Wednesday 11 September 2019

مرنے والوں کے لئے سب سے بہتر تحفہ استغفار

مرنے والوں کے لئے سب سے بہتر تحفہ استغفار
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قبر میں مدفون مُردے کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو دریا میں ڈوب رہا ہو اور مدد کے لئے چیخ پکار رہا ہو۔ وہ بےچارہ انتظار کرتا ہے کہ ماں یا باپ یا بھائی یا کسی دوست آشنا کی طرف سے دعائے رحمت و مغفرت کا تحفہ پہنچے، جب کسی طرف سے اس کو دعا کا تحفہ پہنچتا ہے تو وہ اس کو دنیا ومافیہا سے زیادہ عزیز ومحبوب ہوتا ہے۔ اور دنیا میں رہنے بسنے والوں کی دعاؤں کی وجہ سے قبر کے مُردوں کو اتنا عظیم ثواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے جس کی مثال پہاڑوں سے دی جا سکتی ہے۔ اور مُردوں کے لئے زندوں کا خاص ہدیہ ان کے لئے دعائے مغفرت ہے۔
(شعب الایمان للبیہقی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کردیا جاتا ہے تو وہ جنتی بندہ پوچھتا ہے کہ اے پروردگار ! میرے درجہ اور مرتبہ میں یہ ترقی کس وجہ سے اور کہاں سے ہوئی؟ جواب ملتا ہے کہ تیرے واسطے تیری فلاں اولاد کے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔
(مسند احمد)
تشریح ..... اس حدیث میں اولاد کی دعا سے درجہ میں ترقی کا ذکر صرف تمثیلا کیا گیا ہے، ورنہ دوسرے اہلِ ایمان کی دعائیں بھی اسی طرح نفع مند ہوتی ہیں۔ زندگی میں جس طرح سب سے بڑا حق اولاد پر والدین کا ہے اور ان کی خدمت و اطاعت فرائض میں سے ہے، اسی طرح مرنے کے بعد اولاد پر والدین کا خاص حق ہے کہ ان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے رہیں۔ مرنے کے بعد ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا یہی خاص راستہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی ان دونوں حدیثوں کا مقصد صرف ایک حقیقت کی اطلاع دینا ہی نہیں ہے بلکہ ایک بلیغ انداز میں اولاد اور دوسرے اقارب و متعلقین کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مرنے والوں کے لئے مغفرت و رحمت کی دعائیں کرتے رہیں۔ ان کے یہ تحفے قبروں میں اور جنت تک مرحومین کو پہنچتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنے بعض بندوں کو اس کا مشاہدہ بھی کرا دیتا ہے کہ کسی کی دعاؤں سے کسی بندے کو اس عالم میں کیا ملا، اور اس کے حال اور درجہ میں کیسی ترقی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا یقین نصیب فرمائے، اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔
معارف الحدیث

No comments:

Post a Comment