Sunday, 26 April 2020

محمد بن عبدالوہاب نجدی؛ شخصیت ونظریات

محمد بن عبدالوہاب نجدی؛ شخصیت ونظریات
-------------------------------
--------------------------------
آپ کا نام محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان بن علی بن محمد بن احمد بن راشد التمیمی ہے۔ سنہ 1115 ھجری موافق 1703 عیسوی کو ریاض سے جانب مشرق قریب 70 کیلو میٹر دور اور نجد کی جنوبی جانب وادی حنیفہ کے مقام "عیینہ" میں آپ پیدا ہوئے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ملاعلی قاری علامہ عینی اور کرمانی کی صراحت کے مطابق مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک کے علاقہ کو "حجاز" اور باقی عرب کے سارے علاقے کو بشمول عراق، بغداد، بصرہ اور کوفہ "نجد" کہتے ہیں۔ (عمدہ القاری وفتح الباری حدیث نمبر 7095) نجد اپنے وسیع تر معنی میں ماورائے حجاز کو شامل ہے۔ چونکہ انہی علاقوں (کوفہ۔ کربلاء وغیرہ) میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ اہل بیت رسول کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ یہیں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئی۔ اور فتنہ خوارج کی آماجگاہ بھی یہی علاقے رہے ،یہاں شروفساد کا غلبہ رہا۔ اسی غلبہ شر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا:
هنالك الزلازل والفتن.وبها يطلع قرن الشيطان ۔۔
اس جگہ زلزلے آئیں گے۔ اور فتنے نمودار ہوں گے۔ اور وہیں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ (بخاری حدیث نمبر 7095 )۔
ظاہر ہے حدیث میں نجد سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کا محمل صرف صوبہ نجد نہیں بلکہ ماورائے حجاز سارا علاقہ ہے۔ علامہ داودی نے تو لغوی معنی مراد لیتے ہوئے ہر اونچی جگہ کو اس کا مصرف قرار دیا ہے۔ (لغوی اعتبار سے اونچی جگہ کو نجد اور نشیبی کو تہامہ کہاجاتا ہے )۔۔۔ حدیث مذکور کی وجہ سے علاقہ نجد کے ہر فرد پر کفر وفسق کو ثابت کرنا کم عقلی کے علاوہ
"لا تزر وازرة وزر أخري"
کے قرآنی اصول عدل کے بھی خلاف ہے۔ شیخ نجدی بچپن ہی سے بیحد ذہین و صحتمند تھے۔ دس برس کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کرلیے۔ بارہ سال کی عمر میں بلوغت کو بھی پہنچ گئے۔ اسی سال رشتہ ازدواج سے بھی منسلک ہوگئے۔پہر حج کا سفر ہوا۔ مدینہ پاک کی زیارت فرماکروطن واپس آئے۔ اور اپنے والد ماجد (مشہور حنبلی عالم دین اور ممتاز فقیہ تھے) سے فقہ حنبلی کی تعلیم شروع کردی ۔۔ مزید حصول علم کے لئے مدینہ منورہ کا سفر فرمایا، وہاں آپ کی ملاقات دو ایسے استاذوں سے ہوئی جو علامہ ابن تیمیہ کے افکار سے متاثر تھے۔ اور انہوں نے ابن تیمیہ کے افکار وخیالات کو شیخ نجدی میں کوٹ کوٹ کے بھردیا۔ اور یہی دو شخصیت شیخ نجدی کی زندگی کا رخ بدلنے میں موثر ثابت ہوئی ۔۔۔ ان میں سے ایک بااثر عالم شیخ عبداللہ بن ابراہیم بن سیف تھے۔دوسرے ہندوستانی استاذ شیخ حیات سندھی تھے ۔۔ ان دونوں اساتذہ کی تعلیم وتربیت نے شیخ نجدی کے ذہن وفکر میں ابن تیمیہ کے افکار پورے شدت کے ساتھ بھر دیئے۔ تاریخی اعتبار سے اس حقیقت سے انکار کی گنجائش یقینا نہیں ہے کہ نجد کے رہائشیوں میں بدعات وغیر رسمی عادات در آئی تھیں۔ فاسد عقائد اور بدعات دلوں میں جڑ پکڑ نے لگے تھے۔ توہم پرستی عام ہوگئی۔ قبروں درختوں اور چٹانوں سے دعائیں کی جارہی تھیں۔ کاہنوں اور نجومیوں سے مشورہ لینے کے ساتھ نیک فالی اور بدفالی کے لئے پرندوں کو اڑاتے تھے۔ ترک حکمرانوں کی عیش کوشیوں کی وجہ سے مذہبی اقدار قدموں تلے روندے جارہے تھے ۔۔۔۔ انہی بدعات وخرافات کے انسداد کے لئے "توحید و احیاء سنت" کا نعرہ لے کر شیخ میدان عمل میں کود پڑے۔ترک حکمرانوں کو آپ کی تحریک سے نفرت تھی۔ بدعات وخرافات پہ سخت نکیرکی وجہ سے اپنے اور پرائے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور شہر درشہر خارج بھی ہونا پڑا۔ آخرالامر "درعیہ" کے سردار محمد بن سعود کے یہاں آپ کو پناہ ملی۔ سردار کو اپنا گرویدہ بنایا اور انہیں اپنی تحریک "توحید واحیاء سنت" کا قائل کرلئے۔ اور پھر اپنے معتقدین سے مل کر ایک مختصر سی عرب جماعت کی بنیاد رکھی۔ مختلف ادوار میں "وھابی" "موحدین" "اخوان" "حنابلہ" "سلفی" جیسے مختلف ناموں سے مشہور ہوئی ۔۔ اس تحریک نے ترک حکمرانوں کی غلط کاریوں، عیش کوشیوں اور ذلیل شہوت پرستی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ لوگ جوق درجوق تحریک میں شامل ہوتے گئے۔ چھوتے چھوٹے عرب شیوخ جو باہم دست وگریباں تھے۔ وہ بھی اس تحریک سے وابستہ ہوتے گئے۔ اس طرح شیخ نجدی کا جتھا بڑھتا ہی چلا گیا۔ ان شیوخ اور دیگر معتقدین کی مدد سےچھوٹے چھوٹے علاقوں کو فتح کرتے چلے گئے۔اور نجد کا بہت سا حصہ فتح ہوگیا۔ فتح شدہ علاقوں میں آپ اپنے نائب مقررکرتے گئے۔ اور پوری شدت کے ساتھ بزور شمشیر اپنے عقائد ونظریات منواتے رہے۔ رفتہ رفتہ یہ تحریک "وھابیت" سے زیادہ مشہور ہوگئی۔ 1792ء میں شیخ کا انتقال ہوگیا (تفصیل آگے آئیگی)۔ وہ اپنی تمامتر فتوحات کو ایک قابل جانشیں کے سپرد کرگئے۔ 1791 ء میں مصلحین نے شریف مکہ سے ایک کامیاب جنگ لڑی۔ 1796ء میں انہوں نے بغداد کے بادشاہ کو بہت خونریزی کے ساتھ پسپا کردیا۔ 1801ء میں ابن سعود نے کربلاء پر چڑھائی کی جس سے تاریخی آثار وبقیات کی پامالی کے ساتھ بیشمار لوگوں کی جانیں گئیں۔ 1803ء میں مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرکے قبضہ کرلیا۔ جس نے بھی ان کے طریقہ کو ماننے سے انکار کردیا اس کو بے دریغ قتل کردیا گیا۔ 1804 ء میں مدینہ منورہ پر بھی ان کا قبضہ ہوگیا۔ لوٹ مار کا بازار بھی گرم رہا۔ متعدد صحابہ اور بزرگوں کی خانقاہوں کی بے حرمتی کی گئی۔ حتی کہ مسجد نبوی تک محفوظ نہ رہ سکی۔ 1811ء تک حرمین طیبین ان کے قبضہ میں رہے ۔۔ محمد علی پاشا والی مصر نے 1812ء میں ان کو تباہ وبرباد کرکے مدینہ پر اور 1813ء میں مکہ پر قبضہ کرکے نجد کے دارالسلطنت دراعیہ پر بھی قبضہ کرلیا۔ اور یوں نجدی سلطنت جس معجزانہ طریقہ سے وجود میں آئی تھی اسی معجزانہ طریقہ سے کچھ مدت کے لئے ریت کے صحرائی ٹیلوں کی طرح غائب ہوگئی۔ جب اس تحریک وھابیت کو شکست ہوئی تو اسی وقت کی بات ہے کہ ہندوستان میں شاہ عبدالعزیز کی سرکردگی میں انگریزوں کے خلاف جہاد عروج پہ تھا۔ سید احمد اور شاہ اسماعیل اسی جہاد میں شہید ہوچکے تھے۔ ظلم وعدوان کے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرلینے کے باوجود بھی انگریزوں کے لئے ان مجاہدوں کو شکست دینا مشکل تھا۔ تو انگریزوں کو بہت دور کی سوجھی اور ہندوستان ہی کے بعض ضمیر فروش علماء سے یہ فتوی حاصل کیا کہ یہ (شاہ اسماعیل شہید اور ان کے جانباز مجاہدین) وہی لوگ ہیں جو عرب میں پٹ چکے ہیں۔ اور یہ لوگ "وہابی" ہیں۔ ان حضرات کی کتابوں سے عبارتیں کانٹ چھانٹ کر غلط عنوانات سے مسلمانوں میں پھیلائیں تاکہ عامہ المسلمین ان علماء سے متنفر ہوجائیں۔ اور لوگ سید احمد شہید کی تحریک سے ہاتھ جھاڑ لیں۔ اس لئے لفظ "وہابی" کا لقب سب سے پہلے انگریزوں نے تجویز کیا تھا اور ان کے وفادار بدعتی علماء نے اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا اور آج تک کررہے ہیں۔ 1820ء میں خاندان سعود نے پھر سر اٹھایا۔ درعیہ کے کھنڈروں کے نزدیک ایک نئے دارالسلطنت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اور اس شہر کا نام "ریاض" رکھ دیا گیا۔ پھر اس مملکت کو اگرچہ عروج حاصل ہوا لیکن 32 سال ہی گذر پائے تھے کہ خاندانی تنازعات کے سبب یہ سلطنت پھر ملیا میٹ ہوگئی۔ اور خاندان ابن رشید جو جبل شمار سے تعلق رکھتا تھا غالب آگیا۔ لیکن آخر اسے بھی روز بد دیکھنا پڑا ۔۔ 1901ء میں ابن سعود کے خاندان کے امیر نجد نے ابن رشید کے مقرر کردہ عامل کو قتل کرڈالا۔اور ابن سعود کا جھنڈا نصب کردیا۔ اپنے آبائی سلطنت کے بہت سے حصے پر قبضہ کرلیا۔ "الاحساء" میں سے ترکوں کو نکال دیا۔ مشرق میں بحرین کی بندرگاہوں تک اور شمال میں کویت کی سرحد تک جاپہنچا۔۔ 1925ء کو ابن سعود نے جدہ اور حجاز پر مکمل قبضہ کرلیا اور اپنے مقبوضہ جات علاقے کا نام "مملکت نجد وحجاز" رکھا ۔۔ 1925ء کے بعد ہندوستان کی خلافت کمیٹی (جس کے روح رواں رئیس الاحرار مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی تھے) کے ارکان ابن سعود سے بلاد اسلامیہ کے متحدہ علماء کے مشورے سے "ملوکیت" کی بجائے "خلافت" کے قیام کے لئے مذاکرات کرتی رہی۔ اور حجاز مقدس میں مسلک حق کے مطابق آثار ومشاھد کی حفاظت کا مطالبہ بھی کرتی رہی۔ اور اس سلسلہ میں خلافت کمیٹی کا ایک سات نفری وفد بھی ابن سعود سے ان امور پہ راست بات کے لئے پہنچ چکا تھا ۔۔ مکاتبت ومراسلات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ابن سعود خلافت کمیٹی کے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی بھی کرتے رہے۔پر اس پہ عمل نہ ہوسکا ۔۔ 22 ستمبر 1922ء کو ابن سعود نے اپنے مطلق العنان بادشاہ (ملک) ہونے کا اعلان کردیا۔ اور "مملکت نجد وحجاز" کا نام "مملکت سعودی عربیہ" رکھ دیا گیا ۔۔ 1933ء میں امریکن اسٹنڈرڈ کمپنی نے 60 سالوں کے لئے سعودی عرب میں تیل کی دریافت کا ٹھیکہ لیا اور دیگر اور کمپنیوں کے اشتراک وتعاون سے امریکی کمپنی نے 1938ء میں پہلی مرتبہ سعودی عرب کے کنویں سے تیل نکالا ۔۔ 1945ء میں تجارتی سطح پر سعودی عرب کے تیل کی پیداوار شروع ہوگئی۔ اور امریکہ سعودی تیل درآمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست تھا۔ 9 نومبر 1953ء میں ابن سعود کا انتقال ہوگیا اور ان کے بڑے بیٹے شاہ سعود مملکت کے حکمراں بن گئے۔ شاہ سعود کے زمانہ میں مملکت کی معیشت تباہ ہوگئی۔ ملکی خزانہ برباد ہوگیا۔ مملکت میں عجیب بحران پیدا ہوگیا تھا۔ چنانچہ پورے ملک کے علماء، آل سعود کے بزرگوں اور مفتئ اعظم کی مشاورت سے متفقہ طور پر شاہ سعود کو معزول کرکے شاہ فیصل کی بادشاہت کا اعلان کردیا گیا۔ شاہ سعود کو چاروناچار یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا۔ 19 اکتوبر 1964ء میں شاہ فیصل سعودی عرب کے بادشاہ بنے۔ اس سے قبل وہ امیر اور وزیراعظم بھی رہ چکے تھے ۔۔ شاہ فیصل کے عہد حکومت میں سعودی عرب نے تعلیم، بنیادی ضروریات، صحت عامہ، ذرائع آمدنی، مواصلات، معدنی وسائل، صنعت غرضیکہ ہر میدان میں بےمثال ترقی کی۔ سعودی عرب کی موجودہ ترقی کا سہرا شاہ فیصل کے سر بندھتا ہے۔ انہوں نے ہی بتدریج مملکت کو بیسویں صدی میں لاکے کھڑا کردیا۔ توحید اور احیاء سنت پر شیخ نجدی نے تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ اور اسی نعرہ کے ساتھ وہ میدان عمل میں بھی اترے تھے۔ اگر تحریک کی تمام جدوجہد اسی محور پہ رہتی تو شاید تحریک وہابیت کی شبیہ علماء عرب میں خراب نہ ہوتی۔ لیکن افسوس ہے کہ شیخ سے ایسے افعال، اقوال واعمال صادر ہوگئے جو ہیجان فتنہ کے سبب بننے کے ساتھ جمہور علماء کے مسلک کے خلاف بھی تھے۔ مثلا شیخ توسل کے قائل نہ تھے۔ زیارت قبور کے لئے سفر کرنے کو جائز نہیں کہتے تھے۔ حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مقدسہ کی زیارت کے لئے بھی سفر کو ناجائز کہتے تھے۔ روضہ رسول پہ صلاہ وسلام کے بعد شفاعت کی درخواست کو شرک کہتے تھے۔ اور وہاں نداء رسول کو بھی ناجائز کہتے تھے۔ جب لوگوں کو ان مسائل کا علم ہوا تو اس جماعت سے ہٹتے اور کٹتے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ اس جماعت کا مقصد حکومت پہ قبضہ کرنا ہے اور احیاء سنت کا نام محض لوگوں کو اپنے ساتھ جمع کرنے کے لئے ہے تو لوگوں میں جماعت کے تعلق سے نفرتیں بھر گئیں۔ تیسیوں علماء عرب نے اس کی رد میں کتابیں لکھیں ۔اس وقت میرے سامنے دسیوں علماء عرب کی کتابیں ہیں۔ حیرت ہے کہ شیخ کے حقیقی بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208 ھجری نے بھی اپنے بھائی کی رد میں "الصواعق الالھیہ" نامی کتاب لکھے بغیر نہیں رہ سکے ۔۔ علماء عرب کو شیخ کے خلاف اس قدر غلو تھا کہ اہل نجد کی طرف منسوب عقائد ونظریات کی دریافت اور تحقیقات کو قطعا غیرضروری سمجھتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیخ کے مخالف بیشتر اہل قلم کا قلم حد اعتدال سے تجاوز کرگیا اور ان کی طرف ایسے عقائد بھی منسوب کربیٹھے جن سے ان کا دامن بری الذمہ ہے۔ پھر اس طرح ان کے خلاف غیرواقعی پروپیگنڈہ کا بازار اس قدر گرم ہوا کہ بعد کے علماء اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ہمارے بعض اکابر دیوبند جو شیخ نجدی کے خلاف انتہائی سخت رائے رکھتے تھے وہ اسی پروپیگنڈہ کی بنیاد پر تھا۔ ایمان وتوحید کی دعوت اور قبور ومزار پرستی کے خلاف جدوجہد میں شیخ نجدی اور تحریک سید احمد شہید اور علماء دیوبند کے طرز فکر میں ایک حد تک یکسانیت اور یگانگت پائی جاتی ہے۔ صرف مذکورہ بالا چند بنیادی مسائل میں اختلاف ہے۔ شیخ نجدی اہلسنت والجماعت میں سے تھے۔متبع سنت تھے۔ اپنے اعتقاد اور قول وعمل میں حد درجہ متشدد تھے. علامہ ابن تیمیہ کے ہم خیال تھے۔ اظہار دعوی کے وقت حنبلی ہونے کا اقرار کرتے لیکن جملہ مسائل میں فقہ حنبلی پر عمل نہیں تھا۔ بلکہ اپنے فہم کے مطابق جس حدیث کو مخالف فقہ خیال کرتے اس کی وجہ سے فقہ کو چھوڑدیتے ۔۔ اکابر امت کی شان میں تجہیل وتنقیص بھی شیخ کا معمول تھا۔ (امام رازی جیسے بحرالعلوم کو جاہل کہ بیٹھے ہیں)۔ ان کی توحید کی کرشمہ سازی بھی عجیب وغریب تھی۔ تکفیری منجنیق کا دہانہ ہر وقت کھولے رکھتے تھے۔ اپنے عقائد وخیالات بزور شمشیر دوسروں پہ نافذ کرتے۔ 22 جون 1792ء کو ایک عارضہ میں مبتلا ہوکر 95 برس کی عمر میں شیخ دارفانی سے کوچ کرگئے۔ اپنی فکری توانائیوں اور انتھک مساعی سے جغرافیہ عالم میں ایک اسلامی ریاست کا عملی نقشہ اجاگر کرکے گئے ۔۔ شیخ کے چار لڑکے حسین، عبداللہ، علی اور ابراھیم تھے۔ حسین نابینا تھے۔ علم وفضل میں والد کے نعم البدل تھے۔ آبائی وطن درعیہ میں دینی مدرسہ چلاتے تھے۔ عبداللہ بڑے ہی فضل وکمال والے تھے۔ ملک عبدالعزیز کے مشیر کار ہونے کے ساتھ ردشیعیت میں متعدد قیمتی کتابیں لکھیں۔ آخر زمانہ میں مصر ہجرت کرگئے۔ وہیں 1242 ھجری میں وفات بھی ہوئی۔ باقی دونوں لڑکے بھی حکومت سعودی عرب کے دینی اعلی عہدوں پہ گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ تحریک وھابیت کے تعارف اور اس پہ عائد ہونے والے الزامات کی رد میں شیخ کے لڑکوں نے متعدد رسالے لکھے ہیں ۔۔ شیخ کے محمد بن سعود کے لئے لکھے گئے 'کشف الشبھات' نامی رسالہ اورعبدالعزیز ابن سعود امیر نجد نے مکہ مکرمہ پہ قبضہ کے بعد اپنے عقائد کی تشھیر کے لئے مجموعہ التوحید کے نام سے جو کتاب تقسیم کی تھی اس کے راست مطالعہ سے تحریک وہابیت کی صحیح معرفت ہوسکتی ہے۔ آج تک سعودیہ میں افتاء، تدریس، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شعبہ کی ذمہ داری، جامعات اور یونیورسیٹیوں کی صدارت جیسے بڑے بڑے دینی مناصب آل الشیخ (شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے خاندان) کے لئے مخصوص ہیں۔ دوسرے لوگ اسی صورت میں کسی اعلی دینی منصب پر مقرر کئے جاتے ہیں جبکہ آل الشیخ میں کوئی موجود نہ ہو۔
--------------------------------
1. بندہ کے علم میں کافی کچھ نئی باتیں آئیں
2. واقعۃ درجنون کتب کا ماحصل ہے
3. تیسرے یہ کہ 1938 کے دوران تیل نکلنے کی ابتداء کی گئی ہے. اس میں تھوڑا تردد ہورہا ہے. کیونکہ مشہورہے کہ شاہ فیصل کے وقت تیل نکلناشروع ہوا.
4. دو پہلو محمد بن عبدالوہاب کی حیات کے اہمیت رکھتے ہین. ایک تو جنگ وجدال سے سلطنت عثمانیہ کی بیخ کنی امریکیون سے ان کے تعلقات ... ہمفرے کے انکشافات مین کچھ باتین شیخ کے بارے میں بھی ہین .... ان پہلوؤں کے بغیر اصل مقاصد تحریک وفکر تک پہنچنا ذرا مشکل امر یے.
5. تاہم مجموعی لحاظ سے وقیع تحریر ہے مقام رشک وتنافس ہے مفتی صاحب کے گروپ پر کویی گفتگو چلتی ہے اور اپ کا مضمون آجاتا ہے .... ہدیہ تراویح تسمیہ بمحمد واحمد وغیرہ نیز یہ بھی مضمون علم وتحقیق تو اسان بھی ہوسکتی ہے لیکن اپنی تحقیق پر اتنی گرفت کہ بروقت اسے پیش کردیا جائے ...یہ ملکہ کم ملتا ہے ...
لاحول ولاقوة الابالله ماشاءاللہ جزاکم اللہ رضاہ والجنۃ ......
اہل السنہ والجماعۃ کے اصول میں سے ایک یہ ہے کہ وہ طبقہ خود بلاوجہ تکفیر نہ کرتا ہو ... جبکہ یہ طبقہ غیرسلفی کو کافر و مشرک ہی کہتا ہے.
1 September 2016
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_71.html





No comments:

Post a Comment