Tuesday 10 September 2019

محمود غزنوی تاریخ کا مظلوم ترین کردار: سوانحی و تاریخی بیانئے اور رزمیئے

محمود غزنوی تاریخ کا مظلوم ترین کردار
سوانحی و تاریخی بیانئے اور رزمیئے
دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر رومیلا تھاپر نے اپنی کتاب "سومناتھ: تاریخ کی بہت سی آوازیں (Somanatha: the many voices of history) میں محمود غزنوی کے مشہور سومنات حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس نے سومناتھ مندر پر نویں صدی سے اٹھارویں صدی تک سنسکرت گجراتی ہندی فارسی تمام زبانوں کے پرانے مخطوطے اور 1951 میں سومناتھ کی تیسری کھدائی سے ملنے والے نوادرات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ خاص کر گیارہویں اور بارہویں صدی کے ہندو شاعروں کی شاعری اور کچھ سفرناموں کا خاص زکر کیا ہے۔ ان کتبات میں میں سے کچھ تو محمود غزنوی کے حملے سے بھی پہلے کے ہیں۔
رومیلا تھاپر نے سینکڑوں کتابوں‘ مقالوں اور قدیم سنگی کتبوں کے حوالے سے یہ حقیقت دریافت کی ہے کہ سومناتھ جو سومناتھ پٹن، سوم شاور پٹن اور دیو پٹن کے نام سے بھی مشہور تھا۔ کبھی بھی محمود نے برباد نہ کیا۔ تھاپر کا کہنا ہے کہ ان زمانوں میں بڑے اور اہم مندروں کی جاگیریں ہوتی تھیں اور ان کے اندر نذرانوں کی صورت میں جمع شدہ بے پناہ دولت ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ جب کوئی ہندو راجہ بھی ان خطوں میں یلغار کرتا تو وہ بھی ان مندروں کو لوٹتا تھا اور اکثر اپنی فتح کی نشانی کے طورپر وہاں ایستادہ بت اپنے ساتھ لے جاتا تھا تو محمود نے بھی وہی کچھ کیا جو اس سے پیشتر ہندو راجے کرتے آئے تھے۔ لیکن سب کچھ ویسا نہیں ہوا جیسا آج بیان کیا جارہا ہے۔ اس عہد کے کسی مخطوطے یا دریافت ہونے والے پتھر پر یہ نقش نہیں ہے کہ محمود کے حملے کے بعد سومنات اجڑ گیا بلکہ یہ درج ہے کہ اس کی یلغار کے بعد سومنات بدستور آباد رہا اور وہاں پرستش ہوتی رہی۔
رومیلا تھاپر کی تحقیق کے مطابق یہ انگریز حکمران تھے جنہوں نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی حکمت عملی کے تحت اس نظریئے کو فروغ دیا خاص طور پر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جس میں مسلمان اور ہندو یکساں طورپر شامل تھے اور یہ ہندوؤں کیلے خاص تھا کہ دیکھو مسلمان تم پر کیسے کیسے ظلم ڈھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے سومنات کو برباد کردیا جب کہ ہم تمہاری عبادت گاہوں کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس مہم کا آغاز گورنر جنرل لارڈ ایلن برو (Ellen brough) کی برطانوی پارلیمنٹ کی 1843 کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے (The proclamation of gates) یعنی دروازوں کی برآمدگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی کتاب اور زبان میں 1857 سے پہلے محمود غزنوی بطور لٹیرا کا ذکر نہیں ملتا۔ وائسرائے ہند The Viscount Earl canning 1858-1862 Charles John نے جنگ آزادی کے بعد محمود بطور لٹیرا کا بھرپور پرچار کیا۔ اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں ایک تقریر میں اس بات کا زکر کیا جسے پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے منظور کرکے پورے ہندستان میں پھیلایا۔ اور برطانوی و ہندستان کے انگریزی اخبارات نے اس پر مسلسل لکھنا شروع کیا۔
