Saturday 14 September 2019

تہجد کیلئے سونا ضروری ہے کہ نہیں؟

تہجد کیلئے سونا ضروری ہے کہ نہیں؟ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ نہیں اور اکثر کہتے ہیں ہاں؟
Carzal Caan
الجواب وباللہ التوفیق:
تہجد کی نماز سے پہلے سونا ضروری نہیں، اس لیے اگر کوئی رات کو نہیں سویا اور تہجد کا وقت ہوگیا تو وہ تہجد کی نماز ادا کرسکتا ہے بلکہ اگر کوئی شخص عشاء کی نماز کے بعد بھی تہجد کی نیت سے کچھ رکعات پڑھ لے تو اس کو تہجد کا ثواب مل جائے گا۔
------------------------------------------------------------------------------------------
تہجد کیلئے سوکر اٹھنا ضروری نہیں ہے بلکہ سوئے بغیر بھی پڑھ سکتے ہیں البتہ بہتر سوکر اٹھنے کے بعد پڑھنا ہے کیونکہ عام طور پر سوکر اٹھنے کے بعد نفل پڑھنے کو تہجد کہا جاتا ہےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تعامل عام طور سے یہی رہا ہے کہ آخر رات میں بیدار ہوکر نماز پڑھتے تھےاس لئے افضل صورت یہی ہوگی۔
نیز تہجد کی رکعات دو سے لیکر بارہ تک مختلف تعداد روایات میں منقول ہے۔ البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول آٹھ رکعات پڑھنے کا تھا اس لئے آٹھ رکعات پڑھنی بہتر ہے ورنہ جتنی رکعات باسانی ہوسکے۔
نوٹ: یہ حکم اس وقت ہے جب بندے کو سونے سے پہلے یا بعد میں تہجد پڑھنے میں تردد ہو لیکن اگر کسی کو کسی وجہ سے نیند ہی نہیں آئی اور وہ رات کے آخری حصہ تک جاگتارہاتو اس کے حق میں تہجد کیلئے پہلے سونے کو ضروری سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔
==================
حاشية ابن عابدين : (2 / 24)
قال في البحر فمنها ما في صحيح مسلم مرفوعا أفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل وروى الطبراني مرفوعا لا بد من صلاة بليل ولو حلب شاة وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم…إلي قوله…وقد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم وأيد بما في معجم الطبراني من حديث الحجاج بن عمرو رضي الله عنه قال بحسب أحدكم إذا قام من الليل يصلي حتى يصبح أنه قد تهجد إنما التهجد المرء يصلي الصلاة بعد رقدة إلي قوله أقول الظاهر أن حديث الطبراني الأول بيان لكون وقته بعد صلاة العشاء حتى لو نام ثم تطوع قبلها لا يحصل السنة فيكون حديث الطبراني الثاني مفسرا للأول وهو أولى من إثبات التعارض والترجيح لأن فيه ترك العمل بأحدهما ولأنه يكون جاريا على الاصطلاح ولأنه المفهوم من إطلاق الآيات والأحاديث ولأن التهجد إزالة النوم بتكلف مثل تأثم أي تحفظ عن الإثم نعم صلاة الليل وقيام الليل أعم من التهجد وبه يجاب عما أورد على قول الإمام أحمد هذا ما ظهر لي والله أعلم
==================
تفسير ابن كثير : (5 / 103)
فإن التهجد: ما كان بعد نوم. قاله علقمة، والأسود وإبراهيم النخعي، وغير واحد وهو المعروف في لغة العرب. وكذلك ثبتت الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه كان يتهجد بعد نومه، عن ابن عباس، وعائشة، وغير واحد من الصحابة، رضي الله عنهم، كما هو مبسوط في موضعه ، ولله الحمد والمنة.
وقال الحسن البصري: هو ما كان بعد العشاء. ويحمل على ما بعد النوم.
==================
حاشية رد المحتار : (2 / 26)
قوله: (وأقلها على ما في الجوهرة ثمان) قيد بقوله: على ما في الجوهرة لانه في الحاوي القدسي قال: يصلي ما سهل عليه ولو ركعتين، والسنة فيها ثمان ركعات بأربع تسليمات …وهذا بناء على أن أقل تهجده (ص) كان ركعتين، وأن منتهاه كان ثماني ركعات أخذا مما في مبسوط السرخسي،
==================
--------------------------------------------------------------------------
تہجد کے لیے سونا لازم نہیں ہے، بغیر سوئے بھی تہجد کی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ البتہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا عام معمول  آخررات میں بیدارہوکرتہجد کی نماز پڑھنے کا تھا، اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔ جیسا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں:
''صلوۃِ تہجد کا وقت عشاء کے بعد سے صبح صادق تک ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحاح میں روایت موجود ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے شب میں بھی اور وسطِ شب میں بھی اور آخرِشب میں بھی تہجد پڑھی ہے۔ مگرآخری ایام میں اور زیادہ تراخیرِ شب میں پڑھنا وارد ہے، جس قدر بھی رات کا حصہ متاخرہوتا جاتا ہے برکات اوررحمتیں زیادہ ہوتی جاتی ہیں، اورسد سِ آخرمیں سب حصوں سے زیادہ برکات ہوتی ہیں۔ تہجد ''ترکِ ہجود '' یعنی ترک نوم سے عبارت ہے، اس لیے اوقاتِ نوم بعد عشاء سب کے سب وقت تہجد ہی ہیں‘‘۔
نیز مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ’معارف القرآن‘ میں لکھتے ہیں:
''لفظ تہجد ’ہجود‘ سے مشتق ہے، اوریہ لفظ دو متضاد معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اور جاگنے بیدار ہونے کے بھی ...... اسی رات کی نماز کو اصطلاح شرع میں نمازِتہجد کہا جاتا ہے، اور عموماً اس کا مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ کچھ دیرسوکر اٹھنے کے بعد جو نمازپڑھی جائے وہ نماز تہجد ہے، لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت ﴿وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ﴾ کا اتنا ہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نماز کے لیے سونے کو ترک کردو، اوریہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کرنمازپڑھنے پر صادق آتا ہے اسی طرح شروع ہی میں نماز کے لیے نیند کومؤخرکرکے نمازپڑھنے پربھی صادق ہے، اس لیے نماز تہجد کے لیے پہلے نیند ہونے کی شرط قرآن کا مدلول نہیں، پھر بعض روایاتِ حدیث سے بھی تہجد کے اسی عام معنی پراستدلال کیا ہے۔ امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ 
نے حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے نمازتہجد کی جو تعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پر شاہد ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
''حسن بصری فرماتے ہیں کہ نماز تہجد ہراس نمازپر صادق ہے جوعشاء کے بعد پڑھی جائے، البتہ تعامل کی وجہ سے اس کو کچھ نیند کے بعد پر محمول کیا جائے گا''۔
اس کا حاصل یہ ہے کہ نماز تہجد کے اصل مفہوم میں بعد النوم ہونا شرط نہیں، اور الفاظِ قرآن میں بھی یہ شرط موجود نہیں، لیکن عموماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعامل یہی رہا ہے کہ نمازآخررات میں بیدارہوکر پڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔
فقط واللہ اعلم


No comments:

Post a Comment