Thursday 5 September 2019

یومِ اساتذہ منانے کا شرعی حکم

یومِ اساتذہ منانے کا شرعی حکم

مثالی استاد دارالعلوم دیوبند کا دورہ حدیث کی درسگاہ کا منظر ہے بخاری شریف کا درس بڑے ہی اہتمام سے جاری ہے ایک عاشق رسول اپنے عشق رسول کے ساتھ فرمان رسول کا درس دے رہا ہے کہ دوران درس ایک خادم حاضر ہوا اوردرجہ میں آکر استاد کے کان میں کچھ کہا استاد نے خادم کی بات سنی اور کہا انا للہ وانا الیہ راجعون اور پھر درس اسی زور وشور سے چلتا رہا درس مکمل ہوا تو طلباء سے استاذ نے کہا کہ بھائی آج ہمارے فرزند کا انتقال ہوا ہے اور جنازہ تیار ہے آپ حضرات تشریف لے چلئے نماز جنازہ ادا کرنی ہے اور تدفین کا عمل بھی باقی ہے ۔جب تدفین وغیرہ سے فارغ ہوئے تو استاد نے کہا چلو بھائی درس کا وقت ہو چکا ہے اب ہمیں درس دینا ہے. یہ استاد تھے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رح ۔جو بیک وقت استاد بھی تھے ۔مجاہد آزادی بھی تھے ۔مریدین کے مربی ومرشد بھی تھے۔دین اسلام کے داعی بھی تھے۔تصوف وسلوک کے امام بھی تھے۔ دوران درس جب کوئی ملنے آتا تو گھڑی میں وقت دیکھتے اور جتنی دیر بات ہوتی اتنا وقت نوٹ کر لیتے اور پرچی پر لکھ کر دفتر میں بھیجتے اور کہتے کہ میری تنخواہ میں سے حساب کرکے اتنی رقم نکال دی جائے کہ یہ رقم لینا میرے لئے جائز نہیں۔حالانکہ خود صدرمدرس (Principsl) تھے۔ اسے کہتے ہیں مثالی استادجب استاد ایسا ہوگا تو شاگرد بھی اسی تقوی اور پرہیز گاری والے ہوں گے۔ کسی شاعر نے استاذ کا کیا ہی بہترین مطلب بتایا ہے:
لگا کر آگ اپنے آشیانے کو
روشنی بخش دی زمانے کو
مثالی استاذ کا اعزاز وایوارڈ مانگا نہیں جاتا اور نہ اس ایوارڈ و اعزازکے لئے مسابقہ (Competition) ہوتا ہے اور نہ تو رائے دہی کی جاتی ہے اور نہ مثالی استاذ کسی اعزاز یا ایوارڈ کا محتاج ہوتا ہے اس کے تربیت یافتہ طلباء وتلامذہ ہی اس کے لئے ایوارڈ۔اعزاز اور سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ آج تو استاد ٹیچر یا سر بن گیا ہے اور طالب علم اسٹوڈنٹ اور کالج بوائے بن گیا ہے ۔یہ مغرب کی تہذیب ہے جس کا حصہ مسلمان بھی بن گئے ہیں کہ دن منایا اسی یوم اساتذہ منا کر سال میں صرف ایک دن استاذ کی تعظیم کی جائے بس
نہ عشق باادب رہا نہ حسن میں حیاء رہی
ہوس کی دھوم دھام ہے نگر نگر گلی
قدم۔قدم۔کھلے ہوئے ہیں مکروفن کے مدرسے
مگر یہ میری سادگی تو دیکھئے کہ آج بھی
وفا کی درسگاہ کا نصاب ڈھونڈتا ہوں میں

جنھیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں
--------------------------------------------------------------------------------------------
دین کے عظیم اصولوں میں سے ایک اصول، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مودّت ومحبت، اور کافروں سے اظہارِ بیزاری وبرأت ہے۔ اس لئے کافروں کی عیدوں، تہواروں، اسی طرح بطورِ عید منائے جانے والے دِنوں (ڈیز)، جن کی کوئی دینی اصل وحیثیت نہ ہو، بلکہ وہ کافروں کی اِیجاد، اور منکراتِ شرعیہ (غیر اللہ کی تعظیم وغیرہ) پر مشتمل ہوں، ان میں مسلمانوں کی شرکت بالکل جائز نہیں ہے، تاکہ اُن کی عیدوں، تہواروں اور غیر شرعی دنوں (ڈیز) سے بیزاری وبرأت کا اظہار ہوسکے، لیکن اگر کوئی دِن؛ قومی یا عالمی دِن ہو، منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو، اور اس میں شرکت نہ کرنے سے مسلمانوں کی مصلحتیں فوت ہوتی ہوں، یا کوئی قانونی مجبوری ہو، اور اُس کے غیر شرعی ہونے پر دِل مطمئن ہو، تو ضرورۃً اس میں شرکت کی گنجائش ہوگی، لہٰذا یومِ عاشقاں (Valentine's Day)، یومِ اساتذہ (Teacher's Day)، یومِ حقوقِ نسواں (Women's Day)، یومِ گلاب (Rose Day)، یومِ اطفال (Children's Day) یومِ دوستاں (Friendship Day)، یومِ سیاہ (Black Friday) وغیرہ، میں شرکت درست نہیں ہوگی، کیوں کہ ان میں شرکت نہ کرنے سے مسلمانوں کی کوئی مصلحت فوت نہیں ہوتی ہے، بلکہ شرکت کرنے پر دینی مفاسد اور خرابیاں لازم آتی ہیں(۱)، جب کہ فقہ کا قاعدہ ہے: 
’’درأ المفاسد أولی من جلب المنافع ‘‘ -
’’دینی خرابیوں سے بچنا تحصیلِ منافع سے اولیٰ ہے‘‘۔(۲)
اور عالمی یومِ صحت (World Health Day)، یومِ انسدادِ منشیات (Banishing Day of Liquor)، یومِ تعلیم (Educational Day) یومِ آزادی (Independence Day) یوم جمہوریہ (Republic Day) وغیرہ، ان دنوں کے منانے میں پوری انسانیت کے لئے خیر اور نفعِ عام ہے، نہ ان میں غیر اللہ کی تعظیم اورمعنیٔ عید موجود ہے، اورنہ یہ کافروں کی خصائص وعادات میں داخل ہیں، اورنہ ہی یہ امورِ غیرشرعیہ پر مشتمل ہیں، نیز ان میں شرکت کے بغیر مسلمانوں کے لیے کوئی چارۂ کار بھی نہیں، کیوں کہ شرکت نہ کرنے کی صورت میں مسلمانوں کی مصلحتیں فوت ہوتی ہیں، اور کچھ قانونی مجبوریاں بھی ہیں، اس لیے ان ایام میں شرکت کی گنجائش ہوگی۔ (۳)
۵؍ ستمبر کو پورے ہندوستان میں یومِ اساتذہ منایا گیا، طلبہ وطالبات کی طرف سے اس مناسبت سے پروگرام پیش کئے گئے، جن کا مقصد طلبہ میں اپنے اساتذہ کے لئے قدر واحترام کے جذبات کو پیدا کرنا ہوتا ہے، لیکن یہ جذبات وقتی نہیں بلکہ دائمی ہونا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ماں باپ کے بعد کسی بھی انسان کا سب سے بڑا محسن اس کا استاذ ہوتا ہے، استاذ باپ کا درجہ رکھتا ہے، معلوم ہوا کہ استاذ کا مقام بہت اونچا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جتنے اونچے مقام پر فائز ہوتا ہے، اسی نسبت سے اُس کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔تو استاذمیں ہمیشہ اپنے شاگردوں کے لئے باپ کی سی محبت وشفقت، اور شاگردوں میں بیٹوں، بیٹیوں کی طرح اطاعت وفرماں برداری ہونی چاہئے، تب تو اس طرح کے پروگرام اپنے مقصد میں کامیاب ہیں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلے میں دونوں جانب سے کوتاہی ہورہی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم وتعلُّم کا یہ مقدس پیشہ آج تجارت وکاروبار بن چکا ہے، درس وتدریس اسکولوں اور کالجوں کی ملازمت بن کر رہ گئی، کہ نہ استاذوں میں باپ کی سی شفقت ومحبت پائی جاتی ہے، اور نہ شاگردوں میں اولاد کی سی اطاعت ووفا شعاری۔
الغرض! جو پیشہ تعلیمِ انسانیت کا تھا وہ خالص تجارت بن گیا۔
..............................