تھاپر کا کہنا ہے کہ اج بھی لوک گیتوں میں محمود غزنوی کے گن گائے جاتے ہیں۔ سومنات کے فقیر اور سادھو محمود غزنوی کو ایک داستانوی ہیرو گردانتے ہیں۔ اگر وہ محض ایک لٹیرا ہوتا‘ مندروں کا دشمن ہوتا تو ہندو لوک گیتوں میں اس کی توصیف کیوں کی جاتی؟ بعدازاں ہم نے بھی انگریزوں کے تخلیق کردہ اس نظریئے کو آنکھیں بند کرکے قبول کرلیا۔ تھاپر نے یہ بھی لکھا ہے کہ سومنات کے علاقے میں بے شمار مسلمان تاجرآباد تھے جو گھوڑوں کا بیوپار کرتے تھے۔ ان میں عرب بھی شامل تھے جنہوں نے مقامی عورتوں سے شادی کرکے ہندوستانی تہدیب کو اپنالیا تھا۔ مارکوپولو نے بھی اپنے سفر نامے میں سومنات اور گجرات کے علاقے کے بیوپاریوں کا ذکر کیا ہے‘ جو ایران سے گھوڑے لاکر ہندوستان میں فروخت کرتے تھے۔ یہ بیوپاری باہر سے گھوڑے‘ شراب اور دھاتیں درآمد کرتے تھے اور ہندوستان کے کپڑے‘ مصالحے‘ جواہرات‘ لکڑی اور تلواریں برآمد کرتے تھے۔ سومنات کا علاقہ تجارت کا ایک اہم مرکز تھا۔ تھاپر کی تحقیق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کوہستان نمک میں جو مندر تھے وہ بہت غریب تھے‘ دولت صرف تھانیسر‘ ملتان اور سومنات کے مندروں میں تھی‘ ان مندروں سے حاصل ہونے والی دولت سے محمود کی فوج کی تنخواہیں دی جاتی تھیں اور ان میں سے بیشتر ہندو ہوتے تھے اور ان مندروں پر حملہ کرنے والوں میں شامل ہوتے تھے‘ ہندوستان میں جتنے بھی فوجی بھرتی کئے جاتے تھے ان کا کمانڈر بھی ہندوستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا اور وہ محمود کا وفادار ہوتا تھا۔
محمود غزنوی کے دور کے دریافت شدہ کتبات جو جنرل آف ایشیاٹک سوسائٹی بنگال، ایپی گرافیا انڈیکا اور انڈین اینٹی کواری میں شائع ہوچکے ہیں۔
محمود غزنوی نے 1026 میں سومناتھ پر حملہ کیا تھا اس کے 12 سال بعد 1038 میں گوا کے مقامی راجہ کدمب نے سومناتھ کا شاہی سفر کیا جس پر ایک سفرنامہ بھی لکھا تھا۔ جو سنسکرت زبان میں چھپا ہے۔ اس کے مطابق مندر کو تباہ نہیں کیا گیا بلکہ محمود کی فوجوں نے اسکی بے حرمتی کی تھی۔ اور سومناتھ مندر کی خطے میں سیاسی بالادستی ختم کی تھی۔ اور حملے کے بعد اسے دوبارہ مرمت کرلیا گیا تھا۔ اور مندر کی رونق برقرار رہی۔ گوا سے سومناتھ تک کے سفر کا ایک احوال 1125 کی ایک تحریر میں بھی ملتا ہے۔ اس شاہی سفر میں بادشاہ کا جہاز سمندری طوفان میں تباہ ہوگیا تھا اور ایک عرب بیوپاری نے بادشاہ کی جان بچائی تھی۔ اس مدد کے عوض بادشاہ نے عرب بیوپاری کے پوتے کو ایک علاقہ کا منتظم بنایا اور اسے مسجد بنانے کی اجازت دی تھی۔ بارہویں صدی کے گجراتی چولوکیا خاندان کے راجہ کمارپال کے مطابق راجھستان کا مگران مندر شان و شوکت میں سومناتھ سے کم تر تھا۔ سومناتھ کے قریب منگرال سے ملنے والے بارہویں صدی کے ایک کتبے کے مطابق سومناتھ مندر میں دیوی دیوتاؤں پر چڑھاؤں کی صورت میں بہت مال آتا تھا۔
گیارہویں صدی کی ایک مہارانی نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ سومناتھ مندر آنے والے یاتریوں کے سفر کو ٹیکس فری کیا جائے اور وہ راستے میں دریا پل یا کسی مقامی راجہ کے علاقے سے گزرنے پر کوئی ٹیکس ادا نا کریں۔ بارہویں صدی تک سومناتھ مندر اس قدر امیر ہوچکا تھا کہ سونے چاندی کے انبار لگ چکے تھے۔ چولوکیا بادشاہ کمارپال کے کتبے سے پتہ چلتا ہے اس نے سومناتھ کے تحفظ کیلئے ایک گورنر مقرر کیا تھا جس کا کام مندر کی دولت کو مقامی ابہیرا راجاؤں کی ڈکیتی و لوٹ مار سے بچانا تھا۔ کمار پال نے بھاؤ براہسپتی کو 1169 میں سومناتھ کا گند یعنی راہب اعلی مقرر کیا تھا۔ اس راہب اعلی کی اہم ذمہ داری مندر کو آباد رکھنا اور ویران ہونے سے بچانا تھا کیونکہ محمود غزنوی کے بعد مندر خستہ حال ہوچکا تھا جس کا تعلق حملے سے نہیں بلکہ خستہ حالی کی ایک وجہ کل یگ یعنی بیوپاریوں کی جانب سے مندر کی مالی سرپرستی چھوڑ دینا تھا۔ دوسرا مندر کی عمارت بہت زیادہ پرانے ڈھنگ کی تھیں جن کا کوئی پرسان حال نا تھا۔ تیسری وجہ مندر سمندر کے بہت قریب ہونے کی بنا پر سمندری لہریں اور نمی عمارت کو نقصان پہنچاتی تھی۔
