Saturday 14 September 2019

کیا اللہ رب العزت سے اپنے لیے موت مانگنا جائز ہے؟

کیا اللہ رب العزت سے اپنے لیے موت مانگنا جائز ہے؟ کافی لوگوں کو میں نے کہتے سنا ہے، معقول جواب نہ ہونے کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
الجواب وباللہ التوفیق:
مصیبت، بیماری، تنگ دستی، مصائب، آفات اور ہر طرح کی دنیاوی پریشانیوں سے تنگ آکر موت کی تمنا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ بیماری وصحت، مصیبت وراحت، انسانی زندگی کا لازمہ ہے، اور یہ سب تقدیر کا حصہ ہے، اور اس پر صبر کرنا، صبر کی قسموں میں داخل ہے، جس کے بدلہ اُسے اللہ پاک کی خوشنودی، اُس کی نیکیوں میں اضافہ اور آخرت میں درجات کی بلندی ملا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا اُس مصیبت کی وجہ سے نہ کرے، جو اُسے پہنچی ہے، اور اگر ایسا کرنا ضروری ہی سمجھے تو یہ کہے کہ "اے اللہ ! جب تک میرا زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہے، اُس وقت تک مجھے زندہ رکھ، اور مرجانا میرے لیے بہتر ہے تو مجھے موت دے دے"۔
البتہ اگر ایسے حالات ہوجائیں کہ دین پر چلنا دشوار ہو اور ہر طرف فتنے وفسادات عام ہوں، گناہ اور معصیتیں کھلم کھلا ہورہی ہوں، اس حد تک کہ اس میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتو ان گناہوں میں پڑنے کے اندیشہ سے بچنے کی خاطر کوئی موت کی تمنا کرتا ہے تو اس میں حرج نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس سے ملنے کا اس حد تک غلبہ ہوجائے کہ اس سے مغلوب ہوکر اللہ سے ملاقات کے لیے موت کی تمنا کرے تو اس میں بھی گناہ نہیں ہے، مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:
"احادیث میں بلا ضرورت موت کی تمنا کرنے کی یا دنیاوی مصائب سے گھبراکر موت کی آرزو کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ عمر کا زیادہ ہونا اور توبہ اور اعمال صالحہ کے لیے وقت کا میسر آجانا ایک نعمتِ عظمیٰ اور غنیمتِ کبریٰ ہے، البتہ اگر قلب پر لقاءِ خداوندی کا شوق غالب ہو تو پھر موت کی تمنا جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ فرطِ شوق سے اس درجہ مغلوب الحال ہوجائے کہ دنیاوی منافع اس کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں اور غلبۂ شوق میں اس کو اس کا بھی خیال نہ رہے کہ جس قدر عمر زیادہ ہوگی اسی قدر قربِ خداوندی کے اسباب زیادہ حاصل کرسکوں گا اور حضراتِ صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے جو اس قسم کی آرزو منقول ہے سو وہ اس وقت میں تھی کہ جب اسباب موت کے سامنے آگئے اور دنیا کی زندگی سے مایوسی ہوگئی اس وقت موت کی فرحت اور مسرت میں کچھ کلمات زبان سے نکلے اور یہ وقت محلِ بحث سے خارج ہے۔ تفصیل کے لیے تفسیر عزیزی اور تفسیر مظہری کی مراجعت کی جائے"۔ (معارف القراآن 1/241)
خلاصہ یہ ہے کہ دنیاوی مصائب کی وجہ سے موت کی تمنا جائز نہیں اور دینی اور اخروی وجوہات کی بنا پر موت کی تمنا کرنا منع نہیں۔
سنن الترمذي (4/ 529)
"عن أبي عثمان النهدي، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا كان أمراؤكم خياركم، وأغنياؤكم سمحاءكم، وأموركم شورى بينكم فظهر الأرض خير لكم من بطنها، وإذا كان أمراؤكم شراركم وأغنياؤكم بخلاءكم، وأموركم إلى نسائكم فبطن الأرض خير لكم من ظهرها»".
صحيح مسلم (4/ 2064)
"عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به، فإن كان لا بد متمنياً فليقل: «اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْراً لِّيْ، وَتَوَفَّنِيْ إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْراً لِّيْ. "
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 419)
"(يكره تمنى الموت) لغضب أو ضيق عيش (إلا لخوف الوقوع في معصية) أي فيكره لخوف الدنيا لا الدين؛ لحديث: «فبطن الأرض خير لكم من ظهرها». خلاصة.
(قوله: أي فيكره) بيان لحاصل كلام المصنف، وعبارة الخلاصة: رجل تمنى الموت لضيق عيشه أو غضب من عدوه يكره لقوله عليه الصلاة والسلام : " «لا يتمنى أحدكم الموت لضر نزل به»، وإن كان لتغير زمانه وظهور المعاصي فيه مخافة الوقوع فيها لا بأس به؛ لما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام في مثل هذه الصورة، قال: «فبطن الأرض خير لكم من ظهرها» اهـ. أقول: والحديث الأول في صحيح مسلم: «لا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به فإن كان لا بد متمنيا فليقل: اللّٰهم أحيني ما كانت الحياة خيراً لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيراً لي»".
فقط واللہ اعلم

No comments:

Post a Comment