الحجۃ علی ما قلنا:
(۱) ما في ’’القرآن الکریم‘‘ : {ولا ترکنوٓا إلی الذین ظلموا فتمسّکم النار}۔
(سورۃ ہود :۱۱۳)
ما في ’’حاشیۃ القونوي علی تفسیر البیضاوي‘‘: قال ابن عباس: أي لا تمیلوا، والرکون المحبۃ والمیل بالقلب، وقال أبو العالیۃ: لا ترضوا بأعمالہم، وقال عکرمۃ: لا تطیعوہم؛ قال البیضاوي: لا تمیلوا إلیہم أدنی میل، فإن الرکون ہو المیل الیسیرکالتزیي بزیہم وتعظیم ذکرہم۔ (۱۰/۲۲۶، تفسیر المظہري :۴/۴۳۰)
(۲) ما في ’’صحیح البخاري‘‘ : ’’إذا أمرتکم بشيء فافعلوہ ما استطعتم ، وإذا نہیتکم عن شيء فانتہوا‘‘۔ (۲/۱۰۸۲، کتاب الإیمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، سنن ابن ماجہ: ص/۲، المقدمۃ، باب اتباع سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ)
ما في ’’الأشباہ والنظائر لإبن نجیم ‘‘: ’’لأن اعتناء الشرع بالمنہیات أشد من اعتنائہ بالمأمورات‘‘ ۔ (ص/۷۸) (قواعد الفقہ: ص/۸۱ ، قاعدۃ :۱۳۳)
(۳) ما في ’’الأشباہ والنظائر لإبن نجیم‘‘ : ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ - ’’ما أُبیح للضرورۃ یتقدر بقدرھا‘‘ ۔ (۱/۳۰۷ ، ۳۰۸)

----------------------------------------------------------------------------------------
ٹیچرز ڈے منانا شرعا کیسا ہے
(سوال نمبر 168) 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!عرض یہ ہے کہ ٹیچر دے منانا شرعا کیسا ہے؛جبکہ انگلش میڈیم اسکولوں کے ساتھ ساتھ اردو اسکول والے بھی ٹیچر ڈے مناتے ہیں اور اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں اب یہ مدارس میں بھی آچکا ہے طلبہ اساتذہ کو اس موقع پر گفٹ کرتے ہیں اور مدارس کے بعض طلبہ بھی ٹیچر دے مناتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے مدلل، مفصل جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں! 
فقط والسلام 
محمد افتخار احمد جھارکھنڈ 
___________
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ! 
مذکورہ بالا سوال کا جواب یہاں چند تنقیحات کا متقاضی ہے. اولا ڈے Day کی حقیقت اور ان ڈیز Days کی قسمیں! ثانیا ٹیچرز ڈے کی شرعی حیثیت! ثالثا مباح کا دائرہ ترک و اختیار! 
اصل مبحث شروع کرنے سے قبل یہ بتادینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سبھی لوگ اچھی طرح سے واقف ہیں کہ آج کل آئے دن کہیں نا کہیں قومی و بین اقوامی ڈیز Days کا اہتمام اور اجتماعی و انفرادی سطح پر اس کا انعقاد ہوتا رہتا ہے. قطع نظر اس سے کہ ان کے کیا کچھ اثرات سماج و سوسائٹی پر مرتب ہوتے ہیں.
اسلام مذہب کی سب سے بڑی خصوصیت اور خوبی یہی ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو انہی باتوں کی ہدایت کرتا ہے، جن سے انکے لیے دین ودنیا کی بھلائی وابستہ ہوتی ہے اور ان باتوں سے روکتا ہے جن سے انکا کسی نا کسی درجے میں نقصان پیوست ہوتا ہے یا مرعوب ذہنیت کی نتیجے میں خالی خولی غیروں کی نقالی جڑی ہوتی ہے. 
مذکورہ تمہید کے بعد "مروجہ ڈے" کی حقیقت اسکے منانے کے پیچھے تحریک و ترغیب سے سمجھی جاسکتی ہے. 