اس کے کچھ سال بعد 1216 میں اس وقت کا چولوکیا بادشاہ سومناتھ مندر کو مالوہ کے ہندو راجاؤں کی لوٹ مار سے بچاتا رہا تھا۔ بھدر کالی کے کتبے کے مطابق بھوبر ہسپتی کا دعوی ہے کہ وہ ہے جس نے کمارپال کو تیار کیا تھا کہ وہ مندر کو دوبارہ تعمیر کرے۔ اس کا کہنا ہے کہ اصل مندر سونے کا بنا ہوا تھا جس کو بعد میں سونا ہٹاکر چاندی کے مندر میں بدل دیا گیا اور آخر میں چاندی ہٹا کر پتھروں کا مندر بنادیا گیا۔ مندر کی آمدنی اور بارے راہبوں کے معاوضے بڑھانے کیلئے برہمپوری گاؤں کے محصولات کا استعمال کیا گیا تھا۔
اتنے زیادہ تاریخی سنسکرت پراکرت اور جینی کتبات میں محمود غزنوی کے حملے کا زکر نا ہونا حیران کن ہے۔ ان میں اگر کچھ لکھا گیا ہے تو اتنا کہ مندر خستہ ہوگئے ہیں انکی تعمیر ضروری ہے اور مندر کے بتوں کے توڑنے کا جو زکر آیا ہے وہ سب مقامی ہندو راجاؤں کے بارے ہیں جو دولت لوٹنے کیلے سومناتھ مندر پر حملے کرتے تھے۔ محمود غزنوی کے حملے اگر اتنے ہی سنگین جزبات کو زخمی کردینے والے اور ناقابل برداشت ہوتے جیسے کہ اب دعوے کیے جاتے ہیں۔ تو حملوں کے دوسو برس بیت جانے کے بعد ان کو اس طرح نا بھلادیا جاتا کہ کسی کتبے میں محمود غزنوی کی طرف سے مندر کی تباہی اور لوٹ مار کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر ذکر ہے تو صرف اتنا کہ محمود واپس جاتے ہوئے سومناتھ پٹن میں ایک مختصر فوج چھوڑکر دب شالم کو اپنا گورنر قائم کرگیا تھا۔
محمود غزنوی کے ایک معاصر شاعر دھن پال جو مالوہ کے بھوج دربار کا شاعر تھا نے اپنی شاعری نے محمود کی گجرات پر مہم کا زکر کیا ہے۔ محمود راجستھان کے ستیہ پور کے مقام پر جین مندر میں مہاویر مجسمے کو توڑنے میں ناکام رہا جبکہ سومناتھ کے بڑے بت کو توڑا ضرور مگر مندر کو تباہ اور مال کی لوٹ مار نہیں کی۔ اسی طرح پربھار سوری نے بھی لکھا ہے کہ محمود کے ہاتھی مہاویر مجسمے کو نہیں توڑ سکے تھے۔ حتی کہ کشمیر کا مشہور شاعر بلہانا جو محمود کے 50 سال بعد 1076 میں سومناتھ آیا۔ گجرات کے چولوکیا دربار میں رہا۔ ایک ناٹک کرن سندری بھی لکھا۔ گجرات کے لوگوں کے تفصیلی حالات لکھے اور محمود غزنوی کے ملتان میں اسماعیلی شیعوں پر حملہ کا تفصیلی زکر کیا ہے مگر محمود غزنوی کے سومناتھ حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
یہ ایک بڑی حیران کن بات نظر آتی ہے۔ محمود غزنوی کے سومنات حملے بارے جو وجوہات منسوب کی جاتی ہیں۔ گجرات میں غزنوی کے ہم عصر اور دوسو سال بعد تک مصنفوں و شعراء نے سومناتھ کی محمود کے ہاتھوں تباہی اور دولت کی لوٹ مار کا ذکر تک نہیں کیا۔ آج جتنی شدت سے محمود غزنوی کو لٹیرا ثابت کیا جاتا ہے اگر یہ اتنا بڑا اور اہم واقعہ ہوتاتو اس دور میں کتابیں بھر دی جاتی۔ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ سومناتھ کا حملہ بھی باقی دوسرے حملوں جیسے جواز اور نتائج رکھتا تھا۔ اور صدیوں تک محمود کو لٹیرا کی بجائے اچھے الفاظ میں یاد رکھا گیا۔ حقیقتاً یہ انگریز ہی تھے جنہوں نے اس سازشی تھیوری کا آغاز کیا۔ اور ہندوؤں میں نفرت کے بیج بوئے۔ پھر کچھ اپنے بھی اس رو میں بہک گئے۔ ہم نے اپنی نابینائی میں اس عظیم علم دوست فاتح محمود غزنوی کو صرف بت شکن اور لٹیرے کے درجے پر فائز کرکے اس کی قامت مختصر کردی ہے جو بقول ایڈورڈز گبنز مقدونیہ کے سکندراعظم سے بھی عظیم فاتح تھا۔
