شوہر کے قریب بیوی کا نماز پڑھنا؟
از: شکیل منصور القاسمی
سوال
——-
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
موجودہ حالات میں ایک صاحب نے جگہ کی تنگی کی وجہ سے بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک ہی صف میں نماز عشاء اور تراویح ادا کرلی جبکہ امام تھوڑا سا آگے تھا کیا نماز درست ہوجائے گی؟ یا فاسد؟؟؟
اگر نماز فاسد ہوجائے گی تو اداء کی ہوئی نماز کا اعادہ ضروری ہے؟
امید کہ مفتیان کرام جواب دیکر عنداللہ ماجور ہونگے
الجواب وباللہ التوفیق:
محاذات کی تعریف وتوضیح میں فقہا حنفیہ کا کافی اختلاف ہے. شامی نے تقریباً اقوال مختلفہ پہ روشنی ڈالنے کے بعد اس کی تفسیر یہی کی ہے کہ تحقق محاذات کے لئے اعتبار عورت کے قدم کا ہے. یعنی عورت کا قدم مرد کے قدم کے مساوی بالکل نہیں ہونا چاہئے، قہستانی کے حوالے سے شامی نے محاذات کی توضیح میں لکھا ہے کہ محاذاتِ مفسد، یہ ہے کہ عورت کا قدم مرد کے بدن کے کسی بھی حصہ کے برابر نہ ہو. اگر عورت کا قدم تو مساوی نہ ہو البتہ اگر قدم کے علاوہ اس کے بدن کا کوئی حصہ مرد کے بدن کے مساوی ہوجائے تو یہ مفسدِ نماز نہیں ہے. اس سے پتہ چلا کہ محاذات کے مسئلے میں اعتبار عورت کے قدم کا ہے، بقیہ حصہ بدن کا نہیں. قدم کا محاذات میں ہونا یا نہ ہونا مکمل طور پر حالت قیام ہی میں معلوم ہوسکتا ہے. دیگر حالتوں میں نہیں.
یہاں دیگر اعضائے بدن میں بطور خاص قدم کو اس لئے معیار بنایا گیا ہے کہ دیگر بیشتر مسائل میں بھی قدم پہ حکم کا مدار رکھا گیا ہے. مثلاً کسی جانور کا قدم تو حد حِل میں ہو؛ لیکن سر اور بقیہ حصہ بدن حدِ حرم میں! تو قدم کا لحاظ کرکے فقہا اس کے شکار اور پکڑنے کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن اگر قدم حرم میں ہو اور بقیہ اعضا حل میں تو قدم کا لحاظ کرکے اس کا شکار ناجائز ہے. اس سے پتہ چلتا ہے کہ قدم کا ہی اعتبار ہوتا ہے دیگر اعضا کا نہیں (شامی)
محاذات مفسد کی متعدد شرائط ہیں جو جامعہ بنوریہ ٹائون کے درج ذیل ایک فتوی میں تفصیلا بیان کئے گئے ہیں:
مرد اور عورت کے ایک ساتھ نماز پڑھنے سے مراد اگر یہ ہو کہ نماز پڑھتے ہوئے مرد اور عورت دونوں ایک ہی ساتھ صف میں کھڑے ہوں، تو یہ مسئلہ اصطلاح میں ”محاذات“ کا مسئلہ کہلاتا ہے، اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:
اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی، وہ شرائط یہ ہیں:
(1) وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔
(2) دونوں نماز میں ہوں، یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔
(3) مرد کی پنڈلی، ٹخنہ یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔
(4) یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔
(5) یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔
(6) دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔
(7) تحریمہ دونوں کی ایک ہو، یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔
(8) عورت میں نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں، یعنی عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں نہ ہو۔
(9) مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔
(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو، یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔
(11) مرد نے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو پھر بھی عورت مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔
(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔
اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں (دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:
(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود .... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد ... (ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة .... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط: رشیدیہ)
(حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی)
(شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ، باب الامامہ،ط: سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144008200729- دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
-----------
مفتی تقی عثمانی صاحب کا تحریر کردہ ایک فتوی جس کی تصحیح مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے فرمائی ہے ذیل میں پیش ہے. اس فتوی کے بعد اب لکھنے کو کچھ بچتا نہیں ہے
اس لئے بعینہ پیش کررہا ہوں
ملاحظہ فرمائیں:
—————————
محاذات کی دو صورتوں کی تفصیل اور حکم
—————————
مرسلہ فتوی نمبر ۴۵/۳۵۱ محررہ مفتی محمد صابر صاحب مدظلہم بتاریخ ۲۲-۱۲-۱۳۸۷ھ میں، آنجناب نے جواب نمبر ۲ میں تحریری فرمایا ہے کہ اگر بیوی اتفاقیہ میاں کے ساتھ نماز پڑھے اور مرد کے ٹخنے اور پنڈلی سے اپنے یہ اعضاء ذرا پیچھے کرکے کھڑی ہو تو کسی کی نماز فاسد نہ ہوگی یعنی ہوجائے گی، لیکن بہشتی زیور میں یہ لکھا ہے کہ اگر بیوی اپنے میاں کے پیچھے نماز پڑھے تو بالکل پیچھے (ایک صف کے فاصلہ پر) کھڑی ہو ورنہ اس کی نماز نہیں ہوگی اور مرد کی نماز بھی برباد ہوگی۔
سوال: دونوں صورتوں کی الگ الگ کیا نوعیت ہے کہ پہلی صورت میں عورت (ایک مقتدی کی طرح) صرف مرد کے ٹخنے اور پنڈلی سے ذرا پیچھے ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے، اور بہشتی زیور کی رو سے اسے کم از کم ایک صف کا فاصلہ چھوڑکر کھڑا ہونا چاہئے؟
جواب: محاذات کی صحیح تفسیر وہی ہے کہ عورت کا ٹخنہ اور پنڈلی مرد کے کسی عضو کے برابر ہو۔ لہٰذا اگر کوئی عورت مرد سے اتنے پیچھے کھڑی ہو کہ دونوں کے ٹخنے اور پنڈلی بالکل برابر میں نہیں رہتے، خواہ عورت کے پاؤں کا کوئی حصہ مرد کے پاؤں کے کسی حصے کے برابر میں ہو تو اصح قول کی بناء پر نماز فاسد نہیں ہوگی، جس کی صورت یہ ہے .......... عورت مرد
یہ صورت اصح قول کی بناء پر مفسد نہیں ہے، البتہ بعض فقہاء رحمہم اللہ نے ٹخنے اور پنڈلی کی بجائے پورے قدم کی محاذات کا اعتبار کیا ہے، لہٰذا ان کے نزدیک مذکورہ صورت مفسد ہے، اور جواز کی صورت ان کے نزدیک یہ ہے .............. عورت مرد
بہشتی زیور میں احتیاطاً اس آخری قول کو اختیار کر کے بالکل پیچھے کھڑے ہونے کو کہا گیا ہے، جس کا مطلب ایک صف پیچھے کھڑا ہونا نہیں ہے بلکہ اتنے پیچھے کھڑا ہونا ہے کہ عورت کے قدم کا کوئی حصہ مرد کے قدم کے کسی حصے کے برابر نہ ہو۔
قال الشامی عن الزیلعی: المعتبر فی المحاذات الساق و الکعب فی الاصح، و بعضھم اعتبر القدم اھـ فعلی قول البعض لو تأخرت عن الرجل ببعض القدم تفسد و ان کان ساقھا و کعبھا متاخرا عن ساقہ و کعبہ، و علی الاصح لا تفسد و ان کان بعض قدمھا محاذیا لبعض قدمہ بان کان اصابع قدمھا عند کعبہ مثلاً تامل۔ (ثم قال بعد اسطر) ......... المانع لیس محاذاۃ ای عضو منھا لای عضو منہ، ولا محاذاۃ قدمہ لای عضو منھا بل المانع محاذاۃ قدمھا فقط لای عضو منہ۔ (۱)۔
احتیاط بہرحال بہشتی زیور کے قول پر عمل کرنے میں ہے تاکہ باتفاق نماز درست ہو جائے، لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا بہشتی زیور کے قول پر عمل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت ایک صف پیچھے کھڑی ہو بلکہ اس کا مطلب اتنے پیچھے کھڑا ہونا ہے کہ اس کے قدم کا کوئی حصہ مرد کے کسی عضو کے مقابل میں نہ آئے۔ المرأۃ اذا صلت مع زوجھا فی البیت ان کان قدمھا بحذاء قدم الزوج لا یجوز صلاتھما بالجماعۃ، وان کان قدماھا خلف قدم الزوج الا انھا طویلۃ تقع رأس المرأۃ فی السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتھما لان العبرۃ للقدم۔ (شامي فتاوی شامیہ ۱/۵۷۲ (طبع ایچ ایم سعید) و اللہ اعلم
الجواب صحیح احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ ۲۸-۲-۱۳۸۸ھ
(فتاوی عثمانی یونیکوڈ جلد ۱، صفحہ ۲۹۵)
شکیل منصور القاسمی
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment