بالمعروف" عورتوں کے ساتھ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارو.
2- "استوصوا بالنساء خيرا" عورتوں کے بارے میں میری  وصیت کا خیال رکھنا.
3- "رفقا بالقوارير" (عورتیں شیشے کی طرح ہیں) ان شیشوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ
4- "خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي" تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہترین ہو اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں.
5- "ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم" عورتوں کی عزت وہی کرے گا جو خود عزت دار ہوگا اور اور ان کی اہانت اور بے عزتی وہی کرے گا جو خود بے عزت ہوگا.
--------
حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بچوں ميں پائی جانے والی پانچ باتیں اگر بڑے لوگ اپنالیں تو وہ اللہ کے ولی بن جائیں گے:
1- بچے روزی روٹی کی فکر نہیں کرتے. 
2- بچے بیمار ہو جائیں تو اللہ کا شکوہ نہیں کرتے. 
3- بچے ایک ساتھ مل بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں. 
4- بچے جب ڈرتے ہیں تو ان کی آنکهوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں. 
5- بچے جب آپس ميں لڑتے ہیں تو بہت جلدی صلح کرکے پھر ایک ہوجاتے ہیں. 
(حسن المحاضرة 1/521)
--------
پانچ وجوہات کی بنیاد پر روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے
⭕ آج کا سوال ۔٨١⭕
شریعت میں کن وجوہات کی بنیاد پر روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے؟ 
🔵 جواب 🔵
حامداومصلیاومسلما 
مذکورہ ذیل چیزوں کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے 
۱... مرض 
جسکی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو یا روزہ رکھنے سے مرض بڑھ جانے کا اندیشہ ہو 
نوٹ... صحت یاب ہونے پر قضا کرنا ضروری ہوگا
۲... مسافر شرعی
 شرعی سفر جسکی مقدار کم از کم ۷۷.۵۰ کلومیٹر ہے 
نوٹ... مقیم ہونے کے بعد قضا ضروری ہوگی
اور سفر شرعی میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت تو ہے لیکن اگر روزہ رکھنے میں زیادہ تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے 
۳... شیخ فانی
بہت کمزور بوڑھا مرد یا عورت جو روزہ نہ رکھ سکتا ہو وہ ہر روزہ کے بدلے فدیہ دے مقدار ایک صدقہ فطر 
نوٹ... اگر اللہ قوت دیدے تو روزوں کی قضا کرنی ہوگی
۴... حاملہ یا دودھ پلانے والی
جسکو روزہ رکھنے سے اپنی جان یا بچے کی جان کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو 
نوٹ... بعد میں چھوٹے ہوۓ روزوں کی قضا کرنی ہوگی 
۵... حائضہ و نافسہ 
ان عورتوں کے لئے شریعت کی طرف سے ان ایام میں روزہ رکھنا منع ہے اگر رکھ بھی لیں تو ادا نہیں ہوگا اور گنہگار بھی ہوگی
نوٹ... پاک ہونے کے بعد ان روزوں کی قضا کرے گی. 
فتاوی رحیمیہ
عمران اسماعیل میمن سورت گجرات ہند
----------
پانچوں نمازیں کیسے شروع ہوئیں؟
پانچوں نمازوں کے بارے میں کسی نے بتلایا ہے کہ ہر نبی نے پڑھی ہیں جیسے
فجر سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے ظہر ابراہیم علیہ السلام بے 
عصر داؤد علیہ السلام نے مغرب یونس علیہ السلام نے عشاء موسی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی روایات موجود ہیں. مجھے یہ بتلائیے کہ یہ درست ہے کیا اور اس کے بارے میں اگر مزید معلومات بھی مل سکے تو بڑی مہربانی ہوگی
الجواب وباللہ التوفیق:
امام طحاوی رحمہ اللہ نے روایت بایں الفاظ نقل کی ہے:
حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ بَحْرَ بْنَ الْحَكَمِ الْكَيْسَانِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ يَقُولُ: إِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، لَمَّا تِيبَ عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحُ ، وَفُدِيَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ فَصَلَّى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَرْبَعًا، فَصَارَتِ الظُّهْرُ، وَبُعِثَ عُزَيْرٌ، فَقِيلَ لَهُ: كَمْ لَبِثْتَ ؟ فَقَالَ: يَوْمًا، فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ: أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرُ . وَقَدْ قِيلَ: غُفِرَ لِعُزَيْرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَغُفِرَ لِدَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَغْرِبِ، فَقَامَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَجَهَدَ فَجَلَسَ فِي الثَّالِثَةِ، فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا. وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ: بحر بن حکم الکیسانی کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد الرحمن عبید اللہ بن محمد بن عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب صبح کے وقت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نماز فجر ہوگئی۔ اور اسحاق علیہ السلام کا فدیہ ظہر کے وقت ادا کیا گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے چار رکعات ادا کیں، پس وہ نماز ظہر ہوگئی۔ اور جب عزیر علیہ السلام کو اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا: آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن پھر انھوں نے سورج کو دیکھا تو کہا: یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پھر انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے چار رکعات نماز شروع کی لیکن تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ پس وہ نماز مغرب ہوگئی۔ اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نماز عشاء) ادا کی وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
(شرح معانی الآثار ط عالم الکتاب: 1/175، حدیث نمبر: 1046)

----------------------------------------
پانچ باتیں جن سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی 
حدثنا محمود بن خالد الدمشقي, حدثنا سليمان بن عبد الرحمن ابو ايوب, عن ابن ابي مالك, عن ابيه, عن عطاء بن ابي رباح, عن عبدالله بن عمر, قال: اقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم, فقال: "يا معشرالمهاجرين, خمس إذا ابتليتم بهن, واعوذ بالله ان تدركوهن, لم تظهر الفاحشة في قوم قط , حتى يعلنوا, بها إلا فشا فيهم الطاعون والاوجاع, التي لم تكن مضت في اسلافهم الذين مضوا , ولم ينقصوا المكيال والميزان, إلا اخذوا بالسنين, وشدة المئونة, وجور السلطان عليهم , ولم يمنعوا زكاة اموالهم إلا منعوا القطر من السماء, ولولا البهائم لم يمطروا ولم ينقضوا عهد الله, وعهد رسوله إلا سلط الله عليهم عدوا من غيرهم, فاخذوا بعض ما في ايديهم وما لم تحكم ائمتهم بكتاب الله, ويتخيروا مما انزل الله إلا جعل الله باسهم بينهم".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ”مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤگے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں) پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں، دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں، تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا، چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے“۔
(ابن ماجہ)
------------------------------------
ماہ رمضان المبارک میں پانچ خصوصی انعامات
حضرت سَیِّدُنا جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ ذِی شان ہے: میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں:
{۱} جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ عَزّوَجَلَّ ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ عَزّوَجَلَّ نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا.
{۲} شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ تَعَالٰی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے.
{۳} فرشتے ہر رات اور دن ا ن کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں.
{۴} اللہ تَعَالٰی جنت کو حکم فرماتاہے: ’’میرے (نیک) بندوں کیلئے مُزَیَّن (یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے.‘‘
{۵} جب ماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ عَزّوَجَلَّ سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔
قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کی:
یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیا وہ لَیلَۃُ الَقَدْر ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’نہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجاتے ہیں تو اُنہیں اُجرت دی جا تی ہے۔‘‘
(شُعَبُ الایمان ج ۳ ص ۳۰۳ حدیث ۳۶۰۳)
-------------------------------------------------
پانچ کاموں میں جلدی کا حکم:
دینِ اسلام کا عمومی مزاج یہی ہے کہ جلدبازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اور بردباری اللہ کی طرف سے۔ مگر پانچ باتوں میں جلدی کرنے کی تعلیم دی۔