تحریر: محمد عبدہ
-----------------------------------------------------------------------------------------------
یمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین المعروف محمود غزنوی (پیدائش بروز منگل 2 نومبر 971ء، انتقال 30 اپریل 1030ء) 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنت غزنویہ کا حکمران تھا۔ وہ دسویں صدی عیسوی میں غزنی کے مسلم بہادر اور عاشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بادشاہ گزرا ہے اس نے غزنی شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کردیا اور اس کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔ وہ تاریخ اسلامیہ کا پہلا حکمران تھا جس نے سلطان کا لقب اختیار کیا۔
وہ پہلا مسلم حکمران تھا جس نے ہندوستان پر 17 حملے کیے اور ہر حملے میں فتح حاصل کی۔ اس عظیم مجاہد کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہندوستان کے بت کدے لرز اٹھتے تھے۔
محمود غزنوی کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں مدت سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار کا طلبگار تھا قسمت سے گزشتہ رات مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کرنے کی سعادت ملی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے میں نے عرض کی یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایک ہزار درہم کا مقروض ہوں، اس کی ادائیگی سے عاجز ہوں اور ڈرتا ہوں کہ اگر اسی حالت میں مرگیا تو قرض کا بوجھ میری گردن پر ہوگا (اس وجہ سے بروز قیامت میں پھنس جاؤں) رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"محمود سبکتگین کے پاس جاؤ وہ تمہارا قرض اتاردے گا۔ میں نے عرض کی، وہ کیسے اعتماد کریں گے؟ اگر ان کے لیے کوئی نشانی عنایت فرمادی جا تو کرم بالا کرم ہو جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، جاکر اس سے کہو، "اے محمود! تم رات کے اول حصے میں تیس ہزار بار درود پڑھتے ہو اور پھر بیدار ہوکر رات کے آخری حصے میں مزید تیس ہزار بار درود پڑهتے ہو۔ اس نشانی کے بتانے سے وہ تمہارا قرض اتار دے گا"۔ سلطان محمود نے جب شاہ خیر انام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رحمتوں بھرا پیغام سنا تو رونے لگے اور تصدیق کرتے ہوئے اس کا قرض اتار دیا اور ایک ہزار درہم مزید پیش کیے۔ وزراء وغیرہ متعجب ہو کر عرض گزار ہوئے! عالیجاہ! اس شخص نے ایک ناممکن سی بات بتائی  ہے اور آپ نے کبھی اتنی تعداد میں درود شریف پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی کوئی آدمی رات بھر میں ساٹھ ہزار بار درود شریف پڑھ سکتا ہے۔ سلطان محمود الودود نے فرمایا! تم سچ کہتے ہو لیکن میں نے علمائے کرام سے سنا ہے کہ جو شخص دس ہزاری درود شریف ایک بار پڑھ لے اس نے گویا دس ہزار بار درود شریف پڑھے۔ میں تین بار اول شب میں اور تین مرتبہ آخر شب میں دس ہزاری درود پاک پڑھ لیتا ہوں۔ اس طرح سے میرا گمان تھا کہ میں ہر رات ساٹھ ہزار بار درود شریف پڑھتا ہوں۔ جب اس عاشق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شاہ خيرالانام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رحمتوں بھرا پیغام پہنچایا، مجھے اس دس ہزاری درود شریف کی تصدیق ہوگئی اور گریہ کرنا (یعنی: رونا) اس خوشی سے تھا کہ علمائے کرام کا فرمان صحیح ثابت ہوا کہ رسول اکرم، رحمت للعالمين صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی گواہی دی۔