واقف حال جانتے ہیں کہ بہت سارے کام انفرادی طور پر کرنے والے ہوتے ہیں، لیکن جب ہماری سوسائٹی کی اکثریت اپنے اپنے ان ضروری و انفرادی کاموں سے بے توجہی برتنے لگتی ہے تو فطری طور پر یہ بات دل ودماغ میں آتی ہے کہ اجتماعی طور پر ایک ایسا دن منانے کا اعلان و انتظام کیا جائے جس میں سبھی کی توجہ اس ضروری امر پر مبذول ہو، ظاہر ہے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں! اس طرح سہولت کے پیش نظر جس روز ہم سب مل کر صرف اس ایک اہم ”کام“ کی اہمیت کی طرف سبھی کی توجہ اس طرف موڑتے ہیں تو غالباً وہی 'ڈے' بن جاتا ہے اور اس طرح مختلف ڈیز کی شکلیں بنتی چلی جاتی ہیں.اسکا مطلب یہ ہزگز نہیں کہ فقط ایک دن شور شرابا کرلیا جایے، انٹر ٹینمنٹ کے طور پر وقت گزاری ہو جائے اور بس! اگر مقصد یہ ہے تو سرے سے ہماری بحث سے خارج اور شرعا ممنوع ہے. 
اب یہاں قومی و بین اقوامی ڈیز کی قسمیں اور انکی شرعی حیثیت کیا ہے، وہ پتا لگانے کی کوشش کرسکتے ہیں! 
ڈیز Days کی راقم کے نزدیک بنیادی طور پر دو قسمیں بنتی ہیں 
اول ممنوع. 
دوم مباح. 
پھر انکی یعنی ممنوع و مباح کی دو دو قسمیں ہوتی ہیں.اول:بین اقوامی یعنی انٹرنیشنل ڈیز International Days جیسے یوم عشاق یوم اساتذہ وغیرہ.
دوم: قومی یعنی National Days: جیسے انڈپنڈینس ڈے، حجاب ڈے وغیرہ. قومی ڈیز کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں: 
اول: اجتماعی سطح پر جسے منایا جائے، جیسے یوم جمہوریہ انڈپنڈینس ڈے. 
دوم: انفرادی سطح پر مدعوین کے ساتھ منایا جائے جیسے برتھ ڈے وغیرہ.
الحاصل کل چھ قسمیں ان ڈیز کی بنتی ہیں.
اول: ممنوع انٹرنیشنل ڈے،
دوم: مباح انٹرنیشنل ڈے، 
سوم: ممنوع قومی ڈے،
چہارم: مباح قومی ڈے، 
پنجم: ممنوع قومی انفرادی ڈے، 
ششم: مباح قومی انفرادی ڈے. 
اسلامی نقطہ نظر سے ہر وہ ڈیز خواہ قومی ہو یا بین اقوامی، اجتماعی ہو یا انفرادی، جنمیں بے فائدہ أضاعت مال، بے فائدہ أضاعت وقت، غیر کی دیکھا دیکھی مرعوبیت کے نتیجے میں فقط خالی خولی نقالی، نیز خلاف شرع امور مثلا نامحرم مرد وعورت کا اختلاط، شراب نوشی، رقص وسردو اور وقت موعود سے نماز کا ٹالنا و ترک کرنا وغیرہ ہوگا وہ ڈیز ممنوع قرار پائے گا. ہاں جب ان امور سے خالی اور مفید مثلا اس موقع سے متعلقہ شخصیات و تحریکات کو یاد کرکے، ان سے اور انکی تاریخ و تحریک سے نیی نسل کو آگاہ کرنا، انکو مہمیز کرنا، احتساب اور جایزہ لینا وغیرہ جیسے، نتیجے پر منتج اگر پروگرام ہو، تو اسے مباح کے درجے میں رکھا جاسکتا ہے. 
