Saturday 7 September 2019

میاں بیوی کے مشترکہ حقوق کیا ہیں؟

میاں بیوی کے مشترکہ حقوق کیا ہیں؟

الجواب وباللہ التوفیق:
"مشترکہ حقوق" سے مراد وہ حقوق ہیں جو خاوند بیوی کے درمیان مشترک ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک پر ضروری ہوتا ہیکہ وہ یہ حقوق دوسرے کے لئے ادا کرے اور وہ حسب ذیل ہیں:
نکاح کے وقت طے کردہ جائز شرائط کو پورا کرنا:
خاوند بیوی کے درمیان بوقت نکاح جو جائز شرائط طے کئے جائیں دونوں پر ضروری ہیکہ وہ انھیں پورا کریں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جن شرائط کے ساتھ تم شرمگاہوں کو حلال کرلیتے ہو انھیں پورا کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے. (2721 (بخاری، کتاب الشروط)." (بخاری، کتاب النکاح).
لیکن یہاں ایک ضروری امر ملحوظ خاطر رہے اور وہ یہ ہیکہ خاوند بیوی کے درمیان طے کردہ شرائط جائز ہوں تو انکا پورا کرنا ضروری ہے اور اگر ناجائز شرائط طے کرلی جائیں تو شرعا انکی کوئی حیثیت نہیں مثلا بیوی یا اس کے سرپرست کی جانب سے یہ شرط لگائی جائے کہ خاوند دوسری شادی نہیں کرے گا 'یا اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے گا تو یہ اور اس جیسی وہ تمام شرائط جو شرعی احکام کے خلاف ہوں وہ سب کی سب باطل اور ناقابل اعتبار ہیں جیساکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے" (مسند احمد)
میاں بیوی کے ازداوجی تعلقات اور ایک دوسرے کے راز وعیوب چھپانا:
میاں بیوی کا ایک دوسرے پر ایک مشترکہ حق یہ ہیکہ وہ آپس کے ازدواجی تعلقات کو صیغہ راز میں رکھیں اور ایک دوسرے کے راز ظاہر نہ کریں اللہ تعالی فرماتا ہے: "هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ" (البقرہ :187) وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم انکے لئے لباس ہو.
یاد رہے کہ ازدواجی تعلقات کے رازوں کو ظاہر کرنا حرام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن اللہ کے یہاں سب سے برے مرتبے والا انسان وہ ہوگا جو اپنی بیوی سے لطف اندوز ہوا اور وہ اس سے لطف اندوز ہوئی پھر اس نے اپنی بیوی کے رازوں کو ظاہر کردیا". (مسلم، کتاب النکاح).
باہم مشورہ لینا:
میاں بیوی کو مختلف امور میں ایک دوسرے سے مشورہ لینا چاھئے اس طرح دونوں کا اعتماد بحال ہوگا اور گھر کے کسی معاملے میں ناکامی پر ایک فریق دوسرے کو تنہا ذمہ دار نہیں سمجھے گا اللہ کے رسول اپنی ازواج سے مشورہ لیتے تھے. حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے مشورہ پر عمل کیا اور قربانی کی (بخاری، کتاب الشروط).
خاوند بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں:
دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرے نہ خاوند بیوی کی حق تلفی کرے اور نہ بیوی خاوند کے حقوق مارے.
اللہ تعالی فرماتا ہے "ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجة" (البقرہ :228) اور عورتوں کے (شوہروں پر) عرف عام کے مطابق حقوق ہیں جس طرح شوہروں کے ان پر ہیں اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے -
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "خبردار !بے شک تمہاری بیویوں پر تمہارا حق ہے اور تم پر تمہاری بیویوں کا حق ہے." (صحیح الترغیب والترھیب للالبانی)
ایک دوسرے سے سچی محبت اور خیرخواہی ہونا:
میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حق میں خیرخواہ ہونا چاھئے ایک دوسرے سے محبت ہوتو اسکا تقاضہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کی پسند اور خوشی کا خیال رکھا جائے دونوں خوشی غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایک دوسرے کا سہارا بنیں.
اللہ تعالی فرماتا ہے: "وجعل بینکم مودہ ورحمة" (روم :21) اور اس نے تمہارے درمیان محبت وھمدردی قائم کردی.
اور یہ محبت ایسی ھیکہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے "نکاح کرنے والے جوڑے کے درمیان جو محبت ہوتی ہے اس جیسی محبت اور کسی جوڑے میں نہیں دیکھی گئی" (صحیح الجامع للالبانی).
اور میاں بیوی کو ایک دوسرے کی پریشانی کو اپنی پریشانی تصور کرنا چاھئے جیسا کہ پہلی وحی کے موقع پر حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی کم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم کو ہلکا کیا اور تسلی دی.
رشتہ داروں کی پاسداری:
میاں بیوی پر لازم ھیکہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں خصوصا والدین کا پاس ولحاظ کریں مرد اور عورت دونوں کو چاھئے کہ وہ اپنی ساس کو ماں جان کر حسن سلوک کریں اللہ تعالی فرماتا ہے. "(وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)"
[سورة النساء 1]
اُس  اللہ  سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دُوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلّقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔
حق وراثت :
خاوند بیوی کے درمیان مشترکہ حقوق میں سے ساتواں حق حق وراثت ہے اور اللہ نے انکے اس حق کو یوں بیان کیا ہے:
"(وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ )" (النساء :12) اور اگر تمہاری بیویوں کی اولاد نہ ہوتو انکے ترکہ سے تمہارا نصف حصہ ہے اور اگر اولاد ہوتو پھر چوتھا حصہ ہے اور یہ تقسیم ترکہ انکی وصیت کی تکمیل اور انکاقرض ادا کرنے کے بعد ہوگی اور اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو بیویوں کا چوتھا حصہ ہے اور اگر اولاد ہوتو پھر آٹھواں حصہ ہے اور یہ تقسیم بھی تمہاری وصیت کی تعمیل اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی -
یہ تھے میاں بیوی پر ایک دوسرے کے حقوق -لہذا میاں بیوی اگر ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کریں تو یقینی طور پر انکی ازدواجی زندگی انتہائی اچھے انداز سے اور خوشگوار گذر سکتی ہے.
اللہ تعالی ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے. آمین.
http://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_85.html

No comments:

Post a Comment