'Somanatha: The Many Voices Of A History'

Ten reasons why Romila Thapar's meeting with Mahmud of Ghazni at Somnath is historic.


Eminent historian Romila Thapar has an agenda and a central character in her authoritative monograph on the high-profile temple at Somnath in Gujarat. But it is an agenda that dare not take its name. And as for the central dramatis persona, she does not even mention him.

After regretting the involvement of various Congress leaders, including India's first President Rajendra Prasad, in the rebuilding of the Somnath temple in 1951, Thapar refers to the most recent challenge to the "secular credentials of Indian society". That being the rath yatra organised by the VHP "in association with leaders of the BJP'. L.K. Advani, who electrified India with his 1991 campaign and put his party on the road to power by making Hindutva a mainstream ideology, is not named throughout the narrative.

As a historical work, Thapar's scholarship is difficult to fault. She has meticulously studied various accounts of Mahmud of Ghazni's destruction of the temple in the 11th century. She has carried the narrative through to contemporary times, explaining the reasons for the resurgence of Hindu sentiment in the 19th century on this issue, leading to the temple's rebuilding after Independence. The volume, however, is so apparent in its purpose that it can only preach to the converted.

Considering the dwindling band of Marxists and their fellow-travellers in the arena of Indian history (since they don't control university appointments any more), it is doubtful how many would uncork champagne bottles at the publication of this scholastic endeavour. For the general public, the book makes laborious reading.