متذکرہ بالا معیار کی روشنی میں آپ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ 'ممنوع انٹرنیشنل ڈے' جیسے یوم عشاق Valentine'sday اور 'مباح انٹرنیشنل ڈے' جیسے عالمی یوم صحت، اسی طرح 'قومی مباح ڈے' جیسے یوم جمہوریہ اور ' قومی ممنوع ڈے' جیسے غیروں کی قومی تہوار اور 'قومی مباح انفرادی ڈے' جیسے اداروں کی یوم تاسیس اور 'قومی ممنوع انفرادی ڈے' جیسے شادی کی سالگرہ اور برتھ ڈے وغیرہ ہیں.بھلے ان میں چند امور کو لیکر علماء کے اختلافات بھی موجود ہیں. 
اب ظاہر ہے کہ یوم اساتذہ کے موقع سے طلبہ اور انکے والدین کے دلوں میں علم وفن کی عظمت بٹھائی جائے، اساتذہ کی شفقت اور انکی ذمہ داری انہیں یاد دلائی جائے، قوم و معاشرے میں ان سب کی اہمیت اجاگر کی جائے، طلبہ میں مشہور نامور اساتذہ جیسا بننے پر انہیں مہمیز کیا جائے، اخلاق و اصول کی پابندی انکے دل ودماغ میں ترو تازہ کیا جائے تو یہ سب مطلوب ہی قرار پاتے ہیں، بلکہ اس موقع سے کس کے کس پر کیا کچھ فرایض عاید ہوتے ہیں اس حوالے سے انکا انہیں حلف دلایا جائے اور آیندہ پروگرام میں اسکی تجدید و تحقیق ہوتی رہے، تو سونے پر سہاگہ! 
مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 'یوم اساتذہ' شرعا مباح کے درجے میں آتا ہے.
یعنی جس طرح انڈپنڈینس ڈے مناتے ہیں اور قومی بہادروں و مجاہدوں کی بہادری اس موقع سے اجاگر کرتے ہیں، اسی طرح ان ڈیز کو بھی انگیز کیا جاسکتا ہے بایں طور کہ ان موقع سے متعلقہ موضوع پر منفی و مثبت پہلو سے گفتگو کرنے، سیکھنے سکھانے والا ایک مباح پروگرام سمجھ کر ہی کیف ما اتفق نظم وانتظام کیا جائے. گفٹ و مٹھائی وغیرہ بھی اسی پر قیاس کرکے سمجھ لیں! 
ہاں جب اسکا التزام و اہتمام اس طرح ہونے لگے کہ نہ کرنے والے کو گستاخ سمجھا جایے تو ایسے موقع سے اسے ترک کرنا اولی و أنسب ہوگا. فقہاء کرام نے اسی لئے لکھا ہے کہ کسی مستحب عمل کو بھی عوام اگر ضروری سمجھنے لگیں تو اس کا ترک لازم ہوجاتا ہے، جبکہ مذکورہ ڈے مستحب بھی نہیں بلکہ اسے درجہ مباح میں رکھا گیا ہے.
لہٰذا مکرر عرض ہے کہ جب اسے لیکر عوام و خواص میں اس درجہ غلو ہونے لگے کہ یہ ڈیز رسم کی شکل بن جائے اور اسے ضروری سمجھا جانے لگے، تو اس کا ترک کردینا بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔
========================
(١) ما في ’’صحیح البخاري‘‘: ’’إذا أمرتکم بشيء فافعلوہ ما استطعتم ، وإذا نہیتکم عن شيء فانتہوا‘‘۔ (۲/۱۰۸۲، کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، سنن ابن ماجہ: ص/۲، المقدمۃ، باب اتباع سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ)
ما في ’’الأشباہ والنظائر لإبن نجیم‘‘: ’’لأن اعتناء الشرع بالمنہیات أشد من اعتنائہ بالمأمورات‘‘ ۔ (ص/۷۸) (قواعد الفقہ:ص/۸۱، قاعدۃ :۱۳۳)
(۳) ما في ’’الأشباہ والنظائر لإبن نجیم ‘‘ : ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ - ’’ما أُبیح للضرورۃ یتقدر بقدرھا‘‘۔ (۱/۳۰۷ ، ۳۰۸)
(٣) الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ۔(سعایۃ ۲؍۲۶۵، الدر المختار،باب سجدۃ الشکر / قبیل باب صلاۃ المسافر ۲؍۱۲۰ کراچی، ۲؍۵۹۸ زکریا)
قال الطیبي: وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزمًا، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب من الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی أمر بدعۃ أو منکر۔ (مرقاۃ المفاتیح ۲؍۱۴، فتح الباري ۲؍۳۳۸)
ھذا عندی والصواب عنداللہ 
توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