’’كَانَ يُقَالُ الْعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ إِلا فِي خَمْسٍ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ إِذَا حَضَرَ الضَّيْفُ ، وَتَجْهِيزُ الْمَيِّتِ إِذَا مَاتَ , وَتَزْوِيجُ الْبِكْرِ إِذَا أَدْرَكَتْ , وَقَضَاءُ الدَّيْنِ إِذَا وَجَبَ , وَالتَّوْبَةُ مِنَ الذَّنْبِ إِذَا أَذْنَبَ ‘‘ (حلیۃ الأولیاء و طبقات الأصفیاء (۸؍۷۸)
پہلی چیز: 
مہمان کو کھانا کھلانے میں جلدی کرنا
پہلی چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا وہ یہ ہے:
’’إِطْعَامُ الطَّعَامِ إِذَا حَضَرَ الضَّيْفُ”
ترجمہ: جب مہمان آئیں تو ان کے سامنے کھانا پیش کرنے میں جلدی کیا کرو۔
آج کل تو ایک رواج ہی بن چکا ہے کہ کھانے مین خوب تاخیر کی جاتی ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی کھانا اُس وقت پیش کیا جاتا ہے کہ جب مہمان انتظار کر کرکے تھک چکا ہوتا ہے۔ یہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔
دوسری چیز: 
مُردے کو دفنانے میں جلدی کرنا
دوسری چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا وہ یہ ہے:
’’وَتَجْهِيزُ الْمَيِّتِ إِذَا مَاتَ‘‘
ترجمہ: جب فوتگی ہوجائے تو مردے کو دفنانے میں جلدی کرلیا کرو۔
آج کل تو کئی کئی دن مردے کو رکھتے ہیں کہ فلاں رشتہ دار فلاں ملک سے آرہا ہے۔ شریعت نے اس تاخیر کو پسند نہیں کیا۔
تیسری چیز: 
قرض کی ادائیگی میں جلدی کرنا
تیسری چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا ہے وہ یہ ہے:
“وَقَضَاءُ الدَّيْنِ إِذَا وَجَبَ‘‘
ترجمہ: کہ اگر کسی سے قرض لیا ہے تو قرض کی ادائیگی میں جلدی کرلیا کرو۔ یعنی قرض کی ادائیگی کا وقت بھی آگیا ہو اور مال پیسہ بھی ہو تو پھر تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔
چوتھی چیز: 
گناہ ہوجانے کے بعد توبہ میں جلدی کرنا
چوتھی چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا، وہ ہے:
“وَالتَّوْبَةُ مِنَ الذَّنْبِ إِذَا أَذْنَبَ ‘‘
ترجمہ: گناہ سرزد ہوجانے کے بعد توبہ کرنے میں جلدی کرنا۔
توبہ دو چیزوں کا نام ہے، پہلی یہ ہے کہ انسان کو ندامت ہو کہ میں نے یہ غلطی، یہ گناہ کیوں کیا؟ اور دوسری یہ ہے کہ انسان یہ عہد کرے کہ اب یہ نہیں کروں گا۔ جب یہ دو چیزیں جمع ہوجائیں تو اس کو توبہ کہتے ہیں اور توبہ اللہ تعالی کو پسند ہے۔
قرآن پاک میں فرمایا:
’’إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ‘‘ (البقرۃ: ۲۲۲)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔
پانچویں چیز: نکاح میں جلدی کرنا
پانچویں چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا ہے وہ یہ ہے:
’’وَتَزْوِيجُ الْبِكْرِ إِذَا أَدْرَكَتْ‘‘
ترجمہ: اگر گھر میں جوان بچی موجود ہے اور اس کے لئے مناسب رشتہ بھی موجود ہو تو اس کے نکاح میں جلدی کرو اور اسے مؤخر نہیں کرو۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکماً فرمایا:
’’ يا علي! ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤا ‘‘(السنن الکبری للبیھقی۷؍۲۱۴، رقم: ۱۳۷۵۵)
ترجمہ: اے علی! تین کاموں میں تاخیر نہ کریں۔ ایک نماز جب اس کا وقت آجائے۔ دوسرا جنازہ جب کہ وہ تیار ہوجائے، تیسرا بن بیاہی عورت کا رشتہ جب کہ اس کا مناسب رشتہ مل جائے۔
جس طرح نماز کا وقت پر پڑھنا اور جب جنازہ تیار ہوجائے تو جلدی کرنا عبادت کا درجہ رکھتا ہے، اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح جلدی کرنا بھی عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ بلکہ اگر تاخیر کی گئی تو جوان بچہ یا بچی کا زنا میں ملوث ہونے کا امکان ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ۔‘‘ (سنن الترمذی، باب ما جاء اذا جاء کم من ترضون دینہ فزوجوہ، رقم: ۱۰۸۴)
ترجمہ: جب تمہارے پاس وہ شخص رشتہ بھیجے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو تم اس کے ساتھ لڑکی کا نکاح کردو، اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیلے گا۔
ایسی کسی بھی صورتحال سے بچنے کے لئے شریعت نے حکم دیا کہ نکاح میں جلدی کی جائے۔
------
ہم
نے پانچ چیزیں تلاش 
کیں انھیں پانچ جگہ پایا

حضرت شفیق بلخی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے پانچ چیزوں کو تلاش کیا اور ان کو پانچ جگہ پایا۔
1: رزق کی برکت چاشت کی نماز میں ملی۔
2: قبر کی روشنی تہجد کی نماز میں ملی۔
3: منکر نکیر کے سوالوں کا جواب قرأت میں پایا۔
4: پل صراط سے پار ہونا روزہ اور صدقہ میں پایا۔
5: عرش کا سایہ خلوت (تنہائی) میں پایا۔
ماخوذ: فضائل اعمال شیخ عرب و عجم مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نیز رہنمائے تبلیغی سفر اور چھ نمبر
(ایس اے ساگر)

No comments:

Post a Comment