Tuesday, 28 April 2020

دو مقتدیوں کا آپس میں ایک میٹر فاصلہ بناکر نماز پڑھنا؟ ‏

دو مقتدیوں کا آپس میں ایک میٹر فاصلہ بناکر نماز پڑھنا؟ 
از: شکیل منصور القاسمی
دو مقتدیوں کا آپس میں ایک میٹر فاصلہ بناکر نماز پڑھنا؟ 
سائل کا نام: 
محمد توصیف قاسمی

الجواب وباللہ التوفیق:
جماعت کی نماز میں تسویۃ الصفوف اور سدخلل یعنی سیسہ پلائی دیوار کی طرح صف ملانا اور دو آدمیوں کے درمیان فاصلہ نہ چھوڑنا ائمہ ثلاثہ کے یہاں مسنون ہے 
حنابلہ وغیرہ کے یہاں واجب ہے. 
اگر یہ تاکید نہ ہوتی تو پھر جماعت کی نماز کی ہیئت ہی نہ بن پائے گی؛ بلکہ جو جہاں جیسے چاہتا کھڑا ہوجاتا.
مختلف احادیث میں سدخلل کے فضائل اور کشادگی چھوڑنے پر وعید وارد ہوئی ہے 
لیکن یہ ساری تاکید معتدل احوال میں ہے. 
ضرورت، عجز، اور عذر کے وقت نماز کی شرائط اور فرائض وواجبات بھی ساقط ہوجاتے ہیں 
ستر عورت شرط نماز ہے. 
لیکن کپڑا نہ پانے والا اشارے سے ننگا نماز پڑھتا ہے 
جگہ کی تنگی کے باعث اسطوانہ کے درمیان میں بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے. 
امام رکوع میں ہو. 
مسبوق امام کو رکوع میں پالے تو وہ رکعت پانے والا شمار ہوتا ہے؛ حالانکہ اس سے قیام وغیرہ سب چھوٹ گیا ہے 
لیکن ضرورت کے وقت اسے برداشت کیا گیا ہے 
صف کے پیچھے ایک مقتدی ہو تو وہ اکیلا ہی کھڑا ہوگا. 
یہاں عذر ہے اس لئے سدخلل کا حکم اس سے ساقط ہے. 
غرضیکہ “ضرورت، عذر اور عجز“ کے وقت سنت ہی کیا ؟ فرائض وشرائط بھی ساقط ہوجاتے ہیں 
کورونا وائرس کی وجہ سے دو نمازیوں کے درمیان ایک میٹر فاصلہ بنائے رکھنے کا حکم اگر انتظامیہ کی طرف سے آجائے 
تو اب ہم سدخلل پہ قادر نہیں 
بلکہ عاجز شمار ہونگے 
عجز کے وقت فرائض وشرائط کے سقوط کی متعدد نظائر موجود ہیں، کچھ اوپر پیش کئے گئے ہیں 
موجود حالات میں انتظامی حکم سامنے آجانے کے بعد نمازوں میں ایک میٹر فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہے 
یہ گنجائش عجز وعذر کے باعث ہے 
جہاں حکومتی طور پہ اس قدر لزوم نہ ہو وہاں یہ گنجائش نہیں 
بلکہ وہاں اتنا معمولی فاصلہ رکھا جائے جس سے جماعت کا تصور باقی رہے 
دور سے دیکھنے میں محسوس ہوکہ یہ سب نماز باجماعت میں شریک ہیں، کسی کھیل اور میچ کے تماشہ بیں نہیں!
شیخ الاسلام مفتی تقی صاحب مدظلہ نے آڈیو پیغام میں جو ایک فٹ فاصلے کی ہدایت دی ہے وہ اپنے ملک کے حالات وانتظامی احکام کے تناظر میں ہے 
ہر ملک کے حالات اور انتظامی جبر وشدت الگ نوعیت کی ہے، ہر جگہ اس آڈیو کی تطبیق درست نہیں 
واللہ اعلم 

No comments:

Post a Comment