Friday 10 April 2020

ملک کی موجودہ صورت حال میں جمعہ کا قیام

ملک کی موجودہ صورت حال میں جمعہ کا قیام
سوال: مفتی صاحب! آپ حضرات نے مساجد کے علاوہ گھر کی بیٹھک یا باہری کمرہ میں حسب شرائط جو جمعہ قائم کرنے کے لیے فرمایا ہے، یہ تو فقہ کے اُس  جزئیہ کے خلاف ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر شہر والوں کا جمعہ فوت ہوجائے تو وہ اذان واقامت کے بغیر تنہا تنہا ظہر پڑھیں گے، اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو گھروں کی بیٹھک وغیرہ میں جمعہ نہیں کرنا چاہیے؛ ورنہ فقہا یہ فرماتے کہ اولاً جمعہ کی کوشش کی جائے۔ اور اگر جمعہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو اذان واقامت کے بغیر ظہر تنہا تنہا پڑھی جائے۔ اور بعض کبار اہل علم نے اس اہم ترین پہلو کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ آپ حضرات سے بھی غور وفکر کی درخواست ہے۔
 مستفتی: (مفتی) حکمت اللہ حنیف صاحب، (مفتی) اسامہ صاحب، معراج صاحب، سراج صاحب، برہان صاحب وغیرہم۔
________
بسم اللہ الرحمن الرحیم،
الجواب وباللہ التوفیق:۔
آپ حضرات نے جس اہم پہلو کی طرف متوجہ فرمایا ہے، الحمد للہ دارالعلوم کے فتوے کی تیاری میں اس اہم پہلو کو بہ طور خاص ملحوظ رکھا گیا تھا اور الحمد للہ اکابر کے فتاوی میں اس جزو کو بھی حل کیا گیا ہے فجزاھم اللہ عنا خیر الجزاء؛لیکن فتوے میں اگر جملہ پہلؤوں پر بحث کی جاتی تو فتوی بہت طویل ہوجاتا ہے اور خالی الذین حضرات کے لیے مشکل ودقیق ہوجاتا ہے؛
البتہ ان سب باتوں کی طرف اشارے کے لیے فتوے کے اخیر میں یہ لکھ دیا گیا تھا کہ: ’’واضح رہے کہ دونوں سوالوں کے جواب میں فقہ حنفی کے بنیادی مراجع اور اکابر علمائے دیوبند کے فتاوی اور اختلاف کی صورت میں راجح قول کا لحاظ کیا گیا ہے الخ‘‘۔ اور گذشتہ جمعہ کو  مفتی مدثر قاسمی (کاس گنجی) زید مجدہ نے  احقر کے پرسنل نمبر پر  یہی سوال کیا تھا اور انھیں امداد الاحکام کا حوالہ بتادیا گیا تھا  اور باقاعدہ لکھ کر جواب نہیں دیا گیا تھا۔ اور اب جب آپ حضرات مستقل سوال کررہے ہیں اور لوگوں میں اس حوالہ سے بے چینی بھی ہے؛ اس لیے اس سوال کا تحریری  جواب لکھا جاتا ہے، جو  حسب ذیل ہے:
جس بستی میں جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہوں، وہاں اگرکچھ لوگوں کا جمعہ فوت ہوجائے تو اولاً وہ جمعہ کے قیام کی کوشش کریں گے۔ اور اگر جمعہ کے قیام کی شرعاً کوئی شکل نہ بن سکے تو وہ حضرات ظہر کی نماز تنہا تنہا پڑھیں گے۔ پورا مسئلہ اسی طرح  ہے۔
اور ہمارے اکابر میں حضرت مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ اور حضرت مفتی عبدالکریم گمتھلوی رحمة اللہ علیہ وغیرہ کی یہی تحقیق ہے۔
اور فقہ کا پیش کردہ جزئیہ اسلامی ممالک کے ساتھ خاص ہے، جہاں اذن سلطان کے بغیر جمعہ کا قیام جائز نہیں ہوتا؛ کیوں کہ فقہ حنفی کی اکثر عربی کتابیں اسلامی سلطنت والے ممالک میں تصنیف کی گئی ہیں۔
چناں چہ  حضرت  مولانا مفتی عبد الکریم صاحب گمتھلوی رحمة اللہ علیہ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا
قواعد سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر مصر میں کم از کم چار شخص جمعہ سے رہ جاویں تو وہ جمعہ کی نماز دوسری مسجد میں  پڑھ لیں الخ۔ مگر جزئیہ کوئی نہیں ملا؛ بلکہ روایات مذکورہ بالا سے بہ ظاہر اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر حال میں تنہا تنہا ظہر پڑھیں؛ لیکن خلاف قواعد ہونے کی وجہ سے ان روایتوں میں تاویل کی جائے گی۔ پھر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ کے حوالہ یہ تاویل نقل فرمائی کہ ان روایتوں کو مبنی کہا جائے تعدد جمعہ کے عدم جواز پر۔ اور جب مفتی بہ جواز تعدد ہے تو یہ روایت بھی مفتی بہ نہ رہے گی۔ اور فرمایا: وھو وجہ وجیہ۔ اور ایک تاویل یہ ذکر فرمائی کہ یہ روایت محمول ہے اس جگہ پر جہاں حکومت اسلامیہ کی طرف سے قاضی وغیرہ مقرر ہو، اگر وہاں جمعہ فوت ہوجساوے تو بدون اذن حاکم دوسرا جمعہ نہیں ہوسکتا۔ باقی ہمارے ملک  میں چوں کہ تقرر امام کا مدار تراضی مسلمین پر ہے؛ اس لیے یہ باقی ماندہ لوگ کسی کو امام بناسکتے ہیں اور جمعہ پڑھ سکتے ہیں کما قال صاحب الخلاصۃ الخ۔ 
غرضیکہ اہل مصر کو تنہا تنہا ظہر کا حکم جب ہے کہ جمعہ سے کوئی مانع ہو، ویؤید ہذا ما في العالمگیریۃ ونصہ: وکرہ جماعۃ الظھر لأھل المصر اذا لم یجمعوا لمانع (ج: ۱، ص: ۹۵)۔
پھر چند سطروں کے بعد فرمایا: یہ دوسری مسجد میں جمعہ پڑھنا تو جب کہ چار آدمی جمعہ سے رہ جاویں۔ اور اگر چار سے کم یعنی: دو، تین آدمی رہ جاویں تو وہ ظہر پڑھیں اور الگ الگ پڑھیں، جماعت نہ کریں۔ اس کے بعد مجموعۃ الفتاوی میں مولانا عبد الحی صاحب: کا فتوی بھی اس تحریر کے مطابق پایا۔ کتبہ الاحقر عبدالکریم عفی عنہ، خانقاہ امدادیہ، ۹؍ ربیع الاول، سنہ: ۴۵ھ۔ (امداد الاحکام، کتاب الصلوۃ، فصل في الجمعۃ والعیدین، ۱: ۷۸۳ ــ ۷۸۵،  سوال: ۵۵، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی)۔
پس معلوم ہوا کہ ملک کی موجودہ صورت حال میں گھروں کی بیٹھک یا باہری کمرے میں (شرائط کے باوجود) جمعہ کی عدم صحت پر فقہ کے اس جزئیہ سے استدلال اکابر کی تحقیق کی روشنی میں صحیح نہیں ہے۔
اور صحت جمعہ کے لیے مسجد کی شرط کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں؛ بلکہ اکابر کے فتاوی اس کے بر خلاف ہیں (دیکھیے: فتاوی دار العلوم دیوبند، ۵: ۱۱۷، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند، کفایت المفتی، ۳: ۲۳۱، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی ، فتاوی محمودیہ جدید ، ۸: ۵۳ تا ۵۵، مطبوعہ: ادارہ صدیق، ڈابھیل، وغیرہ)۔
اور فقہی جزئیات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے باب میں مسجد اور غیرمسجد کا فرق نہیں ہے اور گھر میں بھی حسب شرائط جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے:
چناں چہ شامی میں کافی نسفی کے حوالے سے ہے:
والاذن العام وھو أن تفتح أبواب الجامع ویؤذن للناس حتی لو اجتمعت جماعة في الجامع وأغلقوا الأبواب وجمعوا لم یجز، وکذا السلطان اذا أراد أن یصلي بحشمہ في دارہ فان فتح بابھا وأذن للناس اذناً عاماً جازت صلاتہ شھدتھا العامة أو لا الخ (رد المحتار، ٣: ٢٦، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ٥: ٥٣، ت: الفرفور، ط: دمشق، نقلا عن الکافي للنسفي)۔
اور فتاوی عالمگیری میں محیط وغیرہ کے حوالہ سے ہے:
ومنھا الاذن العام، وھو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافة حتی أن جماعة لو اجتمعوا  في الجامع وأغلقوا أبواب المسجد علی أنفسھم وجمعوا لم یجز، وکذا السلطان اذا أراد أن یجمع بحشمہ في دارہ، فان فتح بابھا وأذن اذناً عاماً جازت صلاتہ شھدتھا العامة أو لم یشھدوھا کذا في المحیط، ویکرہ کذا في التتارخانیة، وان لم یفتح باب الدار وأجلس البوابین علیھا لم تجز لھم الجمعة کذا في المحیط (الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ١: ١٤٨، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
فقط واللہ تعالی أعلم۔
کتبہ: محمد نعمان سیتا پوری غفرلہٗ
۱۵؍ شعبان، سنہ: ۱۴۴۱ھ، بہ روز: جمعہ، بعد فجر

No comments:

Post a Comment