05/09/2019 
+919122381549
+918789554895
--------------------------------------------------------------------------------
⚖سوال و جواب⚖ 
📋مسئلہ نمبر 910📋
(کتاب الحظر و الاباحہ، جدید مسائل)
 یوم اساتذہ منانے Teachers Day celebration کا حکم 
 سوال: ٹیچر ڈے منانا شرعا کیسا ہے؟ جبکہ انگلش میڈیم اسکولوں کے ساتھ ساتھ اردو اسکول والے بھی ٹیچر ڈے مناتے ہیں اور اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں اب یہ مدارس میں بھی آچکا ہے طلبہ اساتذہ کو اس موقع پر گفٹ کرتے ہیں اور مدارس کے بعض طلبہ بھی ٹیچر دے مناتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے مدلل ، مفصل جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں 
فقط والسلام 
(محمد افتخار احمد، جمشید پور)
 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 
 الجواب وباللہ التوفیق
اس وقت دنیا میں ڈیز (Days) کی بھرمار ہے، ہر آئے دن کوئی نا کوئی ڈے پایا جاتا ہے، ان ڈیز کی شروعات مذہب بیزار مغربی ممالک اور لادین معاشرے میں ہوئی اور وہیں سے اب ہر ملک و قوم میں فروغ حاصل کرتی جارہی ہے؛ چونکہ ان ملکوں میں لوگوں کو وہ حقوق حاصل نہیں جو اسلام نے دییے ہیں؛ بلکہ انہیں حقوق کا صحیح علم ہی نہیں؛ مثلاً ماں باپ کے کیا حقوق ہیں؟ اساتذہ کے کیا آداب ہیں؟ ملازمین و خدام کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے وغیرہ اس لیے وہ اس کے لیے ایک دن متعین کرکے کچھ خاص قسم کے کام کرکے اپنی دلجوئی یا تسلی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ اس کے بالمقابل شریعت اسلامی ایک مکمل نظام زندگی ہے جس میں سب کے حقوق بھی بتایے گیے ہیں اور انہیں بروئے کار لانے کی تاکید بھی کی گئی ہے؛ اس لئے مسلمانوں کو ان ڈیز کی نہ کبھی ضرورت تھی اور نہ آج ہے، یہ ایک لایعنی عمل ہونے کے ساتھ مغربی افکار کا ساتھ دینے اور انکی پیش کردہ باتوں کو فروغ دینے اور بسر و چشم قبول کرلینے کے مترادف ہے؛ اس لئے ان ڈیز کے منانے سے احتراز لازم ہے، عرب محققین کی ایک بڑی تعداد نے ان ڈیز کو غیر مشروع اور واجب الترک قرار دیا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
 📚والدليل على ما قلنا📚 
(١) ”مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ“[رواه أبو داوود (4033)] .
وهذا الحديث أقل أحواله أنه يقتضي تحريم التشبه بهم ، وإن كان ظاهره يقتضي كفر المتشبِّه بهم ، كما في قوله : “وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ”  [فتاوى شيخ الإسلام (1/270)]
فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ” [أخرجه أبو داود (4609)، والترمذي (2676)]
عيد المعلم ليس له أصل، ما للناس إلا أعياد معروفة، عيد الفطر، وعيد الأضحى، وأيام منى أيام عيد، ويوم عرفة يوم عيد اجتماع للمسلمين، أما عيد المعلم، أو عيد المولد على رأس كل سنة ، كل هذا لا أصل له. [فتاوى نور على الدرب (3/111)]
فالواجب ترك هذه البدع والأعياد الجاهلية ، ومنها : اليوم العالمي للمعلم ، وفق الله الجميع للعمل بكتابه وسنة نبيه صلى الله عليه وسلم وترك البدع والمحدثات ، وبالله التوفيق. [فتاوى اللجنة الدائمة للافتاء (2/292)].
 كتبه العبد محمد زبير الندوي 
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 5/1/1441
رابطہ 9029189288
 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے
-----------------------------------------------------------------

No comments:

Post a Comment