Somnath Temple
Even secular fundamentalists from a non-history background would not be tempted to persevere through the Byzantine complexities of textual and interpretational rivalries among the Turks, Arabs, Chalukyas, Rajputs, Jainas, Shaivites, colonialists and the Hindu nationalists. If a SAHMAT-type organisation were to sum up Thapar's treatise in a pamphlet, it would read something like this:

1. Undeniably, Mahmud of Ghazni raided a temple at Somnath and destroyed the idol there.

2. Although Persian sources extol his achievement and refer to the many infidels he killed, the purpose of the raid was economic, perhaps even iconoclastic, but not communal.

3. It is even possible that Mahmud believed the Somnath icon to be that of an early Arabic Goddess, Manat, for Somnath might even be a bastardisation of the Arabic su-manat. She was one of the goddesses Prophet Muhammed once said could be worshipped, but then retracted, claiming that the assertion was influenced by Satan. The reference to Manat is contained in the so-called Satanic Verses, subsequently deleted from the Quran.

4. Jaina and Sanskrit sources, on the other hand, make only cursory references to Mahmud's repeated raids. They don't repeat stories like Mahmud smashing the idol into smithereens and feeding Brahmins the lime that emerged from its ruins after breaking his promise not to destroy the lingam and confine himself only to loot. This suggests Mahmud did not either divide society or permanently traumatise Hindus by his actions, as "communalists" have since led us to believe. It is immaterial that non-Muslims might have feared offending the ascendancy of Muslim political and military prowess and dared not question such actions. (Postscript: Alternatively, they may not have wanted to wallow in the angst of their humiliation at the hands of the Yavanas. But that would be a politically incorrect position to take.)

5. Hindu rulers frequently raided temples for booty and there was nothing extraordinary about Mahmud's or subsequent Muslim desecrations of Somnath. Anyway, Hindus were not Hindus (they still aren't), but a group of people divided by caste and subcaste residing in a place called India.

6. The Somnath temple was repeatedly renovated by various local rulers and the worship of the deity went on. This is contrary to suggestions that it had been converted into a mosque. The reconstructions were necessitated by sea spray that routinely damaged the structure. In other words, irrespective of Mahmud's raid, the temple would have fallen into disuse and, thus, its projection as a symbol of Islamic intolerance of Hindu beliefs is unwarranted.

7. The Arabs had settled in Sindh and Gujarat long before Mahmud's incursions and lived in perfect harmony with Hindus. A merchant from Hormuz in the Gulf, who engaged in the trade of horses, was actually given land by a Hindu ruler to construct a mosque close to Somnath. This suggests there was no antagonism between the two communities. In fact, Hindus explained the destruction of Somnath as an inevitability in a dark age called the Kaliyug.

8. The entire mischief began with governor-general Ellenborough who premeditatedly relied on Persian accounts of Hindu humiliation and decided to play them up to drive a wedge between Hindus and Muslims. His efforts were challenged by Macaulay who opposed "Linga-ism" and denounced support for obscurantism and idolatry. Ellenborough mistakenly sought to appease maharaja Ranjit Singh and brought back the gates of Somnath allegedly ferried away by Mahmud, but these turned out to be fakes.

9. In the 19th century, Hindu historians and politicians made a big deal of Mahmud's raids. While K.M. Munshi wrote emotion-charged novels, Bengali nationalists got unnecessarily worked up over these issues. Munshi was influenced by people like Bankim Chandra Chatterjee, Aurobindo and Vivekananda. (How terrible!)

10. Taking a cue from the likes of Munshi, Gujarati leaders, including Vallabhbhai Patel, supported the reconstruction of the temple after Independence much to the chagrin of the secular Nehru. This was an assertion of Hindu, not Indian, nationalism. It only helped the "communal" forces that plotted the fall of Babri Masjid at the "supposed" Ram Janmabhoomi by launching a mobilisation drive from Somnath.

I believe I have not unfairly summarised Thapar. She is entitled to her views and has taken pains to try and establish it through scholarship. Sadly for her, very few will believe her.

Chandan Mitra



No comments:

Post